سریالیون اور بلوچ سماج کی تشکیل نو میں مماثلت اور ان کے ٹوٹے پھوٹے ادارے

تحریر: محمد صدیق کھیتران
1896ءمیں برطانیہ نے افریقہ کے ملک سریالیون ” Sierra leone” کو اپنی نوآبادی بنالیا اور وہاں فری ٹاو¿ن ” Free town ” میں اپنا دارلخلافہ بنالیا۔ اس سے پہلے برطانیہ کے ویلیم ویلبرفورس "William Wilberforce” نے 1808ءمیں برطانیہ میں غلامی پر پابندی کا بل منظور کروالیا تھا۔اس لئے فری ٹاو¿ن کا شہر واپس اور آزاد ہونے والے غلاموں کا گھر کہا جانے لگا۔ گوکہ نئے حالات میں فری ٹاو¿ن برطانیہ کی کالونی کا دارلخلافہ بن گیا تھا مگر ملک کے اندر بلوچستان کی طرح بہت ساری چھوٹی چھوٹی نیم خودمختار ریاستیں موجود تھیں۔ برطانیہ نے انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں اپنا اقتدار اعلئی اندرون سریالیون پھیلانا شروع کردیا۔بلوچستان کی طرح اس نے وہاں پر مقامی سرداروں سے معاہدے کرکے سنڈیمی نائزیشن کی۔ 31 اگست 1896ءکو برطانیہ نے ان مقامی معاہدوں کی روشنی میں سریالیون کو مکمل نوآبادی کا درجہ دے دیا۔اس نے علاقے میں ایک پیراماونٹ چیف "Paramount Chief” کا عہدہ تخلیق کیا۔اور اس کو بلوچ سرداروں کی طرح وسیع اختیارات دے دئیے۔مشرقی سریالیون میں ایک بڑا جنگجو قبیلہ سلوکو "Suluku” رہتا ہے ان کے ایک ضلع کونو "Kono ” میں ہیروں یعنی ڈائمنڈ کی معدنی دولت دریافت ہوئی۔ قابض کالونیل ایمپائر نے اس قبیلے سے اپنا پیراماونٹ چیف نامزد کردیا۔اس کے ساتھ دوسرے بڑے قبیلے سینڈور "Sandor” کو دوسرا چیف بنادیا اور اس کے پاس انتظامی اختیارات رکھ دئیے۔ان قبائلی سرداروں نے طاقتور اجنبی حکمران ریاست سے معاہدوں پر دستخط کر لیے مگر ان کو یہ ادراک بالکل نہیں تھا کہ ان معاہدوں کے نتیجے میں ان کی آزادی صرف اپنے قبائل کی لوٹ کھسوٹ اور جبر تک محدود ہو کر رہ جائے گی۔جب تاج برطانیہ نے فی گھر ٹیکس "Hut Tax ” 5 شیلنگ مقرر کی تب پھر 1898ءمیں وہاں کے سردار /چیف بغاوت پر اتر آئے۔ اس بغاوت کو گھروں پر ٹیکس کی بغاوت”Hut Tax Rebillion” کا نام دیا جاتا ہے۔ جنوب کے قبیلے منڈے "Mende” کے علاقے منڈلینڈ میں اس ٹیکس کے خلاف شدید مزاحمت ہوئی۔ بغاوت کے نتیجے میں گھروں پر ٹیکس ختم ہوا۔ مگر اب برطانیہ کو اپنی نوآبادی کو قابو میں رکھنا مسئلہ بن گیا تھا۔ادھر برطانیہ نے 1896ءسے ایک ریلوے لائن ملک کے بڑے گاوں سونگو "Songo Town” کو دارلخلافہ سے ملانے کیلئے بچھانا شروع کر رکھی تھی۔منصوبے کے مطابق اس لائن کو 1898ءتک مکمل ہونا تھا۔ مگر بغاوت کی وجہ سے یہ لائن فری ٹاو¿ن سے 55 میل تک ہی بچھ پائی تھی۔بغاوت کی نئی صورت حال دیکھ کر اب لائن کو نئی سمت کی طرف ” روٹیفنک” سے گاﺅں "بو” (Bo) کی طرف موڑنا پڑگیا۔آگے پھر اس لائن کو گاﺅں منڈلینڈ جوکہ بغاوت کا مرکز بنا ہوا تھا اس طرف لے جایا گیا۔ بغاوت کو کچلنے کیلئے برٹش پہلے وہاں جانے چاہتے تھے۔تاکہ وہاں بیٹھ کر پھیلی ہوئی شورش پر قابو پاسکے۔جب سریالیون کو 1961 میں آزادی ملی۔تو برطانیہ نے اقتدار وہاں کے مقامی چیف سر ملٹن مرگائی "Sir Milton Margai ” اور اس کی جماعت سریالیون پیپلزپارٹی کو سونپ دیا۔ 1967ءمیں سریالیون پیپلزپارٹی تھوڑے فرق کے ساتھ انتخاب ہار گئی۔یہاں سے پورے ملک کی بد بختی کا سلسلی شروع ہوا۔حکومے آل پیپلز کانگریس” APC” کے سیکا اسٹیونز "Saika Stevens "کے پاس منتقل ہوئی۔ سیکا اسٹیونز خود دوسرے بڑے قبیلے لمبا "Limba” سے تعلق رکھتا تھا۔وہ ریلوے لائن جو برطانیہ نے پہلے بغاوت کو کچلنے کیلئے بچھائی تھی وقت گزرنے کے ساتھ وہ معاشی سرگرمیوں کی ریڑھ کی حیثیت اختیار کر گئی۔1967ءکے بعد تو یہ لائن کوکا، کافی اور ڈائمنڈ کی مال برداری کا موثر ذریعہ بن گئی۔مال داروں ، زمینداروں اور کان کنوں کے گھروں میں خوشحالی آنے لگی۔وہاں کے عوام نے 1967ءکے انتخابات میں سریالیون پیپلز پارٹی کو بھاری اکثریت سے ووٹ دیئے تھے۔ جس کا سائکا اسٹیونز کو شدید ملال تھا جبکہ سائکا اسٹیونز کو اپنے اقتدار کو طول دینا تھا۔ اس کو وہاں کے عوام اور وہ بھی دوسرے قبیلے کی رعایا سے کوئی دلچسپی نہیں تھی بلکہ وہ اس معاشی آزادی کو اپنے لیئے خطرہ سمجھنے لگ گیا۔ نئے حکمران نے سب سے پہلے منڈلینڈ کی خوشحالی پر حملہ کیا۔ اقتدار میں آنے کے بعد اس نے فری ٹاو¿ن سے چلنے والی ریل کو بند کرنے کا اعلان کیا۔ اس کے فورا” بعد ریلوے ٹریک کو اسکریپ کے ریٹ میں نیلام کردیا۔تاکہ اس کے اقتدار چھین جانے کے بعد بھی منڈلینڈ کے لوگ تجارت نہ کرسکیں۔ سائکا اسٹیونز کے اس بدنیتی پر مبنی فیصلے کے انتہائی برے نتائج برآمد ہوئے۔تاریخ پڑھنے والوں کو اندازہ ہے کہ کسی وقت روس کے زار نکولس اول نے بھی اپنے ملک روس میں اس خوف سے ریلوے لائن بچھا نے کی اجازت نہیں دی کہ اس طرح اس کی بادشاہت کمزور ہوجائے گی۔کتنی عجیب بدقسمتی ہے ایک وقت تھا برطانیہ نے بغاوت کنٹرول کرنے کیلئے 1898ءمیں وہاں ریلوے لائن بچھائی۔ ٹھیک 69 سال بعد آزادی ملی اور تب وہاں کا مقامی حکمران عوام کی معاشی خوشحالی کو ختم کرنے اور غربت بڑھانے کیلئے سینکڑوں میل لمبی ریلوے لائن کو اکھاڑ رہا تھا۔وجہ صرف ایک تھی کہ اگر معاشی آسودگی علاقے میں آئے گی تو پھر وہ ذہنی آزادی مانگیں گے۔ایسی ہی صورتحال بلوچ سرداروں کی ہے۔ جو ریاست کا فنڈ چوری کر کے عوام کو علم، علاج ، اچھے انفراسٹرکچر اور خوشحالی سے محروم رکھنے کیلئے 75 سال سے عمل پیرا ہیں۔
سائکا اسٹیونز نے اپنے اقتدار کے پہلے ہی سال 1967ءمیں ملک میں خون خرابہ ،جنگ و جدل،جرائم اور خوف کی سربراہی کرکے مخالف سیاسی جماعت پیپلز پارٹی پر زمین تنگ کردی تھی۔اس جماعت کی سیاسی قیادت کا قتل عام کیا گیا ان پر جبر و ظلم کرکے جیلوں میں پابند سلاسل کیا گیا۔ بچ جانے والی مقامی قیادت ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئی تھی۔ سائکا اسٹیونز 1985ءتک بلاشرکت غیرے اقتدار پر قابض رہا۔ اس نے روس کے صدر پوٹن اور ترکی کے طیب اردگان کی طرح متعدد بار آئینی ترامیم کر کے اقتدار پر قبضہ جاری رکھا۔وہ 1971ءاور 1978ءکے انتخابات میں فراڈ کرکے اپنے آپ کو اعلءعہدوں پر برقرار رکھتا رہا۔اس کے زاتی اثاثے بڑھتے رہے مگر سریالیون غربت کے گڑھے میں دھنستا رہا۔
برطانیہ نے اپنے کالونیل دور میں بلوچ سرداروں کی طرح افریقہ میں بھی پیراماونٹ چیف کے عہدے تخلیق کیئے اور بلاواسطہ حکمرانی چلانے کا ذریعہ اختیار کیا۔ سنڈیمین بلوچستان میں ان سرداروں کے ذریعے اپنی حکومت کیلئے آبیانہ اور دوسرے ٹیکس وصول کرواتا رہا۔ اسی طرح سریالیون میں کسانوں سے ان چیفس کے ذریعے کوکو” Cocoa” اور کافی "Cofee ” کی فروخت کو حکومت کے تشکیل کردہ مارکیٹنگ بورڈ کے تابع کیا۔ تاکہ ذرعی پیداوار کی قیمتوں میں اتار چڑھاو کے دنوں میں کسانوں کو نقصان سے بچایا جاسکے۔ جس موسم میں فصل کی قیمتیں مندی کا شکار ہوتی تھیں ان دنوں کسانوں کو سبسیڈی یعنی امدادی قیمتیں دے کر فصل کے ریٹ کا توازن برقرار رکھا جاتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ زمیندار بھی حکومت کے قابو میں رہتے تھے ان سے آسانی سے حکومتی ٹیکس وصول کیا جاسکتا تھا اور ذراعی آمدنی بھی حکومتی ریکارڈ پر رہتی تھی۔ آزادی کے بعد زمینداروں کو خوش گمانی تھی کہ اب ان پر ٹیکس کم ہوجائے گا۔ کیونکہ برطانیہ کی حکومت کے خرچے باہر نکل گئے ہیں۔ جس کا فائدہ مقامی کسانوں کو ہوگا۔مگرایسا ہوا نہیں بلکہ صورتحال بدل گئی۔بورڈ نے کئی گنا ٹیکس بڑھا دئیے۔مثلا” 1960ءمیں آزادی کے سال میں کھجور پر زمیندار عالمی قیمتوں کا 56 فیصد،کافی پر 49 فیصد اور کوکو پر 48 فیصد وصول کرتا تھا۔ جبکہ آزادی کے 25 سال بعد 1985ءمیں سائکا اسٹیونز کے آخری سال وہاں کا کسان کھجور کے عالمی ریٹ پر 37 فیصد،کافی پر 29 فیصداور کوکو پر 19 فیصد قیمت وصول کررہا تھا۔ عوام کے آمدنی کا 90 فیصد سائکا اسٹیونز اپنے لئیے لے جاتا تھا۔ کوئی دیرپا روڈ، ہسپتال، یونیورسٹی اور فلاحی منصوبہ اس نے زمین پر نہیں بننے دیا بلکہ اگر بنایا بھی گیا تو وہ اپنی کرپشن کیلئے نمونے کے طور پر دکھایا گیا تھا جو اکثر پہلی بارش پر ہی سیلابی پانی میں بہہ جاتے تھے۔ ترقی کے نام پر لاگت کا بڑا حصہ اپنے ٹھیکیداروں کے ذریعے سے واپس اپنی جیب میں رکھ لیتا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں