عوامی اور انقلابی شاعر حبیب جالب

تحریر: محمد شہزاد بھٹی
یوں تو سرزمین پاکستان پر بہت سے شعراءکرام نے جنم لیا مگر شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے بعد پاکستان میں اگر کسی نے سب سے زیادہ مقبولیت حاصل کی ہے تو وہ پاکستان کے نامور عوامی اور انقلابی شاعر حبیب جالب ہیں۔ حبیب جالب کو ہم سے بچھڑے 30 برس بیت گئے۔ وہ 24 مارچ 1928ءکو میانی افغاناں، ہوشیار پور میں پیدا ہوئے۔ حبیب جالب کا اصل نام حبیب احمد تھا۔ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے حبیب جالب جب تک زندہ رہے ان کا دل پاکستان کے غریب محنت کش عوام کے ساتھ دھڑکتا رہا،وہ محکوموں اورمظلوموں کی آواز بن کر گرجتے رہے۔ دوٹوک شاعری کرنے والے عوام دوست حبیب جالب نے اردو شاعری میں مروجہ روایات سے بغاوت کی اور اپنا قلم عام آدمی کیلئے وقف رکھا۔ حبیب جالب بغاوت لکھتے ہی نہیں تھے بلکہ وہ بغاوت کرتے بھی تھے۔ اردو ادب میں حبیب جالب کا مقام اپنی جگہ مگر پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بھی ان کی قربانیاں اورخدمات بھی ناقابل فراموش ہیں۔ حبیب جالب کو کئی بار ریاستی اداروں کا تشدد برداشت کرنا پڑا، ان کے کلام پر پابندی لگائی گئی، ان کا پاسپورٹ 32 سال ضبط رہا۔ حبیب جالب عمر بھر کٹھن اوردشوار راستوں پر چلتے رہے۔ انہوں نے زندگی بھر عوام کے مسائل اور خیالات کی ترجمانی کی اور عوام کے حقوق کے لئے آواز بلند کرتے رہے۔ 1962ءمیں انہوں نے صدر ایوب خان کے آئین کے خلاف اپنی مشہور نظم دستور تحریر کی جس کا یہ مصرع ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا پورے ملک میں گونج اٹھا، بعدازاں انہوں نے فاطمہ جناح کی صدارتی مہم میں بھی فعال کردار ادا کیا۔ سیاسی اعتبار سے وہ نیشنل عوامی پارٹی کے مسلک سے زیادہ قریب تھے اور انہوں نے عمر کا بیشتر حصہ اسی پارٹی کے ساتھ وابستہ رہ کر بسر کیا۔انہوں نے ہر عہد میں سیاسی اور سماجی ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کی جس کی وجہ سے وہ ہر عہد میں حکومت کے معتوب اور عوام کے محبوب رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے عہد میں ان کی نظم لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو، ضیاءالحق کے دور میں ظلمت کو ضیا، صرصر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا اور بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں ان کی نظم وہی حالات ہیں فقیروں کے، دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے نے پورے ملک میں مقبولیت اور پذیرائی حاصل کی۔ ان کے شعری مجموعوں میں برگ آوارہ، سرمقتل، عہد ستم، حرف حق، ذکر بہتے خون کا، عہد سزا، اس شہر خرابی میں، گنبد بے در، گوشے میں قفس کے، حرف سر دار اور چاروں جانب سناٹا شامل ہیں۔ حبیب جالب نے کئی معروف فلموں کے لئے بھی نغمہ نگاری کی جن میں مس 56، ماں بہو اور بیٹا، گھونگھٹ، زخمی، موسیقار، زمانہ، زرقا، خاموش رہو، کون کسی کا، یہ امن، قیدی، بھروسہ، العاصفہ، پرائی آگ، سیما، دو راستے، ناگ منی، سماج اور انسان شامل ہیں۔ انہیں انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں نے اعلیٰ اعزازات پیش کئے تھے۔کراچی پریس کلب نے انہیں اپنی اعزازی رکنیت پیش کر کے اپنے وقار میں اضافہ کیا تھا اور ان کی وفات کے بعد 2008ءمیں حکومت پاکستان نے انہیں نشان امتیاز کا اعزاز عطا کیا تھا جو خود اس اعزاز کے لئے باعث اعزاز تھا۔ 12 مارچ 1993ءکو حبیب جالب لاہور میں وفات پا گئے اور قبرستان سبزہ زار اسکیم میں آسودہ خاک ہوئے۔ اللہ کریم ان کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں