تربت یونیورسٹی کا تعلیمی معیار اور فیسوں میں اضافہ

تحریر: شہزاد بدل
تربت یونیورسٹی تباہی اور کرپشن کا منظر پیش کر رہی ہے۔ خاص کر محکمہ تعلیم میں میرٹ نام کی کوئی چیز نہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ محکمہ تعلیم میں شعبہ ایجوکیشن میں اساتذہ کی کمی ہے۔ صرف دو مستقل اساتذہ کے علاوہ باقی تمام عارضی ایم اے پاس اور غیر تربیت یافتہ اساتذہ ہیں جنہوں نے اسی سال گریجویشن کر کے پڑھانا شروع کیا ہے۔ اس کے علاوہ کئی دیگر مسائل کی وجہ سے طالبات کے لیے مخلوط تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنا ناممکن ہوگیا ہے۔ آئے روز کسی نہ کسی معاملے پر احتجاج اور کلاسوں کا بائیکاٹ کیا جارہا ہے۔ قواعد کے تحت فیس میں 20 فیصد کے بجائے 80 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ (این ٹی ایس) میں پڑھے لکھے لوگوں کی بجائے فیل، سفارشی اور نااہل لوگوں کو بھرتی کیا جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ یونیورسٹی میں ایچ ای سی اور صوبائی حکومت کے ڈیڑھ ارب کے ترقیاتی کاموں میں کرپشن شروع ہوگئی۔ یونیورسٹی آف تربت سمیت بلوچستان یونیورسٹی کے تعلیمی ادارے پرامن تعلیمی ماحول پیدا کرنے، تعلیم کو ہر کسی کی پہنچ میں لانے اور تعلیم یافتہ لوگوں خصوصاً مرد و خواتین طلباء کو ان کے جائز حقوق دلانے کے لیے کوشاں ہیں۔ فیس میں حد سے زیادہ اضافہ کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں۔ یونیورسٹی آف تربت کی انتظامیہ سے گزارش ہے کہ قواعد کی خلاف ورزی کرنے کے بجائے قواعد پر عمل کرنے کی تلقین کی جائے۔
دوسری طرف یقیناً ہم یونیورسٹی کے تعلیمی نظام کے مسائل کو نظر انداز نہیں کرسکتے لیکن ہمیں اس کے حل کے بارے میں بھی سوچنا ہوگا۔ ہمیں اپنے آپ کو ایسے ماحول میں ڈھالنا ہو گا کہ اگر یونیورسٹی قابل نہ ہو تب بھی ہمیں اپنے حوصلے بلند رکھنا ہوں گے۔ مشکل حالات کے باوجود طلبہ کو اپنی تعلیمی قابلیت کو جانچ کر انہی یونیورسٹیوں میں پڑھنا چاہیے۔ اگر یونیورسٹی ان کی خواہش کے مطابق پڑھانے کے قابل نہ ہو تو وہ مایوسی دور کرنے کے لیے انٹرنیٹ اور اساتذہ سے اضافی وقت مانگ کر اس خلا کو پر کرسکتے ہیں۔ اسی طرح بالآخر حالات بدلیں گے اور تعلیمی نظام بھی بدلے گا۔ اگر ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ جائیں تو یہ امید ہے کہ کوئی مسیحا آئے گا اور تربت یونیورسٹی کے تعلیمی نظام کو بہتر کرے گا۔ اگر آپ بین الاقوامی یونیورسٹیوں پر بھی تحقیق کریں گے تو وہاں بھی جو طالب علم آگے بڑھنا چاہتا ہے وہ صرف اپنی محنت کی بنیاد پر آگے بڑھتا ہے۔
اساتذہ صرف رہنمائی فراہم کرتے ہیں اور یہ طلباء پر منحصر ہے کہ وہ محنت کریں۔ بہت سے طلباء ایسے بھی ہیں جو تمام تر آسائشوں کے باوجود وہ پوزیشن حاصل نہیں کرپاتے جس کا وہ خواب دیکھتے ہیں۔ میں بطور یونیورسٹی آف تربت کا ایک طالب علم HEC اور بلوچستان حکومتی نمائندگان سے درخواست کرتا ہوں کہ بیونیورسٹی کو بہتر کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔