مسئلہ یوکرائن : ماسکو کا مسئلہ صرف نازی یوکرائن نہیں!

تحریر : حفیظ حسن آبادی
بظاہریوکرائن میں روسی اسپیشل آپریشن کی بنیادی وجہ یہی بتائی جاتی ہے کہ روس یوکرائن کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ نیٹو کا پروکسی بن کرروس کیلئے مستقل مسلے کھڑی کر سکے اور روسوفوبیاکی بنیاد پرہمسائے میں ایسی شاونسٹ و فاشسٹ نسل پروان چڑھے جو کل روس کے وجود کو خطرات سے دوچار کرے مگر اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت عیاں ہوتی جارہی ہے کہ اگر امریکا یوکرائن کے زریعے روس کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے ختم کرنے اور اسے بین القوامی طور پر تمام معاملات سے بے دخل کرنا چاہتا ہے تو روس امریکا کے عزائم کو بھانپ کر نہ صرف یوکرائن میں ڈی نازیفکیشن (De- Nazification)، ڈی ملٹریزائزیشن) (De- Militrization کا ارادہ رکھتا ہے بلکہ وہ پہلے جارجیا اور اب یوکرائن کو روس کے سامنے دشمن کے طور پر کھڑی کرنے والے امریکا کا ہاتھ روکنے کیلئے ڈی امریکنائزیشن ( De-Americanization) کا مرحلہ طے کرکے دنیا کو ملٹی پولر ماحول فراہم کرکے عالمی توازن کا نیا نظام متعارف کرانے کی کوششیں کررہا ہے۔
جہاں تک امریکا اور اس کے اتحادیوں کے بیانات کا تعلق ہے وہ تواس بات کے امکان کو رد کرتے ہیں کہ یوکرائن روس کیلئے مسئلہ پیدا کرسکتا تھا اس لئے روس کا اسپیشل آپریشن شروع کرنا ایک مفروضے کی بنیاد پر کھڑا غلط قدم ہے۔مگر پچھلے دنوں سابق جرمن چانسلر انجیلا میرکل (Angela Merkeil )فرانس کے سابق صدر فرانسوا اولاند Francois Holland))اور یوکرائن  کے سابق صدر پیترو پراشینکو (Petro Poroshenko)کے بیانات امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ان عزائم کی تصدیق کرتے ہیں جہاں تینوں متذکرہ لیڈروں نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ فرانس،جرمنی و آرگنائزیشن فار سکیورٹی اینڈ کواپریشن ان یورپ  (OSCE) کی ثالثی میں روس اور یوکرائن کے درمیان طے پانے والے 2014-15ءمیں ہونے والے مینسک معاہدات کا مقصد یوکرائن کیلئے وقت لینا تھا تا کہ وہ روس کے خلاف جنگ کی تیاری کرکے روس کو شکست دے سکے۔اس کا مطلب صاف ہے کہ روس جس عمل کو امریکا و مغرب کی طرف سے امن کی کوششیں اور ڈپلومیسی کو موقع فراہم کرنے کی خواہش سمجھ رہا تھا در اصل وہ روس کے خلاف ایک سازش تھی ایک دھوکہ تھا۔
یوکرائن کو جنگ کیلئے تیار کرنے کیلئے مغرب نے زبردست فنڈنگ کے ساتھ ہر طرح کی مدت کی تاکہ وہ 1967ءکے عرب اسرائیل جنگ کی طرح مختصر مدت میں روس کو شکست دے۔کیونکہ اسرائیل کے معاملے میں وہ کامیاب ہوئے تھے جو ایک نوزائیدہ ریاست اسرائیل نے پانچ عرب ملکوں (سعودی عرب، اردن، شام، مصر، عراق جبکہ کویت اور لبنان کی بھی جزوی مدد شامل تھی) کو چھے دن میں شکست دی تھی مگر یہاں وہ یوکرائن سے اسرائیل نہ بناسکے اور نہ ہی روس ا±ن کے اندازے کے مطابق کمزور نکلا۔
مغرب کی بے پناہ مدد اور ہر طرح کی پشت پناہی کے باوجود کیوں یوکرائن اسرائیل جیسا طاقتور و منظم نہ بن سکا؟ اس سوال کا جواب اس مختصرمگر غیر مناسب جملے میں ایک امریکی سابق میرین افسرآندریو میلبورن (Andrew Milburn) نے دیا ہے جو یوکرائن میں ’موزارت گروپ (Mozart Group) کا بانی مانا جاتا ہے نے روس کے خلاف یوکرائینیوں کو جنگی تربیت دی ہے وہ کہتے ہیں:
 ”Ukraine is a corrupt f****d-up society “۔
اس ایک جملے سے پتہ چلتا ہے کہ امریکیوں کا اپنے اتحادی قوم کے بارے میں کیا رائے ہے مگر وہ اسکے باوجود یوکرائن کو روس سے لڑانے کے پروجیکٹ سے دستبردار نہیں ہوئے کیونکہ ایک تو وہ اس پروجیکٹ پر بھاری سرمایہ کاری کرچکے تھے دوسرا یہ کہ کوئی اور ہمسایہ ملک روس سے خواہ مخواہ ٹکر کی غلطی کرنے آمادہ نہیں تھا۔یا یوں کہیے کہ کوئی بھی گلے کیلئے سونے کا ہار حاصل کرنے گردن کٹانے آمادہ نہیں تھا۔
یہاں یہ کہنا مکمل طور پرشاید درست نہ ہو کہ امریکا اور اسکے اتحادی یوکرائن کی تیاریوں سے مطمئن تھے،کیونکہ اگر وہ یوکرائن کی روس کے خلاف تیاریوں سے مطمئن ہوتے تو کبھی بھی جلد بازی میں افغانستان کوپاکستان کی جھوٹی گارنٹی پر افغان جنگجوﺅں کے حوالے کرکے یہاں سے بھاگ نہیں جاتے (افغانستان کو دوزخ میں ڈالنے اور امریکی ناکام انخلا پر ہم الگ مضمون میں بحث کریں گے)۔ افغان مسلے سے نسبتاًً فارغ ہونے کا مقصد یہی تھاتاکہ روس اگر کسی بھی مرحلے پریوکرائن پر حملہ کرے تو وہ سب مل کر روس کے سامنے کھڑے ہوجائیں۔
اس خیال کے پیش نظر مغرب نے اپنی پوزیشن بہتر کرنے کیلئے پہلا فرنٹ سینٹرل ایشیا میں کھول کر روس اور اسکے اتحادی ریاستوں (خاص کر تاجکستان و ازبکستان) کو وہاں مصروف رکھ کر دوسرا فرنٹ یوکرائن میں کھولنے کیلئے پورا کا پورا توجہ مبذول کیا۔مگر یہ منصوبہ اس طرح ناکام ہوا کہ انہیں افغانستان میں سینٹرل ایشیا کیلئے فرنٹ کھولنے کا موقع ہی نہیں ملاکیونکہ جو داعش کے ہزاروں جنگجو افغانستان کے شمال میں اشرف غنی حکومت کے آخری دنوں میں جمع کئے گئے تھے ا±نھیں سینٹرل ایشیا پہنچا کر ا±نھیں منظم کرکے ا±نکی ترتیب و تشکیل نہیں ہو پائی تھی کہ روس نے غیر متوقع طور پر پہل کرکے یوکرائن میں جنگ چھیڑ دی۔
یہاں ایک بات قابل ذکر رہے کہ ایک طرف روسی وزارت دفاع و انٹیلی جینس اداروں نے مل کرمغرب اور یوکرائن کو روس کے خلاف مزید تیاریوں کا موقع نہیں دیا تو دوسری طرف روسی وزارت خارجہ نے افغانستان سمیت اس ریجن میں بے مثال حکمت عملی اپنا کر سب کو یا تو اپنا اتحادی بنایا یا ا±نھیں غیرجانبدار رہنے آمادہ کیاجس کے لئے امریکا اور اسکے اتحادی بالکل بھی زہنی طور پر آمادہ نہیں تھے۔
یوکرائن کی”کامیابیوں“ کے داستانوں کی حقیقت:مغربی میڈیا میں یوکرائن میں روسی اسپیشل آپریشن کے شروع دنوں سے چند باتیں تواتر سے کی جا ررہی ہیں جن میں سے کچھ باتیں بہت جلد افواکی طرح پھیلے اور ہوا میں گم ہوئے مثلاً صدر پیوٹن شدید بیمار ہے اور وہ کسی بھی وقت اقتدار سے سبکدوش کئے جائیں گے یا یہ کہ یوکرائن میں جنگ کو لیکر روس میں پیوٹن کیخلاف لوگ اٹھ رہے ہیں، روسی معاشرہ اندر سے تقسیم در تقسیم کا شکار ہے جس سے کریملن شدید دباﺅ میں ہے جو کسی بھی وقت پیوٹن کے اقتدار کے خاتمے کا سبب بن سکتا ہے، یا یہ کہ روسی معیشت زمین بوس ہوجائیگی اور روس سوویت یونین کی طرح اقتصادی مسائل کی وجہ سے اندر سے ٹوٹ کر بکھر جائے گا یا یہ کہ یوکرائینی فوج زبردست پیشقدمی کررہی اور روسی فوج ا±ن کے مقابلے میں بہت کمزور ہے انھیں میدان میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں مل رہی ہے۔
مگر اب وقت نے ہر چیز کو اس کے صحیح جگہ پر رکھ دی ہے اور ہمارے سامنے نتیجہ یہ ہے کہ پیوٹن مکمل طور پر تندرست ہے، روسی قیادت میں مذکورہ مسئلے کو لیکر کوئی اختلاف موجود نہیں، روسی معاشرہ بھی کسی بھی وقت سے زیادہ متحد ہوچکا ہے، روسی معیشت یورپی معیشت سے کہیں زیادہ بہتر پوزیشن میں ہے، جہاں افراط زر 4.7 فیصد اور 5 فیصد کے درمیان ہے جبکہ یورپ میں 10 فیصد سے لیکر 20 فیصدتک ہے۔
یوکرائن کو اب تک صرف امریکا کی طرف سے سو ارب ڈالرکی جنگی مدد ملی ہے مگراس کی ”کامیابیوں“ اور ”پیشقدمیوں“ کا نتیجہ یہ ہے کہ اس کے زمین کا 27 فیصد روس کے قبضے میں آچکا ہے ہے اور ا±سکی 50 فیصد آبادی ملک چھوڑ کر روس، یورپ اور دنیا کے مختلف ممالک میں جا کر پناہ لے چکی ہے۔ اس کا انرجی سیکٹر 90 تباہ ہوچکی ہے اس کی فضائی صلاحیت تو جنگ کے شروع دنوں میں ہی روس نے تقریباً تقریباً تباہ کیا تھا۔ بین الاقوامی طور بھی جغرافیائی لحاظ سے دنیا کی 80 فیصد جغرافیہ یا روس کے ساتھ ہے یا اس کیخلاف پابندیوں کا مخالف ہے، یا روس سے تعلقات ختم کرنے کا حامی نہیں اور آبادی کے لحاظ سے چھ بلین انسان یا روس کے ساتھ ہیں یا روس کو دیوار سے لگانے امریکا کی پالیسیوں کی حمایت نہیں کرتے۔ مزید برآں امریکا کی تمام تر کوششوں کے باوجود برکس (برازیل روس، انڈیا، چین، ساﺅتھ افریقہ) BRICS ممالک کو روس کیخلاف کوئی قدم ا±ٹھانے آمادہ نہ کرسکا۔ نہ شنگھائی کوپریشن آرگنائزیشن۔ SCO وگروپ آف ٹوئنٹی  G20سے روس کو معطل یا خارج کیا جاسکا ہے، اسی طرح دی آرگنائزیشن آف دی پیٹرولیم ایکسپورٹنگ کنٹریز OPEC میں بھی روس کیخلاف کوئی بھی فیصلہ نہیں کیا جاسکا ہے۔ اب اس کے باوجود اگر مغرب میں یہ بات کی جاتی ہے کہ یوکرائن یہ جنگ جیت رہا ہے اور روس دنیا میں تنہائی کا شکار ہو کر ہار رہا ہے، تو وہ ایسا کہہ سکتے ہیں کیونکہ وہ افغانستان میں بھی ٹھیک ایسا ہی کہا کرتے تھے اب یہاں یہ چبھتا ہوا سوال پیدا ہوتا ہے کہ افغانستان میں جہاں وہ اپنے فوجیوں اور تمام جدید جنگی ساز و سامان کیساتھ ٹوٹی پھوٹی موٹر سائیکلوں پر سوار افغان جنگجوﺅں کو شکست نہ دے سکے تو وہ یوکرائن میں روس جیسی سپر پاور کی ریگولر آرمی کو کیسے شکست دیں گے؟ جہاں افغانستان کی طرح ا±نکے فوجی بھی نہیں صرف ہتھیارہیں جو وہ وقت پر نہیں پہنچا سکے اور نہ ہی آئندہ دنوں ا± س مقدار میں یوکرائن کووہ تمام اسلحہ پہنچا سکیں گے جن کاوہ مطالبہ کررہے ہیں کیونکہ جس حساب سے وہ وعدے کررہے ہیں وہ اسے پورا نہیں کرسکتے کیونکہ یوکرائن کو اسکی ضرورتوں کے مطابق اسلحہ مہیا کرنے کا مطلب ہے کہ اپنے پاس اپنے دفاع کیلئے کچھ نہ رکھا جائے اور وہ ایسا نہیں کرسکتے۔
اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ فرض کرلیتے ہیں کہ نیٹو نے وہ سب کچھ یوکرائن کو دیا جسکی وہ مانگ کررہا ہے اور اس کے بعد بھی روس کو شکست نہ دے سکا تو نیٹو اور یوکرائن مزیدکیا کریں گے؟ یہ وہ سوال ہے جو بہ زود یا بہ دیر ان کے سامنے ا±ٹھے گا اور یہی وہ مرحلہ ہوگا جہاں سے مسلے کے حل کیلئے ٹیبل پر بیٹھا جائے گا۔
اگر امریکا اور اسکے اتحادی جیت جائیں گے تو یقیناً روس کے ساتھ کوئی بات نہیں کرے گا بلکہ روس کو گرم کیک کی طرح کاٹ کر آپس میں تقسیم کریں گے لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرسکے اور روس جیت گیا تو کیا روس ان کے ساتھ بیٹھے گا؟ اگر بیٹھے تو کن شرائط پر؟
اس وقت روس کے معاملے میں امریکا کسی بھی وقت سے زیادہ دباﺅ اور بہت حد تک تنہائی کا شکار ہے نہ لاطینی امریکا ساتھ ہے نہ انڈیا بات سننے کو تیار ہے، نہ عرب پہلے کی طرح حکم کی تعمیل کررہے ہیں اور نہ چین کو ڈرانا ممکن رہاہے اور اتحادی (خاص کر یورپی ممالک) جو بظاہر روس کیخلاف امریکا کے ساتھ ہیں اور روس پر پابندیوں کے حق میں ہیں مگر ان کے لیڈر اپنے اقدامات سے اپنے عوام کو مطمئن کرنے کامیاب نہیں ہورہے ہیں، فرانس سے لیکر جرمنی تک عام لوگ اس جنگ کو مصیبت کے طور پر دیکھتے ہیں کیونکہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان یورپ کو ہورہا ہے۔ مہاجرین کا بوجھ، مہنگائی، بیروزگاری، کارخانوں کی بندش یا انکے کام میں تعطل، انرجی بحران سب کے سب یورپ کے حصے میں ہیں۔یورپی ممالک روسی تیل، گیس و فرٹیلائزر وغیرہ سے بائیکاٹ کی وجہ سے اب تک آٹھ سو ارب ڈالر اپنے صارفین کو سبسیڈی دے چکے ہیں مگر اس کے باوجود لوگوں کو بدترین معاشی مشکلات سے نجات نہیں دیا جاسکا ہے۔ بلومبرگ کے مطابق جرمنی مستقبل میں توانائی کے مسلے سے نمٹنے کیلئے ایک ٹریلین ڈالر مختص کرنے جارہی ہے یہی صورتحال باقی اکثر یورپی ممالک کی ہے۔
جنگ کا ماحول پیدا ہونے کی وجہ سے تمام یورپی ممالک اسلحہ جمع کرنے کی دوڑ میں اربوں ڈالر جھونک رہے ہیں جس سے ا±نکے لوگوں کی سوشل لائف بری طرح متاثر ہورہی ہے اور ان کے معیار زندگی پر گہرے منفی ومایوس کن اثرات مرتب ہورہے ہیں جبکہ اس جنگ کا سپریم کمانڈر امریکا ان تمام مسائل سے نہ صرف آزاد ہے بلکہ یہ جنگ اس کیلئے کمائی کا ذریعہ ہے جویورپ میں انرجی بحران سے فائدہ اٹھا کر اپنا گیس ا±نہیں مہنگے داموں بیچ کر اربوں ڈالر کما رہا ہے۔
حرف آخر: یہ جنگ روس کو اشتعال دلا کر یوکرائن میں شروع کی گئی مگر اب یہ یوکرائن سے نیونازیزم اور یوکرائن کو اسلحہ سے پاک کرکے ختم نہیں ہونے والی کیونکہ اب یہ بات روسیوں کیلئے پوری طرح کھل گئی ہے کہ وہ یہ جنگ یوکرائن کی نیونازی رجیم سے نہیں بلکہ نیٹو اور امریکا کیخلاف لڑرہے ہیں اور روس میں اس بات بھی غور ہورہا ہوگا کہ نیٹو اصل میں ویھرمیخت (Wehrmacht) کی جدید شکل ہے جس طرح ہٹلر سوویت یونین سے نفرت کرتا تھا، نیٹو ممالک بھی ورثے میں وہی نفرت لیکر 1949ءمیں اس فوجی اتحاد کی تشکیل کرتے ہیں جس کے بنیاد گزار وہی لوگ تھے جنہوں نے جرمنی میں نازی ازم کو پھیلانے اور یورپ کے کئی ممالک پر قبضہ اور سوویت یونین پر حملے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا جس سے لگ بھگ پانچ کروڑ انسان لقمہ اجل بن گئے تھے۔ ان میں خاص کر لیفٹیننٹ جنرل ا±دولف ھیوزنگر (Adolf Heusinger) جو دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کا دست راست اور چیف آف آرمی اسٹاف تھا 1961ءسے 1964ءتک نیٹو کا چیئرمین تھا۔
گویا جو کام ہٹلر کی نازی مشترکہ فوج (Wehrmacht) نہ کرسکی اب یہ کام نیٹو کے پلیٹ فارم سے کئی یورپی ممالک مل کر کریں گے اب جب بات ایسی ہے تو پھر روس کی اسٹرٹیجی بھی ویسی ہوگی جو دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کے مشترکہ فوجی طاقت کو شکست دینے کیلئے سوویت یونین کی ہوئی تھی یعنی دشمن کا جڑسے خاتمہ!
یاد رہے ا±س وقت جب سوویت سرخ آرمی نے ہٹلر کو سوویت یونین سے خارج کیا تھا تو سوویت قیادت کے سامنے یہ مشورہ بھی سامنے آیا تھا کہ ہم نے ا پنا ملک آزاد کیا اب یورپ جانے جرمنی جانے مگر سوویت قیادت نے اسٹالن کی سربراہی میں نازیزم کو جڑ سے اکھاڑنے اور سقوط برلن کا فیصلہ کیا۔
اس بار روس امریکا کو یہ اجازت نہیں دے گا کہ وہ کسی اور بہانے کسی اور جگہ سے روس پر پھر کوئی اور وار کرے بلکہ وہ اس جنگ کو نئے عالمی معاہدات کے بعد ہی ختم کرے گا جہاں امریکا کی عالمی اجارہ داری ختم ہوگی اور دنیا دوبڑی قوتوں کے درمیاں نئی قائم توازن کے مطابق آگے بڑے گی۔ دوسرے لفظوں میں روس ڈی امریکنائزیشن کے ساتھ ہی جنگ کا خاتمہ کرے گا اور روس کیلئے ڈی امریکنائزیشن کا مطلب امریکا کا خاتمہ نہیں بلکہ ا±سکی من مانی ختم کرنا اور اسے عالمی قوانین کے ایسے تابع کرنا ہے جو وہ دنیا سے ا±نکے پاسداری کی ”خواہش“ رکھتا ہے۔ روسی قیادت کی باتوں سے یہ صاف عیاں ہے کہ وہ آگے اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے کہ امریکا خودکو تمام بین الاقوامی قوانین سے بالاتر سمجھ کر جو جی میں آئے کرے۔ کیونکہ اگر انہوں نے اس ڈی امریکنائزیشن کے مرحلے کو پایہ تکمیل تک نہیں پہچا یا تو وہ روس کیلئے اور شاید دنیا کیلئے اگلی بار ایسی مصیبت کھڑی کرے جس سے شاید نجات ناممکن ہولہٰذا روس کی طرف سے امریکا کو یہ واضح پیغام ہے کہ: (Enough is Enough)

اپنا تبصرہ بھیجیں