طوفان اقصیٰ کانفرنس اور دلوں کا طوفان

تحریر: محمد صدیق مینگل
مسلمانوں کی مثال اس وقت ان بجھی نیم جان چنگاریوں کی سی ہے جو آگ کی بلند شعلوں کی پست و سرد ہونے کے بعد منوں راکھ کے نیچے ٹمٹما رہے ہوں، یا اس سمندر کی طرح ہے جس میں بر سوں سے کوئی طوفان و ہیجان نہیں آیا ہو، یا پھر اس بہتر ین زرخیز زمین کی سی ہے جو پانی کی تری عدم دستیاب ہونے کی وجہ سے خشک ہوچکی ہو لیکن نا امیدی گوہر سے ہر گز نہیں ہوتی ہے، ان بجھی چنگاریوں کو پھر سے شعلہ بنانے کے لئے ایمانی ہوا کا معمولی جھونکہ کافی ہوسکتا ہے اور اس خاموش سمندر کی تہہ میں پیدا ہونے والی معمولی حرکت تلاتم خیز ثابت ہوسکتی ہے،
علامہ اقبال کے بقول :
خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کردے ،
کہ تیرے بحر کے موجوں میں اضطراب نہیں ،
خشک زمین میں گل و لالہ کی لہلہاتی فصلیں اگانے کے لئے معمولی سی تری کافی ہو سکتی ہے
ایک بارپھر اقبال کو زحمت دیتے ہیں:
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے،
ذرا نم ہو تو بہت زرخیز ہے یہ مٹی ساقی،
طویل مگر ضروری تمہید کے بعد آتے ہیں اصل موضوع کی جانب اس وقت ملت کفر فلسطین میں ایک نئی اور خطرناک جنگ کا آغاز کر چکی ہے ارض قدس اور ارض الانبیا جس کو رب العالمین ارض تین اور زیتون سے ملقب کیا ہے آج اس سرزمین کی سبزی خون مسلم سے سرخ چادر اوڑھ چکی ہے۔
ملت حق و باطل کی معرکے ازل سے جاری ہیں لیکن حق کی حمایت میں سستی و باطل سے خوف و ہراس کا جو المناک منظر آج سامنے آرہا ہے وہ شاید کبھی اسلام کی تاریخ میں رہا ہو ، فلسطین کی نہتے مسلمان جن کے پاس پتھروں و غلیلوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے اسرائیل کی مظالم سے تنگ آکر اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ ایک سپر پاور کے آگے آجاتے ہیں القدس صغریٰ وہیکل سلیمانی کے علاقوں میں گھس کر بیت المقدس پر فلسطین کا جھنڈا گاڑھ کر (القدس لنا) کا نعرہ بلند کرتے ہیں ان نہتے مجاہدوں کا شاید یہ گمان ہوگا کہ اللہ تعالی کی مدد و نصرت کے ساتھ 52اسلامی ممالک ان کی نصرت کو آئیں گے، اپنے قبلہ اول کو بچانے اور انبیا کی سرزمین اور ذریت انبیاءکو بچانے کے لئے اس جنگ میں کود پڑیں گے لیکن کیا ہوتا ہے اسرائیل کا جوابی حملہ اور اپنے ناجائز بچے باﺅلے کتے اسرائیل کی حمایت میں امریکہ کے کودنے کے بعد مسلم سر براہوں و امت مسلمہ کی افواج پر بزدلی کی چادر پڑجاتی ہے سعودیہ ہو یا پھر ایٹم بم کی قوت سے مضبوط پاکستان ،ترکی ہو یا الجزائر مصر ہو یا عرب امارات سانپ کے سونگھے یہ ممالک حیرت انگیز بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہیں، دنیا کی محبت اور موت کا خوف اس کی نتیجہ میں پیدا ہونے والی ہلاکت خیز مرض (وہن ) کا سبب بن جاتا ہے ، اقتدار کی پوجاری ہوس پرستی لولی لنگڑی ذلت آمیز اقتدار سے چمٹے رہنا ان کو زندہ لاش کی ماند بنا دیتا ہے ۔
اسرائیل کے گن شپ ہیلی کاپٹروں کی قیامت بر پا کرنے والی بمباری سے غزہ اور اس کے اطراف میں اب تک آٹھ ہزار کے قریب فلسطینی مسلمانوںجام شہادت نوش کرتے ہیں۔
ان مظلوم شہیدوں میں بچوں اور خواتین کی اکثریت بتائی جاتی ہے اور پھر جنگی اصولوں کو روندھتے ہوئے اسرائیل ایک ہسپتال کو نشانہ بنادیتا ہے اس ہسپتال میں 800 سوعام لوگوں، مریضوں و بچوں کی شہادت ہوجاتی ہے۔
اسرائیل کے بمبار طیارے اسکولوں و تعلیمی اداروں کو بھی نشانہ بنا دیتے ہیں۔ ہلاکو خان و چنگیزیت کی تاریخ مسخ ہو کر رہ جاتی ہے ، اس طرح کھلی جارحیت کے باوجود بھی اللہ اور اس کے رسول محمد صلی علیہ و سلم پر کلمہ پڑھنے والے مسلم حکمرانوں کی کانوں تک جوں تک نہیں رینگتی ایسے میں اگر حماس اور فلسطین کے بے کس مسلمانوں اور حماس کی آواز کے ساتھ اگر کوئی آواز ساتھ ہوجاتی ہے یہ توانا آواز ملت اسلامیہ کے عظیم رہنما امیر جمعیت علماءاسلام پاکستان مولانا فضل الرحمن کی آواز ہوتی ہے۔ جمعیت علماءاسلام پہلے ہی دن سے اسرائیل کی فقط مذمت پر اکتفا نہیں کرتا ہے بلکہ اپنی بساط کے مطابق فلسطین کے ناچار مسلمانوں کی آواز اور حماس کی آواز بن جاتی ہے ۔
چنانچہ 12اکتوبر بروز جمعہ کشمیر گلگت بلتستان سمیت پورے پاکستان کے تمام ضلعی ہیڈ کوارٹروں میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے جاتے ہیں ان مظاہروں میں لاکھوں فرزندان تو حید شرکت کرتے ہیں ۔
پاکستان کے بوڑھے، جوان اور بچوں کی زبان پر اسرائیل مردہ باد امریکہ مردہ باد، فلسطین زندہ باد اور (القدس لنا) کے نعرے لگنے لگتے ہیں۔ فلسطین کے نہتے مسلمانوں کی مالی معاونت کے لئے ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں امدادی کیمپ لگا کر اپنے فلسطینی بھائیوں کے لئے کروڑوں روپیہ کا امدادی رقوم و سامان جمع کیا جاتا ہے۔
اس سے آگے مولانا فضل الرحمن کے خصوصی احکامات کے تحت جمعیت علماءاسلام اپنے پروگراموں اور جلسوں کو طوفان اقصیٰ کانفرنسوں سے تبدیل کرتی ہے چنانچہ 14اکتوبر کو پشاور میں ہونے والی مفتی محمود کانفرنس کے عین موقع پر نام تبدیل کرکے اس کانفرنس کو طوفان اقصیٰ کانفرنس کا نام دیا جا تا ہے ،اسی طرح بلوچستان کے دار الحکومت کوئٹہ میں جمعیت طلبہ اسلام کے تحت ہونے والے ڈاکٹر سرفراز شہید کانفرنس کا نام تبدیل کرکے اس عظیم الشان کانفرنس کا نام طوفان اقصی ٰ کانفرنس رکھا جاتا ہے۔
2نومبر کو جمعیت علماءاسلام صوبہ سندھ کے زیر اہتمام شاہراہ قائدین پر طوفان اقصیٰ کانفرنس منعقد ہورہا ہے اس کے بعد پورے ملک میں اسی تسلسل کے ساتھ جمعیت علماءاسلام کے تحت طوفان اقصیٰ کانفرنسز منعقد کئے جائیں گے۔
جمعیت علماءاسلام کی یہ تاریخ رہی ہے کہ علماءحق کی یہ جماعت ہمیشہ طاقت ور سامراجیوں کے مقابلے سینہ سپر رہی ہے ۔
بر طانیہ کی جبروت کو چیلنج کرنے والے اس عالمگیر سامراج کے خلاف دارالعلوم دیوبند کے فرزندان شیخ الہند محمود حسن دیوبندی رحمہ اللہ کی قیادت میں میدان میں تھے ہندوستان چھوڑ دو تحریک ، ختم نبوت کی تحریک اورخلافت عثمانیہ و ترکیہ کو بچانے کے لئے تحریک جماعت علماءہند کی تحریکوں کا تسلسل تھے ۔
آزادی کی تانے بانے کی تحریکوں کا مجموعہ ترکی ،افغانستان ,جرمنی ،سعودیہ عربیہ تک پھیلی ہوئی تھی ،تاریخ عالم میں یہ اعزاز جمعیت علماءہند کی اکابرین کو حاصل ہے جب سویت یونین سوشلزم کو عالمگیر بنانے کے لئے افغانستان پر حملہ کرتاہے تو بھی افغانستان کی دفاع کے لئے جہاد کا فتویٰ سب سے پہلے جمعیت علماءاسلام کے قائد مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ جاری کرتے ہیں تاریخ عالم یہ نظارہ کرتی ہے کہ سویت یونین بھی کءٹکڑوں میں بٹ جاتی ہے ۔
آج اگر فلسطین میں ہونے والے مظالم پر کوءجماعت اور اس کے قائد سب سے پہلے آواز بلند کرتی ہیں
تو وہ بھی جمعیت علماءہند کے کاروان کا ایک مضبوط ستون قائد جمعیت علماءاسلام مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت جمعیت علماءاسلام ہے ان خدا مست فقیروں نے دین کی حمایت کرنے میں کبھی بھی طاقت کے آگے سرنڈر نہیں کیا ہے نتائج کی خطرات سے ہٹ کر دین کی حمایت اور سامراج کی مخالفت کا بیڑا اٹھایا ہے ۔
چنانچہ اسی وجہ سے بصیرت ایمانی ہمیشہ ان کی ساتھ رہی ہے ۔
ارض القدس میں زمینوں کی فروخت کرنے کی ممانعت کا فتویٰ آج سے 65سال قبل جمعیت علماءہند کے بانی مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی مرحوم دیا تھا ۔
ہماری تمہید اور مضمون کے اندر لکھی گئی مندرجات کا لب لباب ایک ہی ہے کہ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں حرارت ایمانی اب بھی باقی ہے جس کا مظاہرہ چند ہزار نہتے فلسطینی مسلمان کررہے ہیں کہ غلیل اور پتھر لیکر جذبہ شہادت سے لیس ہو کر ایک سپر پاور کے مقابلے میں کھڑے ہیں۔
لیکن دوسری طرف اگر ہم دیکھتے ہیں ان نیم جان چنگاریوں کو پھونک کر شعلہ بنانے والا کوئی نہیں ہے ، اسی طرح خشک سوہنی دہرتی کو سیراب کرنے والے زمیندار بھی گم ہیں ، اس خاموش سمندر کی تہہ میں تلاطم اور ہنگامہ بر پا کرنے والی قیادت مفقود دکھائی دیتا ہے۔
جو یقینی طور مسلمانوں کا ایک المیہ نہیں بلکہ المیات کا ایک مجموعہ ہے۔
مجھے اللہ رب العالمین کی قدرت کاملہ سے اس طرح کا امید ہے کہ جس طرح صحرا عرب سے اٹھنے والی تحریک کے ذریعہ قیصرو کسریٰ کی جبروت کو خاک میں ملادیا تھا ہے ۔
اور پھر ترکوں کی ایک خانہ بدوش قبیلہ سے ایک عظیم خلافت(خلافتِ عثمانیہ )معرض وجود میں لایا تھا اسی طرح علماءحق کی قیادت میں ایک عظیم تحریک بر پا کرکے اسرائیل اس کی حمایتی امریکہ اور یورپ کو بھی تباہ و بر باد کردیگا ۔
اللہ تعالی کی قدرت کاملہ سے یہ ہر گز ناممکن نہیں ہے جہاں تک رہی بات قیادت کی الحمد اللہ علماءحق کی ہر فرزند میں وہ تمام تر صلاحیتیں موجود ہیں جو کسی قوم کی قیادت کے لئے ضروری قرار پاتے ہیں۔
نگہ بلندج سخن دل نواز جان پرسوز ،
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے

اپنا تبصرہ بھیجیں