بلوچستان میں غیرت کے نام پر قتل عام روکنے کیلئے قانون سازی کی ضرورت ہے، سیمینار میں مقررین کا خطاب

کوئٹہ (آن لائن) بلوچستان میں غیرت کے نام پر بڑھتے ہوئے قتل عام کی روک تھام میں مذہبی قبائلی سیاسی اور سول سوسائٹی کی ذمہ داریاں اور قانون سازی کی ضرورت ہے اور قومی ڈائیلاگ کے چارٹر آف ڈیمانڈ پر فوری طور پر عمل کر کے اس کے تدارک کو یقینی بنایا جا سکتا ہے ” عورت فانڈیشن بلوچستان اور ٹوڈیز ویمن آرگنائزیشن “کے زیر اہتمام بلوچستان ویمن بزنس ایسوسی ایشن، پریس کلب کوئٹہ اور بلوچستان کمیشن آن دی اسٹیس آف ویمن کے اشتراک سے منعقدہ تقریب سے گورنر بلوچستان ملک عبدالولی کاکڑ، سابق اسپیکر راحیلہ حمید خان درانی، سابق ممبر صوبائی اسمبلی ڈاکٹر شمع اسحاق، پروفیسر فرخندہ اورنگزیب، عورت فانڈیشن کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر علاالدین خلجی، پروین ناز، مذہبی اسکالر مفتی کلیم اللہ حیدری، ثنا درانی، بلوچستان یونین آف جرنلسٹ کے صدر عرفان سعید، ڈاکٹر عائشہ دوریجو، بلوچستان کمیشن برائے حیثیت خواتین کی چیئرپرسن فوزیہ شاہین، گل حسن درانی نے خطاب کیا۔ اس موقع پرعورت فانڈیشن کی جانب سے بتایا گیا کہ صوبے میں گزشتہ5 سال میں خواتین پر تشدد کے 542 واقعات میں 354 افراد قتل ہوئے جن میں 303 خواتین قتل ہوئےں ،جس میں 149 خواتین اور 51 مرد غیرت کے نام پر قتل ہوئے شرکاءکو بتایا گیا کہ صوبے میں عورتوں پر بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات کیخلاف پالیسی ترتیب دینے اور قوانین مرتب کرنے کی ضرورت ہے ، مقررین نے کہا کہ عورتوں کے خلاف تشدد ایک خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے اس قومی ڈائیلاگ کا مقصد صوبے میں عورتوں پر تشدد کیخلاف واقعات کی نشاندہی کرنا اور معلومات اور مدد کیلئے ماحول اور سماجی دباﺅ پیدا کرنا ہے ، اس لئے مستقبل میں بننے والی پالیسیوں کے حوالے سے اعداد و شمار کے توسط سے قانونی اصلاحات کو یقینی بنایا جائے، مرکزی اور صوبائی حکومتوں ، سیاسی جماعتوں اور قانون دانوں کو مصالحتی طریقہ کار ، ترقیاتی پالیسیوں کے فریم ورک اور ادارتی نظام کے تحت عورتوں کے خلاف تشدد کے خاتمہ میں مددگار ثابت ہونگے بلوچستان میں ہر دوسرے دن ایک عورت غیرت کے نام پر قتل یا تشدد کا نشانہ بنتی ہے اور آئے روز خواتین پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے اور غیرت کے نام پر قتل یا تشدد کے زیادہ تر واقعات نصیر آباد میں رپورٹ ہوئے جبکہ تشدد کے واقعات میں کوئٹہ دوسرے نمبر پر ہے۔ مقرر ین کا کہنا تھا کہ گزشتہ 75 سال سے ہم نے عورت کو انسان نہیں سمجھا تشدد کا نشانہ بنایااور ہر وقت اس کااستحصال ہوتا رہا۔ غیرت کے نام پر قتل کی رسم ملک بھر میں ہوتی ہے سندھ کے دیہی اور قبائلی علاقوں میں غیرت کے نام پر قتل کو ،کارو کاری خیبرپختونخوا میں ‘تور تورا’، بلوچستان میں ‘سیاہ کاری’ اور پنجاب میں ‘کالا کالی’ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ غیرت کے نام پر جرائم پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں تاہم بہت سے اسلامی ممالک میں سماجی اور ثقافتی اصولوں کی خلاف ورزیوں پر خاندان کے افراد کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل بھی عام بات ہے اگرچہ دنیا بھر میں مجرمانہ طور پر سزائیں دی جاتی ہے لیکن اس طرح کے قتل کو اکثر خاندان والے مذہب کی بنیاد پر جائز قرار دیتے ہیں اور شاذ و نادر ہی سزا دی جاتی ہے یہاں تک کہ جب سزائیں دی جاتی ہیں تو سزائیں عام طور پر ہلکی ہوتی ہیں قصاص اور دیت کے اصولوں کا وجود متاثرین کے قانونی ورثا کو خون کی رقم کے عوض مجرموں کو معاف کرنے کے قابل بناتا ہے پاکستان خصوصا بلوچستان بھی اس معاملے میں مستثنیٰ نہیں رہا ہر سال ملک بھر میں سینکڑوں افراد خاص طور پر خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے جرائم کے پھیلا ﺅکے باوجود ہلاکتوں کی صحیح تعداد کے بارے میں کوئی درست اور قطعی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق، 2004 سے 2016 تک پاکستان بھر میں غیرت کے نام پر قتل کے تقریبا 15222 واقعات رونما ہوئے۔ 2014 میں، 837 خواتین تھیں جن میں 75 نابالغ بچیاں تھیں ریاستی اداروں کی طرف سے 2004 اور 2016 کے فوجداری ایکٹ میںترمیم کی گئی۔ صوبوں میں ‘غیرت کے نام پر قتل’ سے متعلق نئے قوانین کی ضرورت ہے اسلام ان جیسے رسومات کی اجازت نہیں دیتا۔ اس موقع پر گورنر بلوچستان نے تمام ماہرین و مقررین میں یادگاری شیلڈ تقسیم کیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں