انتخابات 2024ء میں قوم پرستوں کی ناکامی

تحریر: حضور بخش قادر
کسی زمانے میں یہ ایک ہوا کرتے تھے، اب الگ الگ نیشنل پارٹی اپنے آپ کو ملک گیر پارٹی کیساتھ ساتھ قوم پرست پارٹی کہلاتی ہے، بلوچستان نیشنل پارٹی اپنے آپ کو بلوچستان کی قومی جماعت اور قوم پرست کہلاتی ہے، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کہتی ہے کہ پارلیمنٹ کو مورچے کے طور پر استمال کررہے ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی نے صوبے کے تقریباً تمام علاقوں سے اپنے اپنے امیدوار کھڑے کیے، اسی طرح بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی نے بھی مختلف اضلاع سے اپنے امیدوار کھڑے کیے، الیکشن مہم کے دوران تینوں جماعتوں نے خوب مہم چلائی اگر اربوں روپے مہم پر خرچ نہ کیے تو کروڑوں روپے ضرور خرچ کیے ہوں گے کیونکہ اس مرتبہ لمبی انتخابی مہم چلائی گئی، بہرحال یہ ان کا ذاتی مسئلہ ہے کتنے خرچ کیے، مگر تینوں جماعتوں نے اپنی تمام تر توانائیاں ایک دوسرے پر خرچ کیں اور رزلٹ 5 فیصد بھی حاصل نہیں کرپائے۔ نیشنل پارٹی کے حصے میں قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی اسمبلی کی تین نشست آئیں، بلوچستان نیشنل پارٹی قومی اور صوبائی اسمبلی کی ایک ایک نشت جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے حصے میں صوبائی اسمبلی کی صرفِ ایک نشست آئی۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے اسرار زہری ایک نشت بھی حاصل نہ کرسکے اگر یہ سب انتخابات میں ایک ساتھ ہوتے تو بلوچستان سے صوبائی اسمبلی کی 20 اور قومی اسمبلی کے 10/8 حلقوں سے کامیابی حاصل کرسکتے تھے۔ انتخابات میں قوم پرست جماعتوں کی ناکامی کو یہ اپنے اندر ڈھونڈیں اور تلاش کریں تو ان کو سب کچھ نظر آئے گا، انتخابات میں قوم پرستوں کو کنارے سے لگانے اور مبینہ دھاندلیوں کے حوالے سے ان کے موقف سے ہمیں انکار نہیں، مختلف اوقات میں قوم پرست جماعتوں کے رہنماﺅں کی طرف سے پہاڑوں پر جانے اور مزاحمتی سیاست کی گونج میدان کے سراب میں تبدیل ہوتے گئے ہیں اور بات تردید میں تبدیل ہوگئی جیسا کہ ڈاکٹر صاحب کے مطابق پہاڑوں پر جانے کے بیان میں کوئی صداقت نہیں۔
گزشتہ کئی روز سے انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے بعد اگرچہ ان میں سے دو پارٹیوں نے چار جماعتی اتحاد قائم کرکے احتجاج شروع کردیا ہے جبکہ بی این پی عوامی نے اب تک خاموشی اختیار کی ہوئی ہے، شاید اسے پتا ہے کہ یہاں احتجاج سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں اسی طرح احسان شاہ، میر حمل کلمتی نے بی این پی کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیا مگر احتجاج میں ان کی کوئی سرگرمی دیکھنے کو نہیں مل رہی۔ جان محمد بلیدی، ڈاکٹر مالک بلوچ موجودہ احتجاج میں سب سے زیادہ سرگرم عمل ہیں، جان محمد بلیدی کو اتنا جذباتی تقریر کرتے اس سے قبل کبھی نہیں دیکھا۔ بہرحال مکران میں نیشنل پارٹی کے پلیٹ فارم سے یہ احتجاج ہورہے ہیں۔ شاید اب اس جماعت کو مستقبل کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے جیسا کہ 2018ءسے قبل محمد نواز شریف اور اس کے صوبائی حکومت کا ساتھ دینے کے بعد ہوا۔ بلوچستان میں چار جماعتی اتحاد نے الیکشن میں مبینہ دھاندلیوں کیخلاف مشترکہ احتجاج کا اعلان کردیا ہے مگر مکران میں اتحاد کے حوالے سے کوئی مشترکہ احتجاج نظر نہیں آیا کیونکہ جب ان قوم پرست جماعتوں میں ہم آہنگی نہیں تو ایک ساتھ احتجاج کیسے کریں گے اور تعلقات خراب بھی نہیں کرسکتے، البتہ کوئٹہ کی حد تک چار جماعتی اتحاد مشترکہ طور پر احتجاج کررہے ہیں جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے یہ تینوں جماعتیں کسی زمانے میں ایک ہوا کرتی تھیں، اب الگ الگ ہوگئی ہیں، شاید ان کے لیڈران کے اپنے اپنے ذاتی اور گروہی مفادات یا ان کی انا پرستی نے ان کو الگ تھلگ کردیا ہے اور تقسیم در تقسیم شاید ان کا مقدر بن گئی ہے، ان میں ایک فیصد بھی عوامی عنصر دکھائی نہیں دیتا، اسی وجہ سے عام عوام میں مایوسی بے اعتمادی ہے، یہی قوم پرست جماعت صوبائی اور وفاقی حکومت کی حصہ دار یا حمایتی رہی ہیں اور اپنے ذاتی اور گروہی مفادات اقتدار کے حصول کے لیے پاکستان مسلم لیگ ن، ق، ض پاکستان پیپلز پارٹی بلوچستان عوامی پارٹی نہ جانے کس کس سے اتحاد اور حکومت سازی کرتے رہے ہیں یہ کیسے قوم پرست رہی ہے۔
اب دیکھتے ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی بلوچستان عوامی پارٹی جمعیت علمائے اسلام وغیرہ سے حکومت بنانے کے لئے کون کیا کرے گا مگر دوسری جانب قوم پرست جماعتوں کا یہ حال ہوگیا ہے کہ ان پارٹیوں کے ورکرز ایک دوسرے سے سلام علیک تک نہیں کرتے، شاید ہمارے لیڈران دیکھ کر ناراضگی کا اظہار کریں، ورکرز کے ذہنوں کو بھی تقسیم کردیا گیا ہے اور ذہنی غلامی خوف کی زنجیروں میں جکڑ گئی ہیں۔ ہار کے بعد جیت بھی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں