تعلیمی اداروں میں طالبات کو ہراساں کرنا

تحریر: ذکیر ذکریا بلوچ
تعلیمی اداروں میں یا کسی پبلک پلیس میں لڑکیوں کو ہراساں کرنا کوئی نئی بات تو نہیں، اور یہ ہمیشہ سے چلتا آرہا ہے۔ جو ایک انہتائی شرمناک اور گٹھیا عمل ہے، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے لیکن حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک خبر چل رہی تھی جس میں جامعہ کراچی کی طالبات گرلز ہاسٹل میں کمروں کے دروازے توڑنے اور طالبات کو ہراساں کرنے کیخلاف احتجاج کررہی تھیں، جو ایک بہت بڑا المیہ ہے کیونکہ انتظامیہ کے ہوتے ہوئے طالبات کے ساتھ کھلم کھلا یہ سب ہورہا ہے۔ کیا انتظامیہ سوئی ہے یا اسے یہ سب خود قبول ہے؟
اس مسئلے کو لیکر سب سے پہلے اگر ہم ہراسگی کی بات کریں، تو یہ گٹھیا عمل کسی بھی انسان کے خلاف ناقابلِ برداشت ہے۔ کسی انسان کو اپنی بری حرکتوں سے ذہنی پریشانی کا شکار بنانا ایک عظیم گناہ ہے جس کی نہ تو کسی مذہب کی طرف سے اجازت ہے اور نہ ہی کوئی قانون اس کی اجازت دیتا ہے۔ خاص طور پر ایک کمزور اور مخصوص جنس کے طبقے کو یہ احساس دلانا کہ تمہاری جان اور عزت کو ہماری طرف سے سلامتی نہیں ہے، تو یہ ایک اعلیٰ درجے کا غیر اخلاقی اور افسردگی کا عمل ہوگا۔ کیونکہ درسگاہ انسانوں کو جانور سے انسان بنانے کی جگہ ہوتی ہیں اور افسوس اس بات کا ہے کہ وہاں پر ہی طالبات کو ہراساں کیا جارہا ہے، ان کے ساتھ جانوروں جیسا عمل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، تو اور کہاں کچھ بہتر ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے؟
ایک تو پہلے سے ہی وطنِ عزیز میں عورتوں کی خواندگی کی شرح انتہائی کم ہے، یعنی پاکستان کی کل آبادی کا 49 فیصد عورتوں کا ہے اور ان میں سے 54 فیصد سے زیادہ ناخوندا ہیں۔ باقی جو 46 فیصد ہیں وہ صرف خواندہ ہیں مگر بہت ہی کم لڑکیاں ہیں جن کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا ہے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان کے کل آبادی کے صرف ایک فیصد لوگوں کو ہائیر ایجوکیشن تک رسائی ہوتی ہے اور آپ خود اندازاہ لگاسکتے ہیں کہ اس ایک فیصد میں لڑکیوں کی تعداد کتنی کم ہوسکتی ہے۔ ہمیں کرنا یہ چاہیے کہ اس نمبر کو اور زیادہ بڑھا دیں لیکن ہم کیا کررہے ہیں؟ ہم اپنی حرکتوں سے اس نمبر کو گھٹانے میں لگے پڑے ہیں۔ اس سے بڑی بےوقوفی اور کیا ہوسکتی ہے کہ ہم خود ملک کی آدھی آبادی کو تعلیم سے دور کررہے ہیں جو ملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتی ہیں۔
اب چونکہ ہمارے ملک میں تعلیم ہر جگہ کے لوگوں کو میسر نہیں تو مجبوراً فیمیل کو اپنی تعلیم مکمل کرنے کیلئے دوسرے شہروں میں ہاسٹل میں رہنا پڑتا ہے، اور ایسا نہیں کہ ہاسٹل جانے کا ارادہ کیا اور چلی گئیں بلکہ انہیں یہاں تک پہنچنے کے لیے بےشمار قربانیاں دینی پڑتی ہے، والدین سے منتیں کرنی پڑتی ہیں، کئی ساری تو غریبی کی وجہ سے نہیں پڑھ پاتی، رشتہ داروں کے دباﺅ میں کئی کو تو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا موقع ہی نہیں مل سکتا۔ اس کے علاوہ انہیں اور بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب وہ خود سے اور اپنے حالات سے لڑکر یہاں تک پہنچتے ہیں اور یہاں پر ان کے ساتھ یہ سب ہوجاتا ہے جو ابھی ہورہا ہے، اس سے ان کے دل پر کیا گزرے گی، اس کا اندازاہ صرف وہی لگا سکتے ہیں جو ایسے حالات سے گزرتے ہیں۔ ہزاروں معصوم لڑکیاں جو اس امید پر بیٹھی ہیں کہ ہمیں بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملے گا اور ہم بھی زندگی میں کچھ کرپائیں گے۔ لیکن جب ان کے والدین دیکھتے ہیں کہ تعلیمی اداروں میں ان کی بچیوں کے ساتھ یہ سب ہورہا ہے تو کس میں اتنی ہمت ہوگی کہ وہ اپنی بچیوں کو ہاسٹل بھیجیں؟ شرم آنی چاہیے ایسے لوگوں کو جو کسی اور کی زندگی کو اپنی ذاتی پراپرٹی سمجھ کر جب چاہے انہیں ہراساں کرتے ہیں۔ مزید برآں، عورتوں کی گھٹتی ہوئی شرح تعلیم کے ذمہ دار وہی لوگ ہوتے ہیں جو تعلیمی اداروں میں طلبہ کو ہراساں کرتے ہیں۔ اس کے برعکس جہاں ترقی یافتہ ممالک کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی فیمیل کی شرح تعلیم کو 100 فیصد یقینی بنائیں، کیا ہم وہی کررہے ہیں؟ ہم جان بوجھ کر انہیں تعلیمی اداروں سے دور کررہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں