ضیاء الحق اور بلوچستان

انور ساجدی
5جولائی1977ء کو جب مارشل لاء لگا تو واحد الیکٹرانک میڈیا پی ٹی وی تھا۔اس کا سب سے بڑا نیوز بلیٹن رات 9بجے نشر ہوتا تھا اخبارات نے صبح خصوصی ضمیمے شائع کئے رات 8 بجے لوگ بی بی سی کی خبریں سننے کے لئے جمع تھے جبکہ ضیاء الحق نے ٹی وی اور ریڈیو پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا
پورے ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا گیا ہے قومی وصوبائی اسمبلیاں تحلیل کردی گئی ہیں آئین معطل کردیا گیا ہے اور انہوں نے خصوصی اختیارات کے تحت ملک کا کنٹرول سنبھال لیا ہے
اس طرح ملک میں تیسرے مارشل لاء کا نفاذ پی این اے اور سی آئی اے اتحادی کی مشترکہ تحریک کا منطقی
انجام تھا 4اور5جولائی کی درمیانی شب ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کر کے گورنر ہاؤس مری میں نظر بند کردیا گی
ا تھا۔وفاقی کابینہ کے بیشتر وزراء کو بھی حراست میں لے لیا گیا تھا۔
ضیاء الحق نے قوم سے خطاب میں کہا کہ ان کے سیاسی عزائم نہیں ہیں وہ 90دن میں عام انتخابات کروا کر اقتدار کومنتخب نمائندں کے حوالے کردیں گے تاہم انہوں نے اشارہ دیا کہ پی این اے کی تحریک کے دوران نظام مصطفی کا جو نعرہ لگا تھا وہ اس سے خاصے متاثر ہوئے ہیں یہی ایک نکتہ ضیاء الحق کا اصل ایجنڈا تھا۔جوں جوں اقتدار پر انکی گرفت مضبوط ہوتی گئی وہ اپنے وعدے سے انحراف کرتے رہے انہیں معلوم تھا کہ بھٹو عوام کی حمایت سے کایا پلٹ سکتے ہیں اس لئے انہوں نے بھٹو کو ہی ٹھکانے لگا نے کا فیصلہ کرلیا ان کے خلاف پیپلز پارٹی ہی کے ایک لیڈر احمد رضا قصوری کے والد کے قتل کی ایف آئی آر کو بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا گیا ضیاء الحق نے مکہ مکرمہ میں اسلامی کانفرنس کے دوران اسلامی سربراہوں سے وعدہ کیا کہ وہ ملک میں عام انتخابات کروائیں گے اور ذوالفقار علی بھٹو سے ناانصافی نہیں کرینگے لیکن وہ مکر گئے بھٹوکی پھانسی کے بعد البتہ انہوں نے اگست 1979ء کو ضیاء الحق نے ملک میں انتخابات کا اعلان کیا۔ میں نے اور میر حسین بخش بنگلزئی نے خضدار جا کر قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کاغذات داخل کئے چونکہ انتخابات کے لئے پارٹیز رجسٹریشن کی شرط رکھی گئی تھی اس لئے ہم دونوں کے کاغذات مسترد کردیئے گئے انتخابات کیا ہونے تھے ضیاء الحق نے اکتوبر1979ء میں مارشل لاء کو سخت کرلیا ہر طرح کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی سنسر شپ کے ضابطے سخت کردیئے تحریر وتقریر کی آزادی پر بد ترین قد غن لگا دی محنت کش اور طلباء یونین کا خاتمہ کردیا گیا میرے خلاف مارشل لاء کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا۔گرفتاری سے بچنے کے لئے میں نے سکھرکی بس میں بیٹھ کر رات سکھر پہنچاوہاں کے انٹر پاک ہوٹل میں ہوکا عالم تھا کیونکہ سارے سیاسی کارکن روپوش ہوگئے تھے صبح میں ایک بس میں بیٹھ کر کراچی پہنچ گیا اور چند روز رہنے کے بعد کوئٹہ آگیا اور جسٹس خدا بخش مری کی عدالت سے حکم امتناع حاصل کرلیا۔جنرل ضیاء الحق نے ابتداء ہی میں اپنے اقتدار کو مزید مضبوط کرنے کے لئے لاہور ہائی کورٹ کے انتہائی معتصب اور بھٹو سے ذاتی دشمنی رکھنے والے چیف جسٹس مولوی مشتاق کے ذریعے بھٹو کو سزائے موت دلوائی۔یہ مولوی مشتاق نام کے مولوی تھے داڑھی مونچ نہ دارد ضیاء الحق اور اس میں بھٹو دشمنی کے علاوہ جو قدر مشترک تھی وہ یہ تھی کہ دونوں کا تعلق جالندھر سے تھا۔احمد رضا قصوری کو ضیاء الحق نے مکمل طور پر اپنے سانچے میں ڈال لیا تھا یہ وہ احمد رضا قصوری تھے ان کے پر دادا نے پنجابی زبان کے عظیم ترین صوفی شاعر بابا بلے شاہ کو قصور شہر سے باہر نکال دیا تھا اور جب بابا جی فوت ہوئے تو لوگوں کو ان کا جنازہ پڑھنے سے روک دیا تھا اتفاق سے رضا قصوری کا پر دادا کا نام بھی یہی تھا انگریزوں کے آنے کے بعد اس خاندان نے غلامی کر کے ان کا بھر پور ساتھ دیا اور نوابی کا ٹائٹل حاصل کرلیا۔
جنرل ضیاء الحق چونکہ تاحیات حکمران رہنا چاہتے تھے اس لئے انہوں نے بڑے بڑے ڈرامے کئے مثال کے طور پر مرکز میں مجلس شوریٰ بنائی جو پارلیمنٹ کا کردار ادا کرتی تھی مجلس شوریٰ کے اجلاس بھی پارلیمنٹ ہاؤس کی بلڈنگ میں ہوتے تھے صوبائی سطح پر کونسلوں کا قیام عمل میں لایا گیا جن کا درجہ صوبائی اسمبلیوں کا تھا گورنر اجلاس کی صدارت کرتے تھے۔بلوچستان میں اس زمانے کا گورنر جنرل رحیم الدین خان تھے جو بعد میں جنرل ضیاء الحق کے سمدھی بنے تھے ان کا تعلق یو پی کے علاقہ قائم گنج سے تھا ان کا ننھیال کٹر قادیانی تھا ان کے بڑے ماموں ذاکر حسین ہندوستان کے صدر رہے تھے دوسرے ماموں ڈاکٹر۔محمود حسین پاکستان وارد ہوئے تھے اور کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر بن گئے تھے مجھے ذاتی طور پر سخت ناپسند کرتے تھے کیونکہ میں نے ناتجربہ کاری اور معاملات فہمی کی کمی سے یہ پوچھ لیا تھا کہ قائم گنج کے سارے لوگ قادیانی ہیں یا صرف آپ کا خاندان اس مسلک سے تعلق رکھتا ہے موصوف نے اس کی تردید کرنے کی بجائے شدید غصہ کیا اور کہا کہ آپ سبق سکھانا پڑے گا۔
عجیب تضاد تھا کہ ضیاء الحق خودکو راسخ العقیدہ مسلمان اور سنی کہلواتے تھے اور دوسری جانب بھٹو کو سزا دینے کے لئے ان کے حواس مکمل طور پر قادیانی فرقہ کے کنٹرول میں تھے حتیٰ کہ 4اپریل1979ء کی رات کو جب راولپنڈی جیل میں بھٹو کو پھانسی دی گئی تو پھانسی گھاٹ تک پہنچانے سے قبل ایک قادیانی شکور کو بھٹو کی کال کوٹھڑی تک جانے ا ور انہیں ازیت دینے کی اجازت دی تھی۔شکور نے حال ہی میں مختلف انٹرویوز میں اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے بھٹو کے ہاتھ پیر باندھے تھے ان کے منہ پر تھوکا تھا اور خدا شکر کا ادا کیا تھا کہ جس شخص نے احمد یوں کو دائرہ اسلام سے خارج کیا تھا آج وہ بدترین اور ازیت ناک موت مر رہا ہے اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ راسخ العقیدہ مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود ضیاء الحق کے قادیانیوں سے جو پرانے تعلقات تھے وہ آخر تک قائم رہے جس رات ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی
ضیاء الحق شدید بے چینی اور اضطراب کا شکار تھے انہوں نے اپنا حوصلہ بڑھانے کے لئے امیر جماعت اسلامی میاں طفیل احمد کو اپنے گھر بلایا تھا وہ کبھی ضیاء الحق کا حوصلہ بڑھاتے تھے اور کبھی ان پر دم کرتے تھے۔پھانسی کا عمل مکمل ہونے اور لاش گڑھی خدا بخش میں دفنانے تک ضیاء الحق اسی طرح کا اضطراب کا شکار تھے۔جب سب کچھ ٹھیک رہا تب ضیاء الحق گہری
نیند سو گئے اور شام کو اٹھے
۔انہوں نے بھٹو کو پھانسی دے کر اپنے تاحیات اقتدار کی سب سے بڑی رکاوٹ ختم کردی تھی لیکن ساتھ ہی انہوں نے ریاست کی سمت تبدیل کرنے اور اسے بربادیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں جھونکنے کے لئے کئی بنیادی اقدامات کئے انہوں نے1884ء میں نام نہاد ریفرنڈم کے ذریعے خود کو منتخب صدر قرار دے دیا اگلے سال غیر جماعتی بنیاد پر انتخابات کروائے آئین کو بحال کرنے سے قبل اس کا مکمل حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا اور شرط رکھی کہ مارشل لاء آئین توڑنے اور دیگر غیر آئینی اقدامات کو آئینی تحفظ فراہم کیا جائے۔اسی شرط کی منظور ی کے بعد ہی انہوں نے آئین بحال کردیا۔ضیاء الحق نے غیر سیاسی لوگوں پر مشتمل ایک نئی سیاست کی بنیاد ڈالی انہوں نے ناظم صلواۃ بنائے اور ایک ایسی خلق خدا تیار کردی جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری تھی ضیاء الحق اپنی مدح سرائی پر بڑے خوش ہوتے تھے انہوں نے عوام کو دھوکہ دینے کے لئے بار بار کہا کہ وہ مکمل اسلامی نظام نافذ کرینگے لیکن انکا ہر وعدہ اور ہر دعویٰ جھوٹا ثابت ہوا انہوں نے بھٹو کی سزائے موت کے خلاف اٹھنے والی کارکنوں کی تحریک کو بری طرح کچل دیا اور پارٹی کے فیوڈل رہنماؤں کو الگ تھلگ کر نے میں کامیاب رہے 20ویں صدیں میں ضیاء الحق نے سیاسی کارکنوں،محنت کشوں اور غریب لوگوں پر وہ قہر توڑے کہ تاریخ انسانی میں اس کی مثال موجود نہیں۔
انہوں نے اگر چہ ایک عدد وزیراعظم بھی بنایا لیکن سارے اختیارات اپنے پاس رکھے۔ضیاء الحق نے افغانستان میں جنگ چھیڑ کر اس ملک کو تاراج دیا انہوں نے جنگ کے عیوض کھربوں ڈالر لے کر ڈالر کلچر کو رواج دیا اور اس جنگ کی وجہ سے 50لاکھ مہاجرین پاکستان آئے جو پھر کبھی نہیں گئے یہ لوگ اپنے ساتھ ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر ساتھ لائے جو آج تک رائج ہے ضیاء الحق سادہ لوح لوگوں کو دھوکہ دے کر جو سطحی اقدامات کئے ان پر آج تک عملدرآمد جاری ہے۔ضیاء الحق سے پہلے پاکستانی سماج لبرل تھا اور اقلیتوں کو اتنا حقیر نہیں سمجھا جاتا تھا جو اس کے بعد سمجھا جانے لگا۔ضیاء الحق کی وجہ سے جو دہشتگردی شروع ہوئی وہ آج تک جاری ہے۔لسانی اور مذہبی تنظیمیں ان کی سرپرستی میں قائم ہوئیں۔ضیاء الحق کے انتہا پسند نظریات کی وجہ سے معاشی ترقی رک گئی پاکستان ایک سیکورٹی ریاست بن گیا اور اس کے فلاحی اور خوشحال ریاست بننے کے خواب ہمیشہ کے لئے چکنا چور ہوگئے بد قسمتی سے طاقت کے جو عناصر ہیں وہ ضیاء الحق کو اس ملک کی نظریاتی آس کے بانی سمجھتے ہیں اور انہی کے استوار کردہ خطوط پر اسے چلا رہے ہیں سیکورٹی کے خدشات بڑھ گئے ہیں اور ریاست ترقی کی دوڑ میں ایشیاء کے تمام ممالک سے پیچھے رہ گئی ہے۔ضیاء الحق کے سیاسی ورثہ کا آج بھی دور دورہ ہے۔زرداری نے اپنے دور میں 18ویں ترمیم کے ذریعے آئین کو درست کرنے کا جو فیصلہ کیا تھا ضیاء الحق کے مرید اسے تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔5 جنوری1977ء کو ضیاء الحق نے جو مارشل لاء لگایا اس کا واحد مثبت پہلو بلوچستان سے متعلق ہے۔انہوں نے اقتدار میں آنے کے 6ماہ بعد حیدرآباد سازش کیس کو کالعدم قرار دے دیا نیشنل عوامی پارٹی کے رہنماؤں کی رہائی کا حکم دیا انہوں نے رہنماؤں کی رہائی سے پہلے خان عبدالولی خان،میر غوث بخش بزنجواور نواب خیر بخش سے ملاقات کی۔اس کے بعد 5جولائی1978ء کوان رہنماؤں کو حیدرآباد جیل سے رہا کردیا گیا تاہم ضیاء الحق نے ہر رہنماء سے علیحدہ علیحدہ ملاقات کر کے بد گمانی پیدا کی پہلے مرحلے میں خان عبدالولی خان اور بلوچ رہنماؤں نے راستے جدا کرلئے اور اس کے بعد وہ بھی ایک ساتھ نہ رہ سکے۔میر غوث بخش بزنجو،سردار عطاء اللہ مینگل اور میر گل خان نصیر ایک طرف ہوگئے جب کہ نواب خیر بخش مری اور بابو شیرو مری نے ان سے سیاسی ناطہ توڑ لیا۔بلوچستان کی سیاست میں یہ تقسیم آج بھی موجودہے۔ لیکن یہ تقسیم مزید گہری ہوگئی ہے حتی کہ نیشنل عوامی پارٹی کے پیروکار اپنی سیاسی قوت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔بلوچستان کے لوگ سرکاری اور پارلیمانی سیاست سے لا تعلق ہوگئے ہیں اور ان کا رجحان مزاحمت کی طرف ہے وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی قومی بقاء کو خطرہ ہے اگر خاموشی اختیار کی جائے تو نتائج تباہ کن ہونگے اور مزاحمت کا نتائج کا بھی کوئی علم نہیں اور ان کا خیال ہے کہ ریت میں سر دینے کی بجائے ہاتھ پیر مارنا اور قربانی دینا زیادہ بہتر ہے۔اس طرح بلوچستان اپنی تاریخ کے انتہائی نازک مقام پر کھڑا ہے ایسا نازک مقام اس سے پہلے کبھی نہیں آیا۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں