بلوچستان کے گیس صارفین مشکلات سے دوچار ہیں، وفاق کی بنائی گئی کمیٹی تاحال کوئٹہ نہیں پہنچی، سکندر ایڈووکیٹ

کوئٹہ :جمعیت علماءاسلام کے رہنما بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ملک سکندر خان ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ بلوچستان میں گیس اور بجلی کے سنگین مسائل کے حل کے لئے اراکین اسمبلی نے موثر آواز بلند کی ہے اور پارلیمان کے نمائندوں پر مشتمل ایک وفد نے وزیراعظم اور گیس بجلی کے سربراہان سے ملاقات کرکے بلوچستان کی صورت حال اور صوبے میں توانائی کے بحران کے حوالے سے آگاہ کرتے ہوئے بتایاتھا کہ اسکا سدباب کیا جائے وفا ق سے تاحال وفاقی وزراءکی آنیوالی کمیٹی کوئٹہ نہیں آسکی۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے پارلیمانی وفد میں چار صوبائی وزراءانجینئر زمرک خان اچکزئی ¾ حاجی نور محمد دمڑ ¾ میر نصیب اللہ مری ¾ عبدالخالق ہزارہ ¾ ملک نصیر احمد شاہوانی ¾ نصر اللہ زیرے ¾ ملک اکبر مینگل ¾ اصغر علی ترین ¾ حاجی عزیز اللہ آغا نے وفد کے ہمراہ ملاقات کی وزیراعظم کی جانب سے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف وفاقی وزیر پیٹرولیم سیکرٹری واپڈا سیکرٹری پیٹرولیم اور وفاقی نمائندے بھی موجود تھے بلوچستان کے نمائندوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی حکام کو آگاہ کیا کہ بلوچستان اسمبلی کے اراکین نے آئین کے آرٹیکل 172 شق 3 کے تحت قدرتی وسائل پر مشترکہ ملکیت کا مسئلہ قدرتی گیس بلوچستان کے باقی ماندہ علاقوں میں ترجیحی ضرورت کے تحت فراہم کرنا ہے آئین کے آرٹیکل 58 کی منشاءکے تحت فیصلہ کرنا ہے بلوچستان حکومت کو پی پی ایل ¾ او جی ڈی سی ایل ¾ ایس ایس جی ایل میں 20 فیصد حصص خریدنے کا دیرینہ مسئلہ سی سی آئی نے نومبر 2014 کی قرار داد کے مطابق حل کرنا بلوچستان میں گیس سے متعلق فکس بلنگ سے متعلق بلوچستان اسمبلی کی 14 فروری 2019 کی متفقہ طور پر منظور ہونے والی قرار داد پر عملدرآمد کرنا ہے بلوچستان کے سرد علاقوں کو گیس کی سہولت دی گئی ہے وہاں عوام کی جانیں بچانے کے لئے ستمبر سے مارچ تک 24 گھنٹے سو فیصد گیس کی فراہمی کا مطالبہ کیا گیا ہے بلوچستان میں گیس کی ضرورت 200 ایم ایم سی ہے اس وقت بلوچستان کے گیس صارفین بڑی مشکل صورت حال سے گزر رہے ہیں اور بلوچستان کی مقامی حکام کو چھوٹے پیمانے پر گیس کی سپلائی کے اختیارات دیئے جائیں تاکہ چھوٹے چھوٹے مسائل حل ہوسکیں اور گیس سپلائی پر عائد پابندی ختم کی جائے اس کے علاوہ بلوچستان کے زمینداروں کو کم از کم 8 گھنٹے بغیر کسی تعطل کے بجلی فراہم کی جائے بلوچستان کے 70 فیصد عوام کا ذریعہ روز گار زراعت اور لائیو اسٹاک سے منسلک ہے بلوچستان میں 1900 میگا واٹ بجلی کی ضرورت ہے جب کہ اس وقت صرف 600 میگا واٹ بجلی فراہم کی جا رہی ہے ہم نے وفاقی حکومت کے وفد کو اپنا تمام مقدمہ پیش کرتے ہوئے انہیں اس بات پر قائل کیا کہ وہ بلوچستان میں آ کر صورت حال کا جائزہ لیں کئی روز گزرنے کے باوجود وفاق نے خاموش اختیار کر رکھی ہے حالانکہ مذکورہ وفاقی نمائندوں اور حکام نے بلوچستان کے نمائندوں کی جانب سے پیش کردہ مسائل سے اتفاق کرتے ہوئے طے کیا تھا کہ بلوچستان میں اپنا مقدمہ مرکز کے سامنے واضح انداز میں رکھا ہے صوبے میں گیس اور بجلی سے متعلق فوری حل طلب مسائل کے حوالے سے وفاق کی سردمہری باعث تشویش ہے اگر یہی صورت حال برقرار رہی تو بلوچستان کے زمینداروں اور لوگوں کا دوبارہ احتجاج شدت اختیار کرے گا اس لئے مسئلے کو سنجیدگی کے ساتھ حل کرنا چاہیے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں