معاشرہ میں لائبریری کاکردار
تحریر: ابوبکردانش میروانی
پِگھلنا علم کی خاطر مثالِ شمعِ زیبا ہے!
بغیر اس کے نہیں ہم جان سکتے کہ خدا کیا ہے!
کتب خانہ ایک ایسا ادارہ ہے جہاں کتابوں کی شکل میں انسانی خیالات، تجربات اور مشاہدات کی حفاظت کی جاتی ہے تاکہ ایک شخص کے خیالات سے نہ صرف اس کی نسل کے ہزاروں افراد بلکہ اس کے بعد آنے والی نسلوں کے افراد بھی استفادہ کرسکیں۔کتاب، مکتب اور مکتبہ، یہ تینوں چیزیں قوموں کی زندگی میں بڑی اہمیت کی حامل ہوا کرتی ہیں۔ ہر قسم کی ترقی کے دروازے انہیں کنجیوں سے کھلا کرتے ہیں۔ یہ تینوں حصولِ علم و تعلیم کے بنیادی ذرائع ہیں۔ علم، نور ہے۔ علم، انسانیت کا زیور ہے۔ علم ہی سے جائز و ناجائز میں فرق کیا جاتا ہے۔ دین و دنیا کی ساری کامیابیاں اور بھلائیاں اسی علم پرموقوف ہیں،علم ہی سے دنیا کوسنوارا جاسکتا ہے اور علم ہی کی بدولت آخرت کی سعادتیں حاصل کی جاسکتی ہیں،غرض کہ علم ترقی کاذریعہ، کامیابی کی کنجی اوردنیاکی حکومت و قیادت کاپہلازینہ ہے،اگرہمارے پاس علم ہے تو سب کچھ ہے اوراگرعلم نہیں توسمجھوکچھ بھی نہیں،آج کی اس اختلاف بھری دنیامیں جدھردیکھیے اختلاف ہی اختلاف نظرآتاہے۔ ہر گھر،ہرفرداورہرسماج میں اختلاف ہے،کوئی شعب حیات ایسانہیں جہاں اختلاف نہ ہو،لیکن دوچیزیں ایسی ہیں،جن کی حقیقت اورفضیلت میں کوئی اختلاف نہیں ہیاور وہ ہیں:(۱) موت،(۲) علم،یہاں تک کہ ایک ملحد اورجاہل بھی موت اورعلم کی اہمیت کاقائل ہے،کتابوں سے دوستی،علم سے محبت اور لائبریری قائم کرکے اسے آباد رکھنیکی فکری و عملی کوشش زندہ قوموں کی علامت ہے ہند و پاک سمیت دنیا کے اکثر براعظموں پرمسلمانوں نے صدیوں تک حکومت کی ہے اور اپنیاقتدارکاپرچم لہرایا ہے،جس کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ علم و تعلیم کے میدان میں مسلمانوں کی مضبوط گرفت ہے۔مسلمان جب تک علم کے زیور سے آراستہ رہے،کتابوں کواپنادوست بناکر مکتب اورمکتبہ سیاپنا علمی و روحانی رشتہ جوڑے رکھا،زندگی کے ہرمیدان میں کامیاب رہے اورجیسے جیسے تعلیم سے دور اور درس و مطالعہ سے بیگانہ ہوتے گئے،اس پر ترقی کے دروازے بند ہوتے گئے، مذہب اسلام نے اپنے ماننے والوں کوحصولِ علم پر بہت زور دیا ہے۔ بعض اہل علم نے تو یہاں تک کہا ہے کہ ماں کی آغوش سے لے کر قبر میں جانے تک علم حاصل کرتے رہو۔علم ہی دینی و دنیاوی کامیابیوں کاذریعہ و وسیلہ ہے۔اس لییعمر کالحاظ کیے بغیر ہمیں بچپن،جوانی اوربڑھاپے تک حصول علم میں کوشاں رہناچاہیے، تعلیم اور لائبریری ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں،جہاں تعلیم کا انتظام ہو،وہاں ایک اچھی سی لائبریری اور مختلف علوم و فنون کی کتابوں پر مشتمل کتب خانہ کا ہونا بھی ضروری ہے،کوئی بھی تعلیمی ادارہ،لائبریری سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ تعلیمی اداروں میں نصابی ضرورت محض نصابی کتابوں سے پوری نہیں ہوتی۔ دیگر علمی و تحقیقی ضروریات کیے لیے اضافی کتابوں کاہونا بھی ضروری ہے۔ معاشی اور تعلیمی اعتبار سے معاشرتی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے میں بسنے والے افراد مروجہ علوم اور زمانے کیتقاضوں سے آگاہ ہوں،عوام کی علمی سطح بلند،ہر طرف تعلیم کاچرچاہو۔تعلیمی اداروں میں کتب خانے اور لائبریریاں موجود ہوں۔ علم کے حصول کاسب سے بڑا ذریعہ ہمارے مدارس،مکاتب،اسکول،کالج اور یونیورسٹیاں ہیں۔عوام کی رسائی ان تعلیم گاہوں تک بالعموم نہیں ہو پاتی،اس لیے ملک کے مختلف حصوں میں فلاحی تنظیموں کے ذریعے لائبریری کے قیام کا اہتمام کیاجائے،علم کا فروغ محض تعلیمی اداروں سے ہی ممکن نہیں،تعلیمی ترقی اور علم کے فروغ کا ایک مضبوط ذریعہ لائبریری ہے،آج لائبریری کے قیام و استحکام پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔کیوں کہ تعلیم کو عام کرنے کاجو راستہ تعلیمی اداروں سے نکلتاہے،وہ کتب خانوں میں آکرمل جاتا ہے اوران دونوں کے باہمی تعاون سے ہی ملک اور معاشرے میں علم کااجالا پھیلتاہے،لائبریریاں،علوم و فنون اور معلومات کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں۔علم کے متوالوں کو یہاں ہر قسم کا علم بغیر کسی پابندی اور رکاوٹ کے مل جاتا ہے اور ہر شخص آسانی سے بقدر ظرف استفادہ کر سکتا ہے، دنیا کی کوئی بھی ترقی یافتہ قوم لائبریری سے بے نیاز نہیں رہ سکتی لائبریری کی اہمیت و افادیت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا خاص طور سے تعلیمی و تدریسی زندگی میں تو لائبریری کی اہمیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے اس کے بغیر تعلیمی سفر کومنزل سے ہم کنارنہیں کیاجاسکتا، درسی کتابیں چاہے کتنی ہی معیاری اور مفید ہو بچوں کی معلومات میں وسعت، ذخیرہ الفاظ میں اضافہ، مطالعہ کی سکت، کتب بینی کا ذوق، خیالات کی بلندی، آدرش کی لگن، اظہار خیال پر قدرت، دوسروں کے خیالات و نظریات سمجھنے کی صلاحیت اور فرصت کے اوقات کے مناسب استعمال کے لیے مزید موزوں کتب اور اخبارات و رسائل وغیرہ کا مطالعہ ضروری ہے۔ خود اساتذہ کو بھی اپنی تدریسی صلاحیت بڑھانے، اپنی معلومات کو اپ ڈیٹ رکھنے، توضیح و تشریح میں مدد لینے اور حوالہ جات کے لیے کتب و رسائل کی ضرورت پڑتی ہے۔ ظاہر ہے طلبہ اور اساتذہ کی ان ضروریات کی تکمیل کے لیے ہر مدرسے کی اپنی ” لائبریری ” ہونی چاہیے۔ لائبریری میں اساتذہ اور ہر عمر؛ ذوق اور صلاحیت کے بچوں کے لیے مفید اور ضروری کتب کا ذخیرہ ہونا چاہیے، جس میں سال بہ سال اپنی بساط کے مطابق نئی کتب کا اضافہ بھی ہوتا رہے، بچوں اور بڑوں کی دلچسپی کے لیے اچھے اخبارات ورسائل رکھ دی جائیں اگر وسائل محدود ہو تو کتب و رسائل کی فراہمی میں پبلک سے تعاون بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ جو صاحب ذوق اخبارات و رسائل منگواتے ہیں یا کتابیں خریدتے ہیں، ان سے یہ چیزیں لائبریری کے لیے عاریتا لی جاسکتی ہیں یا ان میں سے جو چیزیں پڑھنے کے بعد عموما بے کار ہوجاتی ہیں اور وہ ادھر ادھر ڈال دیتے ہیں انہیں لائبریری کیلئے مستقلا حاصل کریں۔ بعض گھروں میں پرانی کتب کا ذخیرہ پڑا پڑا دیمکوں کی نذر ہو جاتا ہے یا بچوں کی پڑھی ہوئی کتابیں ادھر ادھر بکھری پڑی رہتی ہیں تو مفت میں یا کم داموں پر انہیں لائبریری کے لیے حاصل کرسکتیہیں، جس طرح پاور پلانٹ اور بجلی ہاس سے ہرطرف بجلی سپلائی کی جاتی ہے، اسی طرح لائبریری "علم کا پاور ہاس ہے”جہاں سے معاشرے کو علم کی روشنی فراہم ہوتی ہے اور مختلف علوم و فنون کی شعاعیں لوگوں کے ذہن و دماغ میں منتقل ہوتی ہیں۔ انسانی تہذیب کے ارتقا کی تاریخ کتاب اور لائبریری کے ذکرکے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔بلوچستان کے ضلع سوراب میں بلوچ اسٹوڈنٹس الائنس کے دوستوں (بالخصوص لطیف بلوچ،قدیربلوچ،وحیدبلوچ،یاسین بلوچ، قدیرسلام بلوچ عبدالغنی بلوچ اور دیگردوستوں جس میں راقم الحروف بھی شامل ہیں) نے اپنی مدد آپ کے تحت سوراب اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں میں رہنے والے طلبا و طالبات کیلئے ایک لائبریری کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس سے طلبا و طالبات مستفید ہورہے ہیں،اسی طرح قوم و ملت کے ذمہ دار حضرات کو چاہیے کہ سماجی فلاح و بہبود سے متعلق وہ اپنے ترقیاتی منصوبوں میں (جہاں ضرورت ہو وہاں) لائبریریوں کے قیام کو بھی شامل کریں اور ہماری وہ قدیم لائبریریاں جو آج دیمک کی نذر ہو رہی ہیں،ان کی حفاظت کاانتظام کریں۔