چیف جسٹس کے اختیار کا مس یوز کیا گیا،عدلیہ کے فیصلوں سے بحران پیدا ہورہا ہے، احسن اقبال
اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی وخصوصی اقدامات احسن اقبال چوہدری نے کہا ہے عدلیہ کے فیصلوں سے بحران پیداہورہا ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے اختیارکا مس یوز کیا گیا۔ پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر پارلیمنٹ نے قراردیا کہ یہ معاملہ تین ججوں کے مقابلہ میں چارججوں کی جانب سے مسترد ہو چکا ہے اور اقلیتی فیصلے کو نافذ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ چیف جسٹس تمام ججز پر مشتمل فل کورٹ بینچ بنا دیں ، کیا چیف جسٹس کے ساتھی ججز آئین کے خلاف فیصلہ دیں گے، ہم نے ہمیشہ سے کہا ہے کہ فل کورٹ بنائیں اور اس کے اندرتمام ججز کی اجتماعی دانش ہو گی اس پر انحصار کریں۔ عمران خان سپریم کورٹ کے کندھوں سے اپنا سیاسی ایجنڈ انافذکروارہا ہے کیونکہ وہ سیاسی طور پر ناکام ہوا،2017میں اس وقت کے سپریم کورٹ کے چند جج صاحبان نے عمران خان کا ایجنڈا میاں محمد نوازشریف کی نااہلی سے پورا کیا۔ان خیالات کااظہار احسن اقبال نے ایک نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کیا۔ احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان جن معاشی بحرانوں سے گزررہا ہے ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان کے پاس ایک نئے بحران کی آپشن نہیں ۔ رول آف لاء کا کیا مطلب ہوتا ہے، رول آف لاء کا مطلب معاشرے میں آرڈر لانا ہوتا ہے اوراگر معاشرے میں آرڈر نہیں تواس کا مطب ہے کہ رول آف لاء نہیں اوررول آف جنگل چل رہا ہے۔ عدلیہ کے فیصلوں سے بھی معاشرے کے اندر امن اور استحکام کودوام ہونا چاہیے اوراگر عدلیہ کے فیصلے معاشرے کے اندر نئے بحران پیدا کرنے کا باعث بنیں توعدلیہ کو اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ کیا وجہ ہے کہ وہ ایک سیاسی ایجنڈے کے آلہ کارتونہیں بن رہے۔سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے مصطفیٰ امپیکس کیس کے فیصلہ میں 2016میں لکھا کہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے صوابدیدی اختیارات غیر آئینی ہیں، وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کو اپنے اختیارات ادارہ جاتی طور پر کابینہ کے ذریعہ استعمال کرنے چاہئیں اوراگر وہ کابینہ کی منظوری کے بغیر اپنے اختیارات استعمال کررہے ہیں تووہ غیر آئینی عمل کررہے ہیں اورانہوں نے صوابدیدی اختیارات کو قطعاً غیر آئینی قراردیا یعنی حرام قراردیا ، اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ سپریم کورٹ جو ایگزیکٹو کے لئے تواصول وضع کرتی ہے کہ منتخب وزیراعظم اوروزیر اعلیٰ کے صوابدیدی اختیارات حرام ہیں ، وہی پاورز چیف جسٹس کے لئے کیسے حلال ہوسکتی ہیں وہ کون سی فقہ اور قانون ہے جس میں آپ کہیں کہ ایگزیکٹو کے لئے ایک چیز حرام ہے اورخود چیف جسٹس کے لئے وہ حلال ہو گئی۔ پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر)بل2023سپریم کورٹ کے مصطفی امپیکس کیس کی سپرٹ میں بنایا ہے، قطعاً کیس طرح بھی اس میں عدالت کی کوئی آزادی سلب نہیں ہوئی بلکہ عدالت کے فیصلے کی روشنی میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کا اختیار بھی اداراہ جاتی طور پر استعمال ہونا چاہیے اورفرد واحدکا نہیں ہونا چاہیے۔ احسن اقبال نے کہا کہ ہم سپریم کورٹ سے کوئی لڑائی نہیں چاہتے۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ملک میں جاری مردم شماری اور خانہ شماری کا عمل 15مئی تک مکمل ہوجائے گااورا س کے ہفتے ،10روزکے اندر نتائج مرتب ہوجانے چاہئیں اور اس کے بعد الیکشن کمیشن چار ماہ کے اندر حلقہ بندیوں کا کام مکمل کر لے گا ، پانچ سال کی آئینی مدت پوری ہونے کے بعد اکتوبر میں نئے انتخابات کا ٹائم فریم بنتا ہے اوروہی ایک ایسا تائم فریم جو انتظامی طورپر،آئینی طور پراور مردم شماری کے اعتبار سے ہر ح سے مناسب ہے۔ میں بڑے ادب سے کہوں گا کہ کیا پنجاب صوبے کے لئے کوئی اورآئین ہے اور خیبرپختونخوا کے لئے کوئی اورآئین ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے میں سب سے بڑا تضاد یہ ہے کہ انہوں نے پنجاب کے لئے تو90دنوں کا فیصلہ کیا اورخیبر پختونخواسے آنکھیں بند کر لیں کہ چاہے 200دن میں انتخابات ہوں یا 250دن میںہوں، اگر یہ پرنسپل آف لاء ہوتاتویہ سب کے لئے ایک جیسا ہونا چاہیے تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اکتوبر کے پہلے ہفتے میں انتخابات ہوسکتے ہیں۔ اگر سپریم کورٹ توہین عدالت میں وزیر اعظم میاں محمد شہبازشریف کو نااہل کردیتی ہے تو پھر پارلیمنٹ کے پاس بہت آپشنز ہیں لیکن ہم نہیں چاہتے کہ معاملات وہاں تک جائیں۔ ہمیں ملک کو اداروں کے تصادم سے بچانا چاہیے، پارلیمنٹ اپنا کام کرے ، عدلیہ اپنا کام کرے اور تمام صوبوں میں الیکشنز اکٹھے ہوں اوراس حوالہ سے ہماری کمٹمنٹ ہے توپاکستان آگے چلے گا۔


