امریکہ اور برطانیہ کے بعد آسٹریلیا نے بھی فلسطینی تحریک مزاحمت حماس پر نئی پابندیاں عائد کر دیں
واشنگٹن(صباح نیوز) امریکہ اور برطانیہ کے بعد آسٹریلیا نے بھی فلسطینی تحریک مزاحمت حماس اور اسلامی جہاد کو مالی معاونت فراہم کرنے والو کے اثاثے منجمد اور نئی پابندیاں لگانے کا اعلان کیا ہے۔امریکی محکمہ خزانہ کے مطابق نئی پابندیوں میں برطانیہ اور آسٹریلیا کی طرف سے بھی پابندیاں شامل ہیں۔امریکی محکمہ خزانہ کی ویب سائٹ پر بتایا گیا ہے کہ امریکا نے سوموار کو حماس سے منسلک افراد اور عراقی فلائی بغداد ایئر لائن سے منسلک افراد پر نئی پابندیاں عاید کی گئی ہیں۔امریکی محکمہ خزانہ کے بیرون ملک اثاثہ جات کے کنٹرول کے دفتر نے 7 اکتوبر کو غزہ کی پٹی کے آس پاس کی بستیوں پر ہونے والے حملے کے بعد حماس پر پابندیوں کے پانچویں دور کے نفاذ کا اعلان کیا۔دفتر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ آج کی پابندیوں میں برطانیہ اور آسٹریلیا کی طرف سے بھی پابندیاں شامل ہیں۔ان پابندیوں میں غزہ میں حماس کے مالیاتی نیٹ ورکس کو نشانہ بناتی ہیں اور ان میں ایسے افراد شامل ہیں جنہوں نے قدس فورس سے اسلامی جہاد اور حماس کو کرپٹو کرنسی کی منتقلی سمیت رقوم کی منتقلی میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔محکمہ خزانہ نے کہا کہ پابندیوں میں عراقی گروپ کتائب حزب اللہ اور فلائی بغداد ایئرلائنز کمپنی کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے جن پر ایرانی پاسداران انقلاب کی قدس فورس کی مبینہ مدد کرنے پر پابندیاں لگائی گئی ہیں۔محکمہ خزانہ کے فارن اثاثہ جات کے کنٹرول کے دفتر نے عراق میں کتائب حزب اللہ کے تین رہ نماں اور ان کے حامیوں کے ساتھ ساتھ ایک کمپنی کو نامزد کیا ہے جس پر ملیشیاں کے لیے پیسہ منتقل کرنے کا الزام ہے۔پابندیاں امریکی جائیدادوں اور بینک اکانٹس تک رسائی کو روکتی ہیں اور ہدف بنائے گئے لوگوں اور کمپنیوں کو امریکیوں کے ساتھ معاملات کرنے سے روکتی ہیں۔برطانیہ نے پیر کے روز حماس تحریک سے منسلک افراد پر پابندیاں عائد کیں، جن میں تحریک کے فنانسرز اور رہ نما شامل ہیں۔ ان اقدامات سے حماس کو فنڈنگ کو منقطع کرنے میں مدد ملے گی۔برطانوی وزیرخارجہ ڈیوڈ کیمرون کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ یہ پابندیاں حماس کے لیے اہم پیغام ہے کہ برطانیہ اور اس کے شراکت دار پرعزم ہے کہ دہشت گردی کو مالی معاونت فراہم کرنے والوں کے چھپنے کے لیے کہیں بھی کوئی جگہ نہیں۔ڈیوڈ کیمرون کا کہنا تھا کہ غزہ مین پائیدوار جنگ بندی کے لیے ضروری ہے کہ حماس کے اقتدار کا خاتمہ ہو اور وہ اس قابل نہ رہے کہ اسرائیل کے لیے خطرہ بنے۔خیال رہے گذشتہ سال کے آخر میں برطانیہ اور امریکہ نے حماس اور اس کے ایرانی سپوٹروں پر کئی رانڈز پر مشتمل منظم پابندیاں عائد کی تھیں۔


