خون کا نقش قدم
تحریر: انور ساجدی
جیسے کہ توقع تھی پاکستان کے سیاسی لیڈروں،حکومتی اکابرین اور اپوزیشن اراکین نے مل کردباؤ ڈالا ہے کہ سردار اختر مینگل اسمبلی نشست سے استعفیٰ کا فیصلہ واپس لے لیں بظاہر سردار صاحب انکاری ہیں لیکن یہ خدشہ اپنی جگہ موجود ہے کہ وہ کہیں یوٹرن نہ لیں تاہم بعض ناقدین طعنہ زنی اور نشترزنی کے ذریعے کوشش کر رہے ہیں کہ اختر مینگل کی سیاسی ساکھ زمین بوس ہو جائے۔سابق نگراں وزیراعظم اور مقتدرہ کی پسندیدہ شخصیت انوارالحق کاکڑ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ اختر مینگل کی مشکل یہ ہے کہ وہ نہ سرکار کے ساتھ چل سکتے ہیں اور نہ ہی سرمچاروں کے ساتھ۔اس بات کی انہوں نے مزید تشریح نہیں کی کہ عام آدمی سمجھ سکے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔بلوچستان کے حالات کو کنٹرول کرنے کے لئے انہوں نے مشورہ دیا ہے کہ ضرب عضب جیسا آپریشن کیا جائے یہ وہ آپریشن تھا کہ حکومت نے پہلے وزیرستان سے 25 لاکھ لوگوں کا انخلاءکیا تھا اور پوری طاقت استعمال کی تھی اس کے باوجود آج بھی وزیرستان اور ملحقہ علاقوں میں امن نہیں آ سکا۔انوارالحق کاکڑ کی باتوں سے لگتا ہے کہ وہ اپنے دور حکومت میں اس کا مشورہ بھی دے چکے ہوں گے اگر بلوچستان کے حالات نارمل ہوتے تو کاکڑ صاحب کبھی وزیراعظم نہ بن سکتے لیکن وہ موجودہ جنگ کے سب سے بڑے وار بینیفشری بن گئے وہ اور ان کے ساتھی کبھی نہیں چاہتے کہ بلوچستان میں نارمل حالات بحال ہوں ورنہ ان کی پانچوں انگلیاں گھی اور سر کڑاہی میں کیسے ہوگا۔وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچنے کے بعد وہ زیادہ تر اسلام آباد میں مقیم ہیں اور لگتا یہی ہے کہ وہ وہاں کی مستقل سکونت اختیار کریں گے تاوقتیکہ انہیں دوبارہ کوئی منصب جلیلہ عطا نہ ہو ویسے تو ایسے محسوس ہوتا تھا کہ موجودہ حکومت زیادہ دیر نہیں چلے گی اور نگراں حکومت کی باری جلد آ جائے گی لیکن مولانا نے اچانک پلٹا کھا کر موجودہ حکومت کی غیر متوقع حمایت کردی ہے لہٰذا اسے واحد چیلنج عمران خان کی طرف سے ہے لیکن ان کی جماعت یہ اہلیت نہیں رکھتی کہ وہ عوامی تحریک چلا کر حکومت کو چلتا کر دے۔مولانا صاحب نے گزشتہ ماہ آصف علی زرداری سے ملاقات کی تھی اور حال ہی میں وزیراعظم شہبازشریف نے ان کے گھر پر حاضری دے کر نیازمندی حاصل کی تھی ویسے بھی مولانا نے جتنی نشستیں الیکشن میں جیتی تھیں اس سے دگنی نشستیں انہیں تحریک انصاف کے مال غنیمت میں سے بطور حصہ دے دی گئی ہیں۔لہٰذا انہیں تبدیل شدہ صورتحال میں زیادہ فکر لاحق نہیں ہے اگر یہی حالات رہے تو جناب انوارالحق کاکڑ کی ایک بار پھر لاٹری نکلنے کا امکان کم ہے تاہم انہوں نے بہت بڑے آپریشن کی بات کر کے حکمرانوں کو سمجھا دیا ہے کہ بلوچستان کی بڑی آبادی کو نکال باہر کرنے کا طریقہ کیا ہے اگر آبادی کا انخلاءہوگا تو حالات ازخود حکومت کے حق میں چلے جائیں گے اور اس کے لئے آسانیاں پیدا ہو جائیں گی چونکہ کاکڑ ایک مرتبہ قومی اسمبلی کا الیکشن ہارچکے ہیں اس لئے آبادی کے توازن میں فرق آ جانے کے بعد وہ کسی بھی علاقہ سے منتخب ہوسکتے ہیں حتیٰ کہ اگر حکمران چاہیں تو انہیں گوادر اور لسبیلہ کی نمائندگی بھی دی جا سکتی ہے۔ایک اور حکومتی عہدیدار صوبائی ترجمان شاہد محمد رند نے بھی اختر مینگل کے استعفیٰ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اختر مینگل اس سے پہلے بھی اسی طرح کے جذباتی فیصلے کر چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اختر مینگل کے حالیہ فیصلہ کا مقصد مقبولیت حاصل کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ فی الحال یہ اعلان ہے فیصلہ نہیں ہے۔
میں سطح آب پر آؤں تو کس طرح آؤں
انا کا بوجھ بڑے پانیوں میں لے آیا
اگر اختر مینگل اپنے فیصلے پر قائم رہے تو ان کے سیاسی قد کاٹھ میں مزید اضافہ ہو گا۔اگر انہوں نے یوٹرن لیا تو بلوچستان کے عوام اس یوٹرن کو پسند نہیں کریں گے اگر وہ دوبارہ پارلیمانی سیاست میں سرگرم ہونگے ان میں اور باقی رہنماؤں میں کیا فرق رہ جائے گا۔انہوں نے استعفے کی جو وجوہات بیان کی ہیں ان میں ظلم اور ناانصافی سرفہرست ہیں اگر انہوں نے استعفیٰ واپس لیا تو مستقبل قریب میں وہ عوامل مزید سخت ہونے کا امکان ہے اس صورت میں ان کے لئے کونسا آبرمندانہ راستہ بچے گا ہاں یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ وہ خود پارلیمانی سیاست سے دست کش ہو جائیں اور پارٹی انتخابات میں حصہ لیتی رہے۔ابھی تو اس جماعت کی نشستیں دو کر دی گئی ہیں ممکن ہے کہ آئندہ انتخابات میں اسے آؤٹ ہی کر دیا جائے کہاں جب ان کے پاس اتنی نشستیں تھیں کہ وہ وزیراعلیٰ بن گئے اور کہاں انہیں دو نشستوں تک محدود کر دیا گیا۔ہاں ڈاکٹر مالک کے لئے مستقبل میں راہ ہموار ہو سکتی ہے کیونکہ ہر ہزیمت کے بعد ڈاکٹر صاحب بے انتہا صبر و تحمل سے کام لیتے ہیں اور وعدہ فردا تک صبر کرلیتے ہیں لیکن اختر اور مالک کے لئے موقع یہی ہے کہ وہ انتخابی لیڈر کے بجائے ”رہبر“ کا رول ادا کریں ورنہ وقت ان کے ہاتھوں سے نکل جائے گا کیونکہ ایک بڑا جنریشن گیپ آ چکا ہے بلوچستان کے نوجوان الگ راستوں پر چل پڑے ہیں۔پارلیمانی سیاست کی ناکامی حکمرانوں کی مداخلت اور وعدہ خلافیوں نے انہیں پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچا دیا ہے۔سیاست دانوں کے لئے تو آگے پیچھے ہونے اور موقف تبدیل کرنے کے ہزار بہانے موجود ہوتے ہیں لیکن ایسے نوجوان جن کا کوئی سیاسی اور وقتی مقصد نہ ہو وہ قربانی کے جذبے سے سرشار ہوتے ہیں اور انہیں مخالف سمت میں جانے پر راضی کرنا انتہائی مشکل ہے۔اصل بات یہ ہے کہ پاکستانی حکمرانوں نے اپنے تئیں حتمی فیصلہ کر لیا ہے اور دونوں فریق صلح کے موڈ میں نہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جو سرکاری ماؤتھ پیس ہیں وہ مسلسل یہی کہہ رہے ہیں کہ مذاکرات کس سے کئے جائیں ۔بی ایل اے والے تو پاکستان کو توڑ کر آزاد بلوچستان بنانا چاہتے ہیں یہی بات ریاستی ایم این اے نوابزادہ جمال رئیسانی نے قومی اسمبلی میں دھواں دھار تقریر کرتے ہوئے کہی جبکہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی تواتر کے ساتھ یہی بات دہرا رہے ہیں۔باقی جو وزراءیا اراکین پارلیمنٹ ہیں وہ ریاستی ترجمان نہیں ہیں ریاست کی ترجمانی یہی لوگ کر رہے ہیں جمال رئیسانی نے تو یہاں تک کہا کہ بلوچستان کیک کا ٹکڑا نہیں ہے کہ اسے جدا کیا جائے ہم لوگ بی ایل اے کے سامنے کھڑے ہیں یعنی ہم اس کا مقابلہ کریں گے۔
ایک سوال یہ ہے کہ اگر ایک طرف انوارالحق کاکڑ جمال رئیسانی کھڑے ہوں تو دوسری جانب اختر اورمالک کا کیا کرسکتے ہیں کیونکہ ان کے لئے کوئی راستہ چھوڑا ہی نہیں گیا ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے یہ رائے دی ہے کہ اختر کے استعفے سے جمہوری عمل کو نقصان پہنچے گا بلوچستان میں جمہوری عمل کی تشریح کرتے ہوئے اہم پنجابی لیڈر اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ حکمران کیوں ایک لسٹ بناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس فہرست میں درج لوگوں کو کامیاب کروایا جائے۔معلوم نہیں کہ ڈاکٹر صاحب کی مراد کس جمہوریت سے ہے اگر مزید تشریح درکار ہو تو ملک شاہ اور ان کے ساتھیوں سے رجوع کیا جائے وہ رائج جمہوریت کی صحیح تشریح کر سکتے ہیں آزمائش شرط ہے اگر ڈاکٹر صاحب مصر ہیں کہ وہ ضرور خون کے دھبوں پر چل کر پارلیمنٹ کو توانائی بخشیں گے تو ٹھیک ہے یہ ان کا اپنا فیصلہ ہے لیکن اصل فیصلہ تاریخ کرے گی۔