بلوچستان کٹھ پتلیوں کے ہا تھ میں ، کل تک رکشہ چلانے والے آج صوبے کے فیصلے کررہے ہیں،سردار یار محمد رند

کوئٹہ(یو این اے )سینئر سیاستدان و سابق وزیر سردار یار محمد رند نے کہا ہے کہ بلوچستان کے حالات مایوس کن، مقتدرہ ہوش کے ناخن لیں، 4 نومبر کو سنی شوران میں اقوام رند کو اکھٹا کریں گے اور مستقبل کا فیصلہ کریں گے، بلوچستان کو ٹھیکیداروں کے ذریعے چلایا جا رہا ہے انتخابات میں تو بک گئے اب وزارتیں بھی بیچی جا رہی ہے، وزیر اعلی بلوچستان صوبے کا سربراہ ہے جو کچھ ہوتا ہے آپ بحیثیت صوبائی سربراہ اس کے ذمہ دار ہوں گے، بلوچستان کٹھ پتلیوں کے ہاتھ میں ہے کل تک رکشے چلا رہے تھے آج بلوچستان کے فیصلے کررہے ہیں۔ بلوچستان کے نوجوان و لوگ مایوس ہو چکے ہیں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے کوئٹہ میں اپنی رہائش گاہ پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سردار یار محمد رند نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ جمہوریت، ڈیموکریسی، بھائی چارگی کی بات کی لیکن اب میرے جیسے لوگ بھی مایوس ہو گئے ہیں۔ ریاست کی پالیسیوں سے مایوس ہوکر لوگ پارلیمانی سیاست سے کنارہ کش ہو رہے ہیں، موجودہ حکومت اور لوگوں نے فیصلہ کیا ہے کہ نہ تو جمہوریت کو چلنے دیا جائے گا نہ ایسے لوگوں کو جو جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ سردار اختر جان مینگل کا استعفی پہلی نشانی ہے اگر یہی صورتحال رہی و اسی طرح فیصلے رہے تو بلوچستان میں کوئی بھی سیاسی شخص اس کا حصہ نہ بنیں، انہوں نے کہا کہ میڈیا کو گواہ بنا رہا ہوں کیونکہ صحافی، ادیب و دانشور وہی طبقہ ہے جو معاشرے کیلئے مثبت رویہ رکھیں، بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے میں مایوس ہوں، یہ لمحہ فکریہ ہے، انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی مائیں و بہنوں کو اسلام آباد جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ان کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا گیا تربت و گودر میں جو ہوا وہ اس کا ری ایکشن ہیں۔ بلوچستان میں اس کو نمائندہ بنا دیا جاتا ہے یا پارلیمان بھیجا جاتا ہے جو بلوچ کو گالی دیں۔ سردی میں ہمارے بہنوں پر پانی پھینکا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت، عدم تشدد اور ریاست و ملک کی بات کرنے والوں کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے زندگی اور موت اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے جس کی جب موت لکھی ہے وہ مقررہ وقت پر فوت ہوگا اب بھی وقت ہے کہ بلوچستان میں خون ریزی روکا جائے۔ کچھ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ بلوچستان کو ٹھیکیداروں کے ذریعے چلایا جائے۔ موسی خیل میں جو صورتحال ہے یہی صورتحال بولان میں ہے۔ پہلے گورے سرکار تھی اب کالی سرکار مسلط ہے۔ جو ہزاروں سال سے اپنی سرزمین پر آباد ہے وہاں باہر سے لوگوں کو لایا گیا ہے۔ آج بھی ہم جمہوری طریقے سے بات کررہے ہیں اپنے لوگوں کیلئے پرامن طریقہ سے جدوجہد کرتے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں لاوارث نہیں میرے پیچھے میری قوم و میرے بچے ہیں انہوں نے کہا کہ سب کو پتہ ہے کہ کس طرح لوگوں کو کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ دو ماہ سے ایک چھوٹے اخبار کے اشتہارات بند کئے گئے ہیں۔ کیا لوگوں کو ڈرا کر حکومت کی جا سکتی ہے۔ کچھ لوگ نگران کابینہ میں شامل تھے یہ موسمی پرندے تھے خدا را اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرے اس ملک کو بچایا جائے۔ 4 نومبر کو شوران میں اقوام رند کو جمع کیا جائے گا اور فیصلہ کریں گے میرے آبا و اجداد نے اس سرزمین کیلئے 17 پشتو سے قربانیاں دیتے آرہے ہیں۔ رند قبیلے کو کہتا ہوں کہ اٹھو جو تمہارے باپ دادا کا کردار تھا اس کا حصہ بنے۔ انہوں نے کہا کہ اب گھروں میں بیٹھنے کا وقت نہیں ہے۔ 4 نومبر کو اپنے قوم کے ساتھ بیٹھ کر فیصلہ کرنا ہے کہ رند قوم کو کیا لائحہ عمل اپنانا ہے۔ بولان کے لوگوں کے ساتھ نا انصافی ہو رہی ہے۔ وزیر اعلی بلوچستان صوبے کا سربراہ ہے جو کچھ ہوتا ہے آپ بحیثیت صوبائی سربراہ اس کے ذمہ دار ہوں گے۔ آپ ایک اچھے خاندان کے فرزند ہے وہ کام کرے کہ آپ پر اپنے باپ دادا کو فخر ہوں۔ الیکشن سے پہلے ایک بڑی شخصیت نے کہا کہ سردار رند کو الیکشن سے دور رکھنا ہے۔ بلوچستان میں وزارتیں بک رہے ہیں الیکشن میں بکنے کے بعد دو بارہ ان کے ٹینڈرز ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پانی سر سے گزر چکا ہے فوج کے اندر ایسے محب وطن جنرلز ہیں ان کو بیٹھا کر بلوچستان سے متعلق میٹنگ کرلیں وہ حالات بتا دیں گے کیونکہ انہوں نے بلوچستان میں فرائض سر انجام دی ہیں۔ ہمارا مستقبل بلوچستان کی دھرتی کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بہت سارے سیاستدان ہیں جو پارلیمان پر یقین رکھتے ہیں لیکن وہ کنارہ کش ہو جائیں گے۔ بلوچستان کٹھ پتلیوں کے ہاتھ میں ہے کل تک رکشے چلا رہے تھے آج بلوچستان کے فیصلے کررہے ہیں۔ بلوچستان کے نوجوان و لوگ مایوس ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا جلسہ اس بات کا گواہ ہے کیا وہ لوگ جو اس کے جلسے میں آئے تھے وہ ماہ رنگ کو جانتے ہیں۔ ہمیں ڈرانے سے پہلے بلوچستان کی تاریخ کو پڑھ لیں ہاں البتہ بلوچستان کی تاریخ میں کچھ غدار تھے۔ سب سے زیادہ ہمارا حق اسلام آباد میں کھایا جاتا ہے۔ بلوچستان ڈوب گیا لیکن وہ خیرات کے پیسے بھی کھا گئے۔ پی ڈی ایم اے کا کیا کردار ہے۔ انہوں نے کہا کہ کروڑوں روپے لیکر جس طرح الیکشن میں ہمیں ہرایا گیا وہ سب کے سامنے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 4 نومبر کو مستقبل کے لائحہ عمل سے متعلق مشاورت کی جائے گی۔ جن خدشات کا اظہار کیا تھا وہ درست ثابت ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ججز کو چاہیے کہ وہ عدلیہ کے وقار کو بحال کریں ایسے لوگوں سے انتخابات کروائے جائیں جو 25 کروڑ پاکستانیوں و سیاسی جماعتوں کو قابل قبول ہوں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں