دعوت مژگاں کئے ہوے

قادربخش بلوچ
مملکت خداداد کے سیاسی صحرا میں موسم اس وقت انتہائی نا موزوں ھے سیاسی فضا خطرناک بادلوں میں گھرا ہوا ہے برساتی ہوائیں بھی دھیرے دھیرے اپنا رنگ جما رہی ہیں کچھ بعید نہیں کہ بادل ٹوٹ کر برسیں اور سیاسی سیلاب سب کچھ بہا کر لے جاے لیکن مملکت کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ یہاں سب کچھ ہو سکتا ھے یہ بھی یو سکتا ھے بادل برسیں بھلے ٹوٹ کر برسیں لیکن جن پر قدرت مہرباں ہو انہیں لمبی چھوڑی چھتری فراہم کی جاتی ھے تاکہ بادو باراں سے محفوظ رہیں اور انے والے وقت میں کام اسکیں بھلے عوام کا کچھ بھی ہو کیونکہ یہاں عوام ترجیحات میں شامل ہی نہیں پنجابی راجا میاں نواز شریف صاحب لندن میں تشریف فرما ہیں اور سوشل میڈیا کا بے تاج بادشاہ ٹویٹر پر انکے حامی راجا کیقصیدے پڑھ رہے ہیں اور ان کو ایسے پیش کر رہے ہیں جیسے وہ ہر پاکستانی کے خون میں شامل ہیں انکے بر عکس اگر اصف علی زرداری لندن یا فرانس میں زندگی کے ایام گزار رہے ہوتے تو انکے مخالفین انکی ایسی درگت بناتے کہ انکے اگلے سات پشت منھ دکھانے کے قابل نا ہو تے لیکن راجا تو راجا ہوتا ھے بیچارے بلوچستان کے گزیروں کا کوئی پرسان حال نہیں۔انکا اس جدید دور میں بھی کوئی ٹویٹر ٹیم نہیں ٹویٹر کی دنیا کے بڑے نام ڈاکٹر مالک کے علاوہ کسی بھی سابق وزراء اعلی کے اسماء گرامی سے مشکل سے ہی آشنا ہوں گے بلوچستان میں جتنے بھی وزراء اعلی گزرے بجز مالک بلوچ کے سارے کے سارے سابقے اور لاحقے سے مزیں تھے۔دلچسپ بات یہ ھے کہ ان میں کسی کا بھی کوئی سیاسی جماعت نہیں تھا ماسواے ڈاکٹر مالک صاحب کے لیکن اس جدید دور میں کسی بھی بلوچ رہنما کا دور جدید کے پل پل خبریں دینے والے ٹویٹر پر کوئی چرچا نہیں اسکی وجہ یہ ہے کہ بلوچ ابھی تک غور فکر کرنے والی زندگی سے بے خبر ھے وہ سمجھتی ھے کہ زندگی تو گزر ہی جاتی ہے بلوچستان کی بد قسمتی کی انتہا ھے کہ بلوچ ہمیشہ الزام دوسروں پہ لگاتا ھے۔لیکن کیا کوئی گزیر یہ بتانے کی زحمت گوارا کرے گا کہ اسکول اور سڑکیں بنانے پر کس نے انہیں روکا۔اگر کوئی روکنے والا ہوتا تو ڈاکٹر مالک کو کیوں نہیں روکا۔مقتدرہ ہمیشہ اپنے من پسند افراد کا انتخاب کرتا رہا ہے مقتدرہ صرف دو بار الیکشن میں تھپکی دینا بند کردے تو بلوچستان میں ہر ایک کو اپنی بھاو معلوم ہو گا اس وقت بلوچستان میں نہیں معلوم کن جماعت سیوابستہ گزیروں کی حکمرانی ھے۔ایک دلچسپ بات سننے کو ارہی ھے کہ پورے ملک میں تعلیمی لحاظ سے مکران دوسرے نمبر پر ھے۔ہمارے لوگوں کو نہیں علم کہ ساری دنیا میں ہماری کوئی درسگاہ۔جامعہ بین الااقوامئ معیار کے مطابق نہیں ھے اور ملک کے جتنے پڑھے لکھے لوگ ہیں سب ملک سے باہر جا بسے ہیں۔ہمارے ہاں امتحانات کا کیا پیمانہ سبکو معلوم ھے۔ بلوچستان کے عوام کا اخری امید ڈاکٹر مالک بلوچ ہیں لیکن ڈاکٹر صاحب کے اصطبل میں ایسے گھوڑوں کی بھر مار ھے۔جنکے تورگ ہمیشہ خالص جو اور پہکیں گندم سے بھری رہتی ہے جیسے کہ چاکر ء شیہک کے لاڈک گھوڑے ہمیشہ خالص جو اورپہکیں گندم کا تورگ اپنے سر پر سجا کر گندم اور جو سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ ہنہناتے بھی تھے ڈاکٹر صاحب کی پارٹی کی ایک ہلت یہ بھی ہے کہ یہاں گزرے ہوے زمانے والوں کی تعداد کچھ زیادہ ھے انہیں جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا اتا ہی نہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں