راشد جان آپ بہت یاد آرہے ہو

تحریر: فریدہ بلوچ
ہمارے ساتھ کا وہ پچپن میں کھیلنا اور کھیل کھیل کے دوران معصوم جھگڑے، عمر میں آپ ہم سے بڑے تھے اور ہم چھوٹی بہنوں کو پیار سے میک اپ لگاتے، سنوارتے اور اسکول لے کر جاتے، ہمارا خیال رکھتے اور جب تک اسکول کی چھٹی ہوتی تم وہیں کھڑے رہتے، ہمیشہ اپنی چھوٹی بہنوں کا خیال رکھتے، مجھے یاد ہے جس چیز پر ہم ضد کرتے تو تم کبھی منع نہیں کرتے تھے اور ہماری ضرورتوں کے لیے والدین سے ضد کرتے اور کبھی کبھی اپنی ضد منوانے کے لیے ہم سے کہتے اور ہم اس کے لیے والدین سے ضد کرتے تاکہ وہ تمہیں وہ چیز لیکر دیں۔
مجھے اب بھی یاد ہے ایک عید پر تمہاری کوئی فرمائش پوری نہ ہو پائی تو تم ناراض ہوکر چلے گئے اور کافی دیر تک گھر والے تمہیں تلاش کرتے رہے، جب تم واپس گھر لوٹے تو میں نے اپنے کھلونے تمہیں دیے اور کہا رکھ لو۔ آپ کے ساتھ گزرا بچپن آج بھی یاد ہے، وہ گلی میں تمہاری بدمعاشی، کوئی ہم سے جھگڑتا تو ہم تمہارا نام لیکر کہتے کہ راشد ہمارا بھائی ہے اور تم سب سے یہی کہتے میری بہنوں سے جھگڑنا مت، اسکول میں بھی تم تھے تو کوئی ہمیں کچھ کہنے والا نہیں ہوتا تھا۔
بچپن کا کھیل ہو یا لڑائی جھگڑے، اب جب تم دور ہو، تو ہر پل خیالوں میں آجاتے ہیں، جب تمہیں یاد کرتے ہیں اور تمہاری وہ تمام شرارتیں ہم سے اپنے اسکول کے کام کروانا سب یاد آجاتا ہے، تو دل مزید غمزدہ ہوجاتا ہے۔
مسجد میں استاد کی لاٹھی جب تمھیں لگتی تو میرے آنسو نکلتے، کہیں اسکول میں مار نہ پڑے، تمہارا ہوم ورک کرتی، چھوٹی تھی تو دل میں خیال آجاتا کہ بھائی کو مار پڑے گی۔ آج جب تمہیں ریاست نے پس زنداں کردیا ہے تو یہی سوچ سوچ کر کلیجا پھٹا جاتا ہے کہ تم کس اذیت سے گزر رہے ہو گے۔
انسان اپنی کسی چیز کے کھو جانے پر غمزدہ ہوجاتا ہے، تم تو ہمارے سب سے پیارے اور ذمہ دار بھائی تھے، تمہارا اتنے طویل عرصے ہم سے دور ہونا گواراہ نہیں ہوتا، ایک لمحہ ایسا نہیں گزرتا جب تمہارے ساتھ گزرے پل اور باتیں یاد نہ آئیں۔
تمہیں بتا دوں تمہاری غیر موجودگی میں زندگی کی رفتار تھم سی گئی ہے لیکن تمہاری واپسی کے منتظر آج بھی ہیں کیونکہ انصاف کیخلاف آوازوں کو خاموش کرانا ناممکن عمل ہے، یہ تم نے بتایا۔ آج بھی جب تمہارے نام پر لوگ خوفزدہ ہوکر خاموشی اختیار کرتے ہیں پر والدہ اور ماہ زیب ہر بلوچ کے غم میں صف اول میں کھڑے ملتے ہیں، یہی تمہارا قصور تھا، ہر لائن کے اول میں کھڑے ہوکر انصاف کی آواز بلند کرنا۔
وقت اور حالات انسان کو سنوارتے ہیں، تراشتے ہیں، اس کی خوبی اور کمی کو صاف کردیتے ہیں، ایسے ہی جب سے تمہیں ہم سے دور کردیا گیا ہے، ہم اس جدوجہد میں مضبوط ہوگئے ہیں، ہم ٹوٹ نہیں سکتے کیونکہ جب بھی وقت اور حالات ہمیں توڑنے کی کوشش کرتے ہیں تو ایک دم یہ خیال آتا ہے، ان پانچ سال میں تم ایک بار بھی نہیں ٹوٹے اور پھر سے ہم مضبوط ہوجاتے ہیں۔
بھائی آج جب اپنے اور پرائے اس وقت اور حالات میں پیچھے ہٹ گئے، پر ہمیں تمہارے انتظار اور لوٹ آنے کی امید ہر پل مضبوط کرتی رہتی ہے اور ہم یہ جنگ جاری رکھیں گے، جب تک تم واپس نہیں آتے۔
تمہاری جبری گمشدگی سے چند روز قبل تم نے اپنی شادی کی تیاریوں کا کہا تھا اور ہم آج بھی اس امید میں تیاریوں میں مصروف ہیں کہ ایک دن تم واپس آﺅ گے اور ہم بہنیں تمہیں خود اپنے ہاتھوں سے مہندی لگائیں گے، تمہاری شادی کرانے اور اس کی تیاریوں میں ہم سب مصروف ہیں، جب لوٹو گے تو سب کچھ تیار پاﺅ گے۔
اور ہاں بھائی اگر یہ الفاظ کبھی پڑھنے کو ملیں تو میں بس یہ کہنا چاہتی ہوں کہ وہ ہماری بچپن کی لڑائیاں اور شرارتیں معاف کرنا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں