مسئلہ بلوچستان:ثالثی کی گنجائش؟
تحریر: انور ساجدی
ملک کی مجموعی صورتحال اچھی نہیں دکھائی دے رہی ہے چاہے سیاسی محاذ ہو معاشی شعبہ ہو یا سیکورٹی کوئی اتفاق دیکھنے میں نہیں آ رہا۔ بلوچستان کے حالات تو کافی عرصہ سے غیر معمولی ہیں لیکن اس وقت یہ حالات انتہائی تشویشناک ہوئے ہیں دو روز قبل کھڈکوچہ میں مسلح افراد کی فائرنگ سے ضلع پنجگور کے ڈپٹی کمشنر جاں بحق ہوگئے جبکہ نیشنل پارٹی اور خاص طور پر رحمت بلوچ ایم پی اے کے لئے یہ بات باعث اطمینان ہے کہ ان کے بھائی زخمی تو ہوگئے لیکن ان کی جان بچ گئی ۔اسی رات کم از کم تین دھماکے بھی ہوئے۔اسی رات بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قائد ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے شاہوانی اسٹیڈیم کوئٹہ میں ایک جلسہ سے خطاب کیا۔ان کا لہجہ پہلی بار تند وتیز،ترش اور تلخ تھا۔انہوں نے کہا کہ بلوچ شہداءکی جانوں کا کوئی معاوضہ نہیں ہوتا کیونکہ انہوں نے یہ قربانی اپنی سرزمین کے لئے دی ہے۔جب ماہ رنگ جلسہ میں اپنا ایجنڈا دے رہی تھیں عین اسی وقت سابق وزیراعلیٰ اور نیشنل پارٹی کے قائد ڈکٹر عبدالمالک بلوچ اسلام آباد میں وزیراعظم شہبازشریف کے ساتھ ایک وفد کے ہمراہ تشریف فرما تھے۔ روزنامہ ڈان نے سینیٹر جان بلیدی کے حوالے سے خبر شائع کی ہے کہ ڈاکٹر مالک نے وزیراعظم کو بتایا کہ گوادر میں بلوچ راجی مچی کو روکنے کے لئے حکومت نے جو اقدامات کئے وہ مناسب نہیں تھے اور طاقت کے استعمال کا کوئی جواز نہیں تھا۔اسی وجہ سے حالات خراب ہوگئے اور جانی نقصان بھی ہوا۔ملاقات میں ڈاکٹر صاحب نے شہبازشریف پر زور دیا کہ مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے ورنہ حالات مزید خراب ہو جائیں گے۔ ڈاکٹر صاحب کی کوششیں یقینی طور پر مناسب ہیں اور ان کی خیرخواہی کا جذبہ قابل قدر ہے لیکن جب ماہ رنگ نے مذاکرات سے انکار کیا ہے تو یہ مذاکرات کن کے درمیان ہوں گے۔آیا یہ بلوچستان کی سطح پر ہوں گے یا مرکزی سطح پر۔ صوبائی سطح پر تو گوادر اجتماع کے موقع پر نیشنل پارٹی نے ثالثی کا کردار ادا کیا جس کی وجہ سے ایک معاہدہ بھی ہوا۔آیا مرکزی سطح پر بھی ڈاکٹر مالک ثالثی کا کردار ادا کرنے کو تیار ہیں اگر وہ ثالثی چاہتے ہیں تو کس فریق کی طرف سے بات چیت میں حصہ لیں گے اور یہ کہ انہیں کتنا اختیار ہوگا؟۔
جہاں تک مذاکرات کا تعلق ہے تو جب نوازشریف کے دور میں وزیراعلیٰ تھے تو وزیراعظم نے انہیں یہ فریضہ سونپا تھا کہ وہ لندن اور جنیوا جا کر جلا وطن بلوچ رہنماؤں سے ملاقات کریں۔ڈاکٹر صاحب کے بقول وہ وزیراعظم کے کہنے پر گئے تھے اور نوازشریف نے کہا تھا کہ جنرل راحیل شریف بھی یہی چاہتے ہیں لیکن ملاقاتوں کے بعد وہ جب واپس آ گئے اور نوازشریف کو رپورٹ پیش کر دی تو انہوں نے کہا کہ وہ جنرل صاحب سے پوچھ کر بتائیں گے کہ مزید کیا کرنا ہے؟۔کچھ عرصہ کے بعد نوازشریف نے بتایا کہ جنرل صاحب نے کہا کہ آپ اس سلسلے کو روک دیں اور ہم بلوچستان کے مسئلے کو اپنے مطابق حل کریں گے۔اس طرح یہ سلسلہ ٹوٹ گیا۔اس تجربہ کے بعد ڈاکٹر صاحب ایک بار پھر ثالثی کے لئے آمادہ ہیں تو یہ ان کی اعلیٰ ظرفی ہے۔غالباً وہ مستقبل قریب کے حالات کا جائزہ لے کر ایک بڑی خونریزی اور تباہی کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ آخری کوشش کے بعد خود پرامن مزاحمتی تحریک کا آغاز کر دیں۔جہاں تک ڈاکٹر مالک کی شخصیت کا تعلق ہے تو وہ مسلم لیگ ن کی قیادت میں بہت پاپولر ہیں نوازشریف نے کئی مرتبہ یہ کہا ہے کہ ڈاکٹر مالک کو وزارت اعلیٰ سے ہٹا کر ہم نے بڑی غلطی کی تھی۔ شہبازشریف نے تو خود میرے سامنے ماڈل ٹاؤن کے گھر میں یہ کہا تھا کہ ڈاکٹر مالک ایک سنجیدہ اور معاملہ فہم سیاسی رہنما ہیں۔انہیں خدمت کا موقع ملنا چاہیے۔بعض لیگی رہنماؤں نے تو نوازشریف کو8 فروری کے انتخابات کے بعد قائل کیا تھا کہ بے شک ڈاکٹر مالک کی نشستیں کم ہوں لیکن انہیں بطور وزیراعلیٰ سامنے لایا جائے لیکن اس دوران قرعہ فال زرداری کے نام نکلا۔جنہوں نے اپنا سیاسی سیٹ اپ قائم کر دیا۔بعض لیگی رہنماؤں نے حال ہی میں اپنی قیادت کے سامنے دوبارہ تجویز پیش کی کہ زرداری کو قائل کیا جائے کہ وہ ڈاکٹر مالک کی قیادت میں ایک کل جماعتی حکومت قائم کرنے کےلئے راضی ہو جائیں۔ ان رہنماؤں کے مطابق ن لیگ بلوچستان اسمبلی کی سب سے بڑی جماعت ہے جبکہ جے یو آئی بھی صوبائی سطح پر حمایت کرے گی۔یہ تو ن لیگ کی خواہش اور ڈاکٹر مالک سے اظہار محبت ہے کیونکہ زمینی حقائق کے مطابق جب تک زرداری اور ان کے پارٹنرز نہ چاہیں بلوچستان میں تبدیلی لانا ممکن نہیں۔ہاں مرکزی حکومت کافی سارے معاملات میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے لیکن بلوچستان چونکہ پیپلز پارٹی کو الاٹ ہوا ہے اس لئے ن لیگ کے اختیارات پنجاب تک محدود ہیں۔ہاں یہ ضرور ہے کہ زرداری صاحب بظاہر بلوچستان کی صورتحال کو کنٹرول کرنے میں کامیاب دکھائی نہیں دیتے۔برسوں سے جاری بیڈ گورننس اسی طرح جاری و ساری ہے بیوروکریسی دانستہ طور پر صوبائی حکومت سے تعاون نہیں کر رہی جبکہ عوامی سطح پر بھی اس حکومت کو پذیرائی حاصل نہیں ہے۔بلوچستان اسمبلی بھی ملک کی کمزور ترین ایوان اس طرح ہے کہ اس کے اراکین اہم اور حساس معاملات چلانے کے لئے سنجیدہ نہیں ہیں۔ہمیشہ کی طرح ان کا ہدف زیادہ سے زیادہ فنڈز کا حصول اور اپنے ذاتی مقاصد پورا کرنا ہے۔ یہ واحد اسمبلی ہے کہ اس نے بہت کم قانون سازی کی ہے کابینہ اگرچہ تجربہ کار ہے لیکن وزراء وہی پرانے چہرے ہیں جو ہمیشہ سے کامیاب ہو کر آتے ہیں۔اس حوالے سے وزیراعلیٰ یکہ و تنہا ہیں ان کی کوئی ٹیم نہیں بن پائی وہ اکیلے چاہیں تو کیا کرسکتے ہیں جب تک ایک قابل ٹیم نہیں ہوگی۔کپتان کے ہاتھ پیر بندھے ہوں گے جبکہ بلوچستان کے مسائل اتنے گھمبیر ہیں کہ انہیں ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ایک انسرجی ہے کہ جو2005 سے جاری ہے اس کا دائرہ پھیلتا جا رہا ہے امن و سلامتی کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے۔بیڈ گورننس عروج پر ہے۔کرپشن کا تو معلوم نہیں لیکن اسی طرح جاری و ساری ہے۔ سرکاری مشینری منقسم ہے اور”گوسلو“ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔انسرجی کے ساتھ شہری آزادیوں اور بنیادی حقوق کی بنیاد پر جو تحریک شروع ہو گئی ہے اس سے حکومتی مسائل اور مشکلات بڑھ گئی ہیں۔بوجوہ بلوچستان ایک آتش فشاں بن گیا ہے یا بننے جا رہا ہے اسے کنٹرول کرنے کے لئے غیر معمولی لوگوں اور غیر معمولی صلاحیتوں کی ضرورت ہے۔حکومت آگے جا کر کیا کرے گی یہ کوئی نہیں جانتا اور ماہ رنگ بلوچ کی تحریک کیا رخ اختیار کرے گی یہ بھی ایک پوشیدہ عمل ہے۔خدا کر ے کہ جو پرامن تحریک ہے وہ پرامن رہے اور اس میں دیگر عوامل شامل نہ ہوں۔لیکن حکومت سے زیادہ مشکل میں ماہ رنگ ہے وہ دور بہت دور چلی گئی ہیں۔ان کے پاس واپسی کا راستہ کم ہے۔ان سے توقعات بہت بڑھ گئی ہیں۔ان غیر معمولی توقعات پر پورا اترنا بھی آسان نہیں ہے۔ ان کے پاس تو آبرومندانہ راستہ یہی ہے کہ وہ تحریک کو پرامن رکھنے اور اسے آگے بڑھائے تصادم کی نوبت نہ آئے تو اچھا ہے۔پرامن مزاحمت اپنے مطالبات منوانے کا سب سے موثر طریقہ ہے۔ماہ رنگ نے اگرچہ مذاکرات اور معاوضوں سے انکار کیا ہے تو وہ خود وضاحت فرمائیں کہ وہ کیا حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ان کا ہدف کیا ہے اور اس ہدف تک پہنچنے کے لئے ایجنڈا کیا ہے؟۔اگر ایجنڈا بڑا ہے تو بلوچستان کے حالات ٹھیک نہیں ہوں گے اگر دوسرا فریق یعنی ریاست بات سننے کو تیارنہ ہو تو غیرمعمولی واقعات وقوع پذیر ہوسکتے ہیں۔ایسے واقعات کہ کسی نے اس کا تصور تک نہیں کیا ہوگا۔