بلوچستان میں ہم اکثریتی جماعت ہیں، پیپلز پارٹی کا وزیراعلیٰ قبول نہیں، محمود خان اچکزئی اپنا لہجہ درست کریں، ن لیگی رہنما

کوئٹہ (آن لائن) مسلم لیگ (ن) بلوچستان کے صدر سابق صوبائی وزیر شیخ جعفر خان مندوخیل نے محمود خان اچکزئی کی جانب سے پارٹی کے مرکزی صدر اور وزیر اعظم کے نامزد امیدوار میاں محمد شہباز شریف کے متعلق کہے جانے والے الفاظ کوزیادتی کے مترادف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر سینئر سیاستدان ہی اپنے ساتھیوں کے بارے میں اس طرح کے الفاظ استعمال کریں تو دوسروں سے کیا گلہ ہوسکتا ہے۔ پیپلزپارٹی سے بلوچستان میں وزیر اعلیٰ کاعہدہ دینے سے متعلق تاثر کو رد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی (ن) لیگ 11 نشستوں کیساتھ صوبے کی لیڈنگ پارٹی ہے، پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں سے ملکر صوبے میں مخلوط حکومت بنائیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو پارٹی کے نومنتخب اراکین صوبائی اسمبلی سردار عبدالرحمن کھیتران، نومنتخب رکن قومی اسمبلی صوبائی جنرل سیکرٹری جمال شاہ کاکڑ، سردار مسعود احمد لونی، میر شعیب احمد نوشیروانی کے ہمراہ پارٹی کے دفتر میں پریس کانفرنس کے دوران کیا۔ اس موقع پر سردار فتح محمد محمد حسنی، میر دوستین خان ڈومکی، سعید الحسن مندوخیل، صوبائی سیکرٹری اطلاعات چوہدری شبیر احمد سمیت دیگر بھی موجود تھے۔ شیخ جعفر خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ میاں محمد شہباز شریف نے کبھی بھی نہیں کہاکہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا رہا ہوں۔ محمود خان اچکزئی اپنے لہجے پر توجہ دیں میاں برادران نے ہمیشہ بلوچستان کے سینئر قوم پرست سیاست دانوں کا خیال رکھا ہے حالانکہ پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں نے کبھی بھی انہیں وہ مقام نہیں دیا جو مسلم لیگ کی قیادت دیتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں مسلم لیگ کے ساتھ بھی حالیہ الیکشن میں زیادتی ہوئی ہے، ہر سیٹ پر مقابلہ ہواہے صوبائی اسمبلی کی 11نشستیں حاصل کیںاداروں نے بھی الیکشن میں اپنا کردار ادا کیا محمود خان اچکزئی کا تو مسلم لیگ (ن) سے ٹکرا¶ نہیں ہے، محمود خان اچکزئی اپنا لہجہ درست کریں ہم گلہ ہی کرسکتے ہیں میاں برادران نے ہمیشہ ہم سے زیادہ محمود خان اچکزئی اور سردار اختر جان مینگل، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو ترجیح دی ہے بلوچستان میں سب سے زیادہ مسلم لیگ (ن) نے سیٹیں حاصل کی ہیں پارٹی قیادت سے معلوم کیا پیپلزپارٹی سے ابھی تک بلوچستان کے وزیراعلیٰ کا کوئی معاہدہ نہیں ہواہماری اکثریت ہے بلوچستان حکومت بنانے کی خواہش ہے بلوچستان میں تمام اتحادیوں کو ساتھ لیکر چلیں گے بلوچستان میں سب سے زیادہ زیادتی مسلم لیگ کے ساتھ ہوئی ہے۔ انہوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ میرے مخالف نے 3کروڑ روپے دے کر نتائج تبدیل کروائے ہیں ہم نے تو کسی کی سیٹ نہیں لی اور ہماری لی گئی سیٹوں پر الزام بھی نہیں لگایامقابلہ کرکے سیٹیں حاصل کی ہیں۔اس موقع پرنومنتخب رکن صوبائی اسمبلی سردار عبدالرحمن کھیتران نے کہا ہے کہ محمود خان کا رویہ قابل مذمت ہے فیصلہ عوام کرتے ہیں انکی پارٹی کو عوام نے مسترد کردیاقوم پرستوں کے حق میں میاں برادران آخری حد تک گئے ہماری مرکزی قیادت قوم پرستوں کا زیادہ احترام کرتی ہے صوبائی اورمرکزی قیادت کی تمام جماعتوں سے بات چیت چل رہی ہے بلوچستان کی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ کے ساتھ چلنے کی خواہش مند ہےں جو بھی فیصلہ پارلیمانی گروپ کا ہوگا وہ ہمیں قبول ہے کوشش ہے کہ صوبے میں حکومت بنائیں اور تمام کو ساتھ لیکر چلیں 22 فروری تک مخصوص نشستوں کے آنے کے بعد صورتحال مزید واضح ہوجائےگی۔ الیکشن سے ہار جانے کا غصہ ہماری مرکزی قیادت پر ڈالنا مناسب نہیں میں 35 سال سے پارلیمنٹ کا حصہ ہوں ہمیشہ میاں برادران نے قوم پرستوں کو حکومت دی، پارٹی سربراہ نے سب سے زیادہ قوم پرستوں کو عزت دی ہے قوم پرستوں کو آج بھی میاں برادران کا شکر گزار ہونا چاہئے عوام نے فیصلہ کرنا ہے کہ کس کو پارلیمنٹ میں لانا ہے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے دور میں پابند سلاسل رہا اس کے باوجود میں نے بلدیاتی الیکشن جیتنے کے ساتھ ساتھ صوبائی اسمبلی کا الیکشن بھی جیتا سڑکیں بند کرکے قوم پرست لوگوں کو سزا دے رہے ہیں کہ انہوں نے انہیں ووٹ نہیں دیا کیونکہ عوام نے 2018ءاور 2024ءکے انتخابات میں قوم پرستوں کو مسترد کردیا ہے اس موقع پر پارٹی کے صوبائی جنرل اور نو منتخب رکن قومی اسمبلی جمال شاہ کاکڑ نے کہا ہے کہ سیدھا فارمولا ہے کہ جو پارٹی اکثریتی ہوگی حکومت بنائے گی ملکی حالات کو دیکھتے ہوئے مضبوط حکومت وفاق و صوبوں کی ضرورت ہے تاکہ ملک اور قوم کو درپیش مسائل سے چھٹکارا دلایا جاسکے مرکز اور بلوچستان میں مضبوط حکومت بنے گی تو مسائل کا حل ممکن ہوگا ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سیاسی بیانیہ چلتا رہتا ہے بلوچستان میں قبائلی سسٹم ہے اور قبائل کی اپنی روایات ہیں اور قبائل کی بنیاد پر ووٹ ڈالے جاتے ہیں ایک اور سوال کے جواب میں جعفر خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ اگر دوبارہ انتخابات ہوتے ہیں تو بھی اسی طرح کا سسٹم ہوگا اور نتائج کو تسلیم نہیں کیا جائے گا جو جماعتیں آج نتائج کے حوالے سے سراپا احتجاج ہیں انہیں قانونی راستہ اختیار کرتے ہوئے بے ضابطگیوں کے خلاف الیکشن ٹریبونل اور عدلیہ سے رجوع کرنا چاہئے انہوں نے کہا کہ پارٹی کو بلوچستان کے لوگوں نے واضح مینڈیٹ دیا ہے جو کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی حکومت سازی اور وزیر اعلیٰ کے حوالے سے پیپلزپارٹی سے کوئی معاہدہ نہیں ہوا وہ میڈیا ،سوشل اور پرنٹ میڈیا میں یہی تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں مرکزی قیادت کے فیصلے کے پابند ہیں اور اس میں پارلیمانی گروپ کا فیصلہ بھی شامل ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں