بلوچ نیشنلزم اور سندھ

تحریر: جئیند ساجدی
قوم اور قومیت کے وجود اور تاریخ کے حوالے سے ماہر تعلیمات مختلف رائے رکھتے ہیں ایک مکتبہ فکر کا یہ خیال ہے کہ قوم اور قومیت دور قدیم کی چیز ہے۔ دوسرے مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے ماہر تعلیمات یہ تسلیم کرتے ہیں کہ بہت سی قومیں دور قدیم میں تھیں لیکن قومی شعور ان میں قرون وسطی (Medieval Era) میں آیا جب کہ تیسرے مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے یہ رائے دیتے ہیں کہ قوم اور قومیت کا وجود نہ دور قدیم میں تھا نہ قرون وسطی دور میں تھا بلکہ یہ جدید دور کی پیداوار ہے اس سلسلے میں ماہر قومیت بینڈک اینڈرسن یہ لکھتے ہیں کہ دراصل قومیت صنعتی انقلاب کے بعد وجود میں آئی ان کے مطابق قوم اور قومیت کو بنانے میں بڑا کردار پرنٹ ٹیکنالوجی یعنی اخبارات اور رسالوں نے ادا کیا۔وہ مزید لکھتے ہیں کہ موجودہ جرمن زبان کے پرنٹ ٹیکنالوجی سے قبل مختلف اقسام کے لہجے تھے اور جرمن مختلف لہجے بولتے تھے اور ان کے لہجوں میں اتنا فرق تھا کہ شمال جرمن ریاست والے جنوب جرمن ریاست والوں کے لہجے کو بمشکل سمجھ سکتے تھے اور بہت ہی مشکل سے گفتگو کرسکتے تھے یہی حال یورپ کے دیگر زبان بولنے والوں کا تھا ۔ان کے مطابق قوم پرستوں نے پرنٹ ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنی اپنی زبانوں کا ایک اسٹینڈرڈ لہجہ بنایا جس کی وجہ سے مختلف لہجے بولنے والے جرمن یا فرنچ ایک دوسرے کو سمجھنے لگے اور خود کو ایک قوم تصور کرنے لگے۔ اسی مکتبہ فکر کو ماننے والے مختلف اسکالر اپنے نظرےے کے دفاع میں یہ رائے دیتے ہیں کہ جرمنی 1789ءسے قبل 300 ریاستوں میں تقسیم تھا جبکہ 1815ءکے بعد یہ 39 ریاستوں میں تقسیم رہا اور 1870ءمیں یہ تاریخ میں پہلی بار متحد ہوا۔
اسی طرح اٹلی بھی ہزار سال سے بھی زائد مختلف ریاستوں میں تقسیم رہا اور اکثر ریاستوں کے حکمران جو اتالوی آبادی پر حکومت کرتے تھے اور وہ غیر اتالوی تھے 1871ءمیں اٹلی کافی صدیوں بعد متحد ہوا۔ اس مکتبہ فکر (ماڈرن) کے اسکالرز کی ایک بات حقیقت پر مبنی ہے جس سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا وہ یہ ہے کہ پرنٹ ٹیکنالوجی یا میڈیا نے واقعی قومیت کی لہر کو کافی فروغ دیا ہے۔ اتالوی لوگوں کو قومی شعور دینے میں مزنینی نامی ایک قوم پرست نے کلیدی کردار ادا کیا وہ پیشے کے اعتبار سے ایک صحافی تھے اور رس آرجیمنٹو نامی اخبار چلاتے تھے، اسی اخبارنے اتالوی قومی تحریک میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔ بلوچستان میں بھی یوسف عزیز مگسی جیسے قوم پرست نے بلوچوں کو قومی شعور دینے میں پرنٹ ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے کی کوشش کی تھی جس کی وجہ سے برطانوی سرکار نے قانون سازی کر کے بلوچستان میں اخبارات نکالنے پر پابندی عائد کردی تھی۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ قومیں اور قومیت قدیم اور قرون وسطی دور میں وجود نہیں رکھتی تھیں تو تاریخ میں ایسے کئی شواہد ملتے ہیں جس کی بنیاد پر اس ماڈرن مکتبہ فکر کے ماہر تعلیمات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ جب کرد جنگجو صلاح الدین ایوبی نے یروشلم پر قبضہ کیا تو یورپ کی مختلف ریاستوں نے عیسائی قومی جذبے کے نظریے کے تحت ان سے متعدد جنگیں لڑیں جنہیں کروسیڈز (صلیبی) کہا جاتا ہے اسی طرح جب ترکوں نے 1453ءمیں یورپ کے مرکز استبول پر قبضہ کیا تو عیسائی نظریے کے تحت یورپ کی مختلف سلطنتوں نے ترکی سے جنگیں لڑیں، اسی طرح قرون وسطی دور کے حکمران بابر مغل نے اپنی کتاب ”بابر نامہ“ میں اپنی قومیت چغتائی ترک قرار دی ہے اور دیگر قوموں سے حقارت کا اظہار کیا ہے۔ موجودہ خیبر پختونخوا میں جب بابر نے چڑھائی کی تو مقامی آبادی کو اپنی کتاب میں افغان کا لقب دیا اس جنگ کے حوالے سے وہ یہ تحریر کرتے ہیں کہ افغان جنگ کے ابتداءمیں تو مزاحمت کرتے ہیں لیکن جب وہ اپنی شکست یقینی سمجھتے ہیں تو وہ حملہ آور سے کہتے ہیں کہ ہم آپ کی گائے ہیں ہمارے گلے میں رسی ڈال دیں اور منہ میں چارہ، اسی طرح جب بابر کا مقابلہ خانوا کے میدان میں رانا سانگا کی قیادت میں راجپوتوں سے ہوا تو راجپوتوں کی بڑی تعداد دیکھ کر بابر کی فوج میں ہلچل مچنے لگی تو انہوں نے اپنے سپاہیوں میں جذبہ ڈالنے کے لئے اپنی شراب کی بوتل توڑ دی اور حلف لیا کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے وہ کبھی شراب نوش نہیں کرینگے اور اپنے سپاہیوں سے کہا کہ ہمیں آخری دم تک لڑنا ہے اگر ہم مرجائیں گے تو شہید ہونگے اور زندہ رہیں گے تو غازی ہونگے دونوں نتیجوں میںفتح ہماری ہوگی۔ اسی حوالے سے بلوچ دانشور جان محمد دشتی لکھتے ہیں کہ قومیت ضرور قدیم دور کی چیز ہوگی جب عرب سپاہی اپنے وطن سے دور دراز علاقوں میں جاتے تھے تو ضرور کسی قومی جذبے کی وجہ سے اتنا طویل سفر طے کرتے تھے اور جنگ لڑتے تھے کیونکہ بنا کسی قومی جذبے کے یہ کام کافی مشکل ہوتا تھا۔ جامعہ قائد اعظم کے اسسٹنٹ پروفیسر سلمان صفی شیخ اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں کہ قومیت کے جدید نظریے کی رائے کو اگر بلوچ قومیت پر لاگو کیا جائے تو ان کا نظریہ غلط ثابت ہو جائے گا کیونکہ بلوچستان میں صنعت کاری اور پرنٹ ٹیکنالوجی نہ 1948ءمیں تھی نہ ہی 1973ءمیں لیکن اس کے باوجود بلوچ ایک مضبوط قومی شعور کا وجود رکھتے تھے ان کی بات مشرقی اور مغربی بلوچستان کے بلوچوں کی حد تک تو درست ہے لیکن سندھ کے بلوچوں کے لئے یہ بات درست ثابت نہیں ہوگی کیونکہ وہ ایک بڑی تعداد میں سندھ میںرہنے کے باوجود بلوچ قومی شعور نہیں رکھتے یا بہت کم رکھتے ہیں وہ سندھ میں قرون وسطی دور یا 600 سال قبل آباد کار کی حیثیت سے آباد ہوئے۔ سندھی دانشوروں کا یہ دعویٰ ہے کہ سندھ ایک زمانے میں سبی اور ڈھاڈر تک پھیلا ہوا تھا یعنی کہ موجودہ کچھی کے تمام علاقے جیسے کہ نصیر آباد ڈویژن، جھل مگسی، سبی اور بولان سندھ کا حصہ تھے بعض بلوچ دانشور شاید اس بات سے اختلاف رکھیں لیکن غالباً حقیقت یہی ہے جو سندھی دانشور بتارہے ہیں۔ کچھی میں دو بڑے بلوچ حملے ہوئے جس کی وجہ سے یہاں ڈیمو گرافک تبدیلیاں آئیں ایک حملہ رند لاشار دور میں ہوا اور دوسرا حملہ خان عبداللہ خان قہار کے دور میں ہوا اس سے قبل یہاں سندھی، کلہوڑو خاندان کی حکومت تھی اس جنگ کے بعد یہ علاقہ بلوچوں کو بطور خون بہا ملا۔ اس کے علاوہ مختلف بلوچ قبائل مختلف ادوار میں سندھ میں معاشی وجوہات کی وجہ سے بھی ہجرت کرتے رہے ہیں اور اتنی ہجرت ہوئی ہے کہ اب کراچی سے لیکر جیکب آباد تک اور ان کے درمیان جتنے بھی ضلعے آتے ہیں ان تمام ضلعوں میں بلوچ قبائل پائے جاتے ہیں۔ 17ویں صدی کے آخر میں کلہوڑہ حکمرانوں نے کچھ تالپور بلوچوں کی بہادری سے متاثر ہو کر ان کو اپنی فوج میں شامل کر لیا تھا لیکن 1780ءمیں تالپوروں نے کلہوڑوں کی حکومت ختم کر کے اپنی حکومت قائم کرلی تھی۔ عموماً آباد کار دو اقسام کے ہوتے ہیں ایک آباد کار مقامی آبادی اور ان کے وطن پر غالب آجانے کے بعد خود کو مقامی آبادی سے جدا رکھتا ہے اور مقامی آبادی کی ثقافت اور زبان سے حقارت برتتا ہے اور ان کے وطن کو اپنا وطن تصور نہیں کرتا بلکہ محض معاشی اعتبار سے ان کے وطن کو دیکھتا ہے اس کی مثال ترک بادشاہ محمود غزنوی کی ہے جس نے ہندوستان میں 17 حملے کیے اور لوٹ مار کر کے ہندوستان کی دولت غزنی لے گیا اس کا مقصد ہندوستان کی دولت سے غزنی کو مغرب کے شہر وںکی طرح ایک عظیم شہر بنانا تھا اسی طرز کے آباد کار انگریز بھی تھی وہ مقامی ہندوستانیوں سے حقارت کرتے تھے اور ان کی ثقافت کو حقیر سمجھتے تھے اور ہندوستان کو صرف معاشی حوالے سے پسند کرتے تھے۔ غزنوی اور انگریزوں کے برعکس دیگر ہندوستانی مسلمان بادشاہ جیسے کہ ترک، مغل اور افغان آباد کار ان سے مختلف تھے۔ اس حوالے سے جواہر لعل نہرو اپنی کتاب میں یہ لکھتے ہیں کہ خاندان غلامان کے حکمران (ترک)، مغل حکمران اور افغان حکمران اپنے آبائی گھر وسطی ایشیاءکے بجائے ہندوستان کو اپنا وطن تسلیم کرتے تھے اور خود کو ہندوستانی تصور کرتے تھے ان کے مقامی ہندوستانیوں کے ساتھ رشتہ، ناطے بھی ہوئے تھے جہاں تک سندھ میں آباد بلوچوں کا تعلق ہے تو وہ ان آباد کاروں میں سے ہیں جنہوں نے سندھ پرغالب آجانے کے بعد سندھ کو اپنا وطن سمجھا اور مقامی ثقافت کوبھی اپنایا حتیٰ کہ ان کی اب بڑی تعداد سندھی اور سرائیکی زبان بھی اختیار کرچکی ہے۔ 1843ءمیں جب انگریز سندھ میں حملہ آور ہوئے تو میانی کے میدان میں تالپور بلوچوں اور انگریزوں کے درمیان ایک خونی جنگ ہوئی اس محاذ میں ہوشو قمبرانی نامی ایک سپاہی نے مشہور زمانہ نعرہ لگایا تھا ”مرسو مرسو سندھ نہ ڈیسو“ بلوچوں کے برعکس تقسیم ہند کے بعد ہندوستان کے اردو بولنے والے آباد کاروں نے خودکو کبھی سندھی تصور نہیں کیا اور سندھی ثقافت کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا اس بات کی تصدیق اے آر صدیقی جو فوج کے بڑے عہدوں پر فائز تھے اور تقسیم کے بعد ہندوستان سے ہجرت کر کے کراچی آباد ہوئے تھے انہوں نے اپنی کتاب ” The Making of Mahajir Mindset“ میں یہ تحریر کیا کہ ہندوستان سے آئے ہوئے اردو بولنے والے کراچی میں مقامی سندھیوں اور مکرانیوں (بلوچ) کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے اور ان سے فاصلہ رکھتے تھے۔
1970ءکے بعد جب صوبے بحال ہوئے تو ذوالفقار علی بھٹو نے سندھی کو سندھ کی سرکاری زبان قرار دیا اور ایک سندھی ممتاز بھٹو کو سندھ کا گورنر تعینات کیا تو اس دوران کراچی اور حیدرآباد میں سندھی مہاجر فسادات ہوئے، جامعہ کراچی میں سندھی شعبہ پر حملہ بھی ہوا اور اس دباﺅ میں آکر ذوالفقار علی بھٹو نے ممتاز بھٹو کی جگہ ایک مہاجر خاتون بیگم لیاقت علی خان کو سندھ کا گورنر تعینات کیا۔ ان اردو بولنے والے آباد کاروں کی وجہ سے سندھی قوم پرستوں جن میں بعض بلوچ ماخذ کے بھی سندھی قوم پرست شامل تھے ان کو یہ خدشہ ہوا کہ سندھ میں سندھی اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گے اسی لئے انہوں نے سندھ کے بلوچوں سے یہ اصرار کیا کہ وہ مردم شماری میں اپنی زبان بلوچی کے بجائے سندھی زبان کا اندراج کرائیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بلوچ اب سندھ میں مردم شماری کے حوالے سے دو فیصد بتائے جاتے ہیں۔ حال ہی میں سندھ کے کچھ نوجوان بلوچوں نے سماجی میڈیا کے توسط سے ایک مہم کا آغاز کیا ہے اور وہ اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ بلوچ مردم شماری میں اپنی زبان سندھی کے بجائے بلوچی یا براہوئی اندراج کروائیں وہ یہ موقف دے رہے ہیں کہ سندھیوں کو اقلیت میں تبدیل ہونے سے بچانے کے لئے بلوچ اتنی قربانی دے چکے ہیں کہ وہ خود سندھ میں ایک معمولی اقلیت میں تبدیل ہوچکے ہیں یہ نوجوان یہ خدشہ ظاہر کررہے ہیںکہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو سندھ میں بلوچ شناخت اور ان کی زبان خطرے میں پڑ جائے گی ان کے یہ بھی مطالبات ہیں کہ سندھ میں بلوچی کو سرکاری سطح پر تسلیم کیا جائے اور جامعات میں شعبہ بلوچی بھی شروع کی جائے، ان کے مطابق کچھ سندھی اساتذہ اور قوم پرست بلوچوں کو یہ باور کرانے کی کوشش میں مصروف ہیں کہ وہ اپنی زبان سندھی اندراج کروائیں۔ کچھ دن قبل نادر مگسی کی بھی ایک وڈیو نظر سے گزری ہے جس میں وہ یہ درس دے رہے ہیں کہ تمام بلوچوں کو سندھی زبان کا اندراج مردم شماری میں کرنا چاہےے، نادر مگسی سمیت دیگر سندھی قوم پرستوں کو یہ بات سمجھنی چاہےے کہ قوم دوستی اور وطن دوستی ایک قدرتی اور دل سے کی جانے والی چیز ہے، اسے جبراً لاگو نہیں کیا جاسکتا اگر یہ جبراً لاگو کیا جائے تو یہ ہٹلر اور مزلونی کی طرز کی قو م پرستی یہ فاشزم سے مماثلت رکھے گی جس میں سندھ میں آباد بلوچ سندھی سماٹ کے درمیان نفرت مزید پھیل سکتی ہے کیونکہ سماجی میڈیا سے قبل سندھ کے بلوچوں کے پاس کوئی میڈیا نہیں تھا جس سے ان کے قومی شعور میں اضافہ ہوتا اب سماجی میڈیا ذرائع ابلاغ کا بااثر ذریعہ بن چکا ہے تاریخ گواہ ہے کہ میڈیا نے ہمیشہ قومی شعور کے بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے لہذا بلوچ شناخت کو سندھی میں ضم کرنے کے بجائے سندھی قوم پرست مثبت اقدامات کریں، بلوچ نوجوانوں کے مطالبات تسلیم کرکے بلوچی اور براہوئی زبان کے فروغ کے لئے اقدامات کریں اور بلوچی اور براہوئی شعبہ جامعات میں قائم کیے جائیں اور مردم شماری میں ان کی رائے کا احترام کیا جائے۔ ابو الکلام آزاد جب ہندوستانی مسلمانوں کو قائل کررہے تھے کہ وہ ہندوستان کی تقسیم کو قبول نہیں کریں تو انہوں نے کچھ تاریخی جملے کہے تھے ان کے مطابق جب مسلمان ہندوستان میں آباد ہوئے تھے تو وہ اسلام کی عظیم تہذیب اپنے ساتھ لیکر آئے تھے اور انہوں نے ہندوستان کو جمہوریت اور مساوات کا تحفہ دیا اس لحاظ سے ہندوستان میں اسلام بھی اتنا ہی دعویٰ رکھتا ہے جتنا کہ ہندو مذہب۔ سندھی قوم پرستوں کو یہ بات تسلیم کرنی چاہےے کہ بلوچ کافی عرصہ سے سندھ میں آباد ہیں اب ان کی حیثیت ایک آباد کار کی نہیں بلکہ ایک مقامی افراد کی ہے انہوں نے جنگ میانی کے علاوہ سندھ کے لئے کافی قربانیاں دی ہیں، اس لحاظ سے سندھ میں جتنا سندھی دعویٰ رکھتا ہے اتنا ہی بلوچ…….