جب تک متحد ہوکر نکلیں گے نہیں ہمارے مسائل حل نہیں ہوں گے، قبائلی سربراہان مشاورتی جرگہ
کوئٹہ(یو این اے )بلوچستان کی سیاسی، قبائلی و مذہبی رہنماوں نے کہا ہے کہ بلوچستان سن 48 سے جل رہا ہے کوئی گھر ایسا نہیں جہاں ماتم نہ ہوں بدقسمتی سے بلوچستان کو صوبہ نہیں بلکہ کالونی سمجھا جا رہا ہے یہاں کوئی محفوظ نہیں، بچے، جوان، بوڑھے حتی کہ مزدور بھی محفوظ نہیں ہیں بدقسمتی سے آئین و قانون پاکستان غریب کیلئے مختلف اور طاقت ور و امیر کیلئے مختلف ہیں،پہلے بلوچ یا پشتون کو غدار قرار دیا جاتا تھا اب جو حق کی بات کرتا ہے وہ غدار ہے اور غداروں کی لسٹ میں اضافہ ہوا ہے، بلوچستان کی موجودہ حکومت کو ڈپٹی کمشنر کے تبادلے کا اختیار نہیں، بلوچستان کو اللہ دتہ کے ڈنڈے سے چلایا جا رہا ہے آئین پاکستان کے تحت فوج، ایف سی، عدلیہ، پارلیمان اپنا اپنا کام کرے۔ جب تک ہم متحد ہوکر نکلیں گے نہیں ہمارے مسائل حل نہیں ہوں گے۔قوموں یا مذہب کے نام پر تفریق کی بجائے یکجہتی کا مظاہرہ کرکے انجام کی تبدیلی کیلئے کردار کو تبدیل کرنا ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر و رکن صوبائی اسمبلی مولانا ہدایت الرحمان بلوچ، مولانا محمد خان شیرانی، سابق گورنر بلوچستان سید ظہور آغا، احمد خان غبیزئی، ملک نصیر احمد شاہوانی، میر کبیر احمد محمد شہی، نوابزادہ محبوب خان جوگیزئی، یوسف خان کاکڑ، عبد المتین اخندزادہ، ہزارہ قبیلے کے رضا وکیل، زاہد اختر بلوچ، ڈاکٹر عطا الرحمن، مولانا عبد الکبیر شاکر، مغوی مصویر کاکڑ کے چچا ملنگ خان کاکڑ، سردار رشید خان ناصر، حاجی نصر اللہ خان کاکڑ، نور علی کاکڑ، میر طاہر لہڑی، عزیز اللہ بازئی، عبد الحسیب شمشوزئی، نثار احمد کھوسہ، سردار عباس درانی، بشیر احمد آغا، سید علائو الدین آغا، سردار عباس درانی، رضا الرحمان، سردار آصف جمالدینی و دیگر نے جماعت اسلامی بلوچستان کے زیر اہتمام بلوچستان کی موجودہ مخدوش صورتحال و سلگتے مسائل اور ان کے حل سے متعلق قبائلی سربراہان مشاورتی جرگے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر مولانا ہدایت الرحمان بلوچ نے تمام قبائلی مشیران، سیاسی و مذہبی رہنماں کی مشاورتی اجلاس میں شرکت پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان سن 48 سے جل رہا ہے کوئی گھر ایسا نہیں جہاں ماتم نہ ہوں بدقسمتی سے بلوچستان کو صوبہ نہیں بلکہ کالونی سمجھا جا رہا ہے یہاں کوئی محفوظ نہیں، بچے، جوان، بوڑھے حتی کہ مزدور بھی محفوظ نہیں ہیں، مصویر کاکڑ اب تک لاپتہ ہے اب تو بچوں کو سکول بھیجنے میں بھی کترا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے چوکوں، چوراہوں پر ہمارے مائوں بہنوں کی تذلیل کی جا رہی ہے میرا سوال ہے کہ کیا ہماری مائوں بہنوں کی تذلیل کئے بغیر پاکستان ترقی نہیں کر سکتا، بلوچستان کی موجودہ حکومت کو ڈپٹی کمشنر کے تبادلے کا اختیار نہیں، بلوچستان کو اللہ دتہ کے ڈنڈے سے چلایا جا رہا ہے، انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں جہاں پانی، معدنیات یا کوئی تفریح کا مقام ہے وہاں پر ایف سی لازمی موجود ہوتی ہے ان کی موجودگی قبضے کی مانند ہے، ظریف بلوچ کو سیکورٹی فورسز نے اٹھا کر قتل کردیا اب لواحقین لاش کے ساتھ احتجاج کررہے ہیں۔ 16 نومبر کو آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا آج بلوچستان کے قبائلی ، سیاسی و مذہبی رہنماں کی ایک بیٹھک کررہے ہیں جس کا مقصد ان مظالم، مسائل اور معدنیات کی لوٹ کھسوٹ کے خلاف مشترکہ قومی لائحہ عمل طے کرنا ہے، آئین پاکستان کے تحت فوج، ایف سی، عدلیہ، پارلیمان اپنا اپنا کام کرے۔ جب تک ہم متحد ہوکر نکلیں گے نہیں ہمارے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ مولانا محمد خان شیرانی نے کہا کہ ہمیں اپنے ماحول کے افراد کو دیکھنا چاہیے کہ یہ دوغلے تو نہیں ہے بدقسمتی سے امت مسلمہ کے اکثریت افراد دوغلے ہیں، ایک بہتر معاشرے و افراد کی تشکیل کیلئے ہمیں جھوٹ سے پرہیز ، سچ و حق گوئی، کسی کی ناراضگی کی پرواہ نہیں کرباہیے۔ جب تک کردار تبدیل نہیں ہوگا اس وقت تک انجام تبدیل نہیں ہوسکتا ہمیں انجام کی تبدیلی کیلئے کردار بدلنا پڑے گا، انہوں نے کہا کہ پاکستان کا نہ کوئی تاریخ ہے نہ کوئی جغرافیائیہ، یہ مملکت کے نام سے چھائونی ہے، اس چھائونی میں ملازمین دو قسم کے ہے جس میں ایک فوجی دوسرا سول وردی کے ملازمین ہے، پالیسی وردی والے بناتے ہیں اور اعلان سول وردی والے کرتے ہیں۔ مسلم دنیا والے اعلی تعلیم، امن و معاش کیلئے امریکہ و مغرب جاتے ہیں تو پھر امریکہ مردہ باد کیوں ؟ سچائی سے متعلق ایک رپورٹ شائع ہے جس میں پہلے نمبرز پر امریکہ و یورپ ہے جبکہ مسلمان ممالک کا نمبرز 100 کے بعد شروع ہوتا ہے۔ دنیا توحید کی جانب جا رہی ہے انسان ایک ہے دنیا گلوبل ولیج ہے یہ معقول وجہ ہے، ہمیں قوموں یا مذہب کے نام پر تفریق کی بجائے یکجہتی کا مظاہرہ کرکے انجام کی تبدیلی کیلئے کردار کو تبدیل کرنا ہوگا۔ ملک نصیر احمد شاہوانی نے کہا کہ بلوچستان کے مسائل آج کا نہیں عشروں پہلے کے ہیں صوبے کی تاریخ میں فوجی آپریشنز، سیاسی قیادت کی قید و بند کی صوبتیں اور لاشیں ہیں ہم نے پہلے بھی تجویز دی تھی کہ بلوچستان میں آگ کبھی بجھا نہیں بلکہ وقت اور حالات کے حساب سے کبھی اس کو تیز تو کبھی آگ کو ٹھنڈا کر دیتے ہیں لیکن یہ بجھتا نہیں ہے، سیاسی کارکن کی حیثیت سے ہم سب کو بیٹھ کر مشترکہ لائحہ عمل اپنانے کی ضرورت ہے، انہوں نے کہا کہ اس سردی میں بھی لوگ نہ صرف گیس و بجلی کے مسائل کیلئے سراپا احتجاج ہے بلکہ لوگ اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے سخت سردی میں احتجاج پر مجبور ہیں سیف سٹی پروجیکٹ کے باوجود امن و امان کی صورتحال کوئٹہ میں مخدوش ہے، انہوں نے کہا کہ پہلے بلوچ یا پشتون کو غدار قرار دیا جاتا تھا اب جو حق کی بات کرتا ہے وہ غدار ہے اور غداروں کی لسٹ میں اضافہ ہوا ہے، یہاں کی سیاسی قیادت صوبے کے ساحل و سائل پر حق حاکمیت کی بات کرتے تھے لیکن اب نظام کا یہ عالم ہے کہ نوجوان مسائل سے مایوس ہو چکے ہیں سرعام نشستوں کو فروخت کئے گئے اور عدالتوں سے انہی فارم 47 والوں کو پاک و صاف قرار دیا گیا۔ بلوچستان کا نوجوان باغی ہوچکا ہے لیکن ہم ان مسائل کا ادراک نہیں کررہے، انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی ایک نعرے پر ہزاروں جوان نکلتے ہیں جن کی جدوجہد وسائل پر حق حاکمیت، لاپتہ افراد وغیرہ ہیں نوجوانوں کا سوچ تبدیل ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں زرعی ٹیکس کا نفاذ کیا جا رہا ہے صوبے کے 4 زونز بنائے ہیں جن میں باغات، سبزی، خشکابہ اور بنجر زمین پر ٹیکس لگا دیا گیا ہے اگر یہ ٹیکس نافذ ہوا تو بلوچستان کے لوگ صرف ٹیکس دیتے پھیریں گے۔ یوسف خان کاکڑ نے کہا کہ بلوچستان میں ایک انچ اراضی بلا پیمودہ نہیں ہے یہ تمام اراضی قبائل کی ہے اور بلوچستان ہائی کورٹ کا اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے۔ بدقسمتی سے بلوچستان میں اراضی کی سیٹلمنٹ کیلئے بھی سیٹلمنٹ 10 فیصد مانگ رہا ہے جس میں پٹواری سے لیکر وزیر اعلی تک سب حصہ دار ہیں، بلوچستان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے ہم سب دیکھ رہے ہیں، یہ صوبہ اس ملک کی کالونی کے طور پر استعمال ہو رہی ہے عوام نے ہمیشہ سیاسی جماعتوں کا ساتھ دیا اقتدار تک پہنچایا لیکن کوئی بھی جماعت عوام کی تقدیر بدل نہ سکی میری تجویز ہے کہ ہم سب سے پہلے اپنا اصلاح کریں، ہمیں ہر حال میں سچ بولنا چاہیے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ موجودہ اغوا کاری کی وارداتوں میں اسٹیبلشمنٹ ملوث ہیں۔ بلوچستان سے ایف سی کی چیک پوسٹوں کو ختم کرکے انہیں بارڈر پر بھیجا جائے، بارڈر پر تجارت سینکڑوں سالوں سے چلا رہا تھا اب تجارت کو بند کیا گیا ہے۔اسٹیبلشمنٹ کو اگر پاکستان عزیز ہے آئین کے تحت اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر کام کرو، انہوں نے کہا کہ مسائل سے نکلنے کیلئے بلوچ پشتون ہزارہ کو ایک ہونا پڑے گا۔ سابق گورنر بلوچستان سید ظہور آغا نے کہا کہ عوام میں شعور آگئی ہے ہمیں ایک دوسرے پر صرف اور صرف تنقید نہیں بلکہ ہمیں خود احتسابی کرنا چاہیے 26 واں آئینی ترمیم کا کوئی بھی سیاسی جماعت حق میں نہیں نہ ہی ہوئی سیاسی ورکر ہے۔ عدلیہ، مقننہ اور عوامی حقوق کو مفلوج کردیا گیا۔ احمد خان غبیزئی نے کہا کہ بلوچستان قبائلی صوبہ ہمیں ایک دوسرے کو سمجھنے کی ضرورت ہے سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر تنقید برائے اصلاح برداشت کریں، اسٹیبلشمنٹ ہوش کے ناخن لیں عوام اپنے مسائل کی داد رسی کا مطالبہ کررہی ہے انہوں نے شکوہ کیا کہ پنجاب 77 سالوں میں بڑے بھائی کا حق ادا نہیں کیا کہتا تو ہے کہ بڑا بھائی ہے ہمارا اقتصاد نہیں ہے ہم ایگرو مارکیٹ سے کنزیومر مارکیٹ میں تبدیل ہو گئے ہمارے ڈویلپمنٹ کا صرف 10 بجٹ خرچ ہوتا ہے باقی 90 فیصد لوٹ کا شکار ہوتا ہے۔ ہر بچے کو علم و شعور دینا چاہیے بلکہ تعلیم کا تحفظ سب سے ضروری ہے اسلام آباد کو بلوچستان کی زیر زمین معدنیات کا چپہ چپہ معلوم ہے لیکن زمین کے اوپر اسلام آباد بلوچستان کے مسائل سے بے خبر ہیں۔ کبیر احمد محمد شہی نے کہا کہ بلوچستان پہلے دن سے تکلیف کا شکار ہے اس وقت جو حالات ہیں گزشتہ 77 سالوں میں یہ حالات نہیں دیکھے سکول جاتا ہوا بچہ وین سے اتار کر اغوا کیا جاتا ہے سینکڑوں بچے اغوا ہوئے ہیں قبائلی و سیاسی معاملات اکھٹے ہوئے ہیں دنیا میں ریاست اپنے لوگوں کیلئے قانون بناتا ہے لیکن یہاں ریاست عوام کو لڑانے کیلئے قوانین بنا رہی ہے لڑائو اور حکومت کرو کی پالیسی چل رہی ہے اس جرگے کے توسط سے اپیل ہے کہ خون ریزی کا سلسلہ بند کیا جائے۔ بلوچستان کے مسئلے گمبھیر ہو چکے ہیں، پارلیمان میں اس وقت عوام کے نمائندے نہیں ہے، 15 ہزار ووٹ والا ہار جاتا ہے 3 سو والا جیت جاتا ہے انہوں نے کہا کہ اسلام آباد کی وجہ سے 18 ویں ترمیم پر عمل نہیں ہو رہا بدقسمتی سے آئین و قانون پاکستان غریب کیلئے مختلف اور طاقت ور و امیر کیلئے مختلف ہیں۔ بارڈر تجارت سے 22 سے 25 لاکھ آبادی کا ذریعہ معاش وابستہ تھا اب یہ بے روزگار ہیں۔ بلوچستان کا مسئلہ صرف بلوچ، پشتون، ہزارہ یا سیٹلر کا نہیں بلکہ اجتماعی مسئلہ ہے ہمیں یہ حلف لینا ہوگا کہ اگر کسی پشتون کے ساتھ زیادتی ہوں تو بلوچ کہے کہ میرے ساتھ ہے کسی بلوچ کے ساتھ نا انصافی ہوں تو پشتون کہے کہ یہ میرے ساتھ نا انصافی ہے۔ مغوی مصویر کاکڑ کے چچا ملنگ خان کاکڑ نے مشران سے درخواست کی کہ مصویر کاکڑ کی بازیابی کیلئے آواز اٹھائیں۔ نصر اللہ خان کاکڑ نے کہا کہ پاکستان میں بلوچ پشتون کے ساتھ شروع سے ناروا سلوک روا رکھا جا رہا ہے، خان عبدالصمد خان اچکزئی، سردار عطا اللہ مینگل، میر غوث بخش بزنجو سمیت بہت سے پشتون بلوچ قائدین کو جیلوں میں ڈالا گیا۔ مقررین نے کہا کہ جس طرح کا رویہ دیگر اقوام سے روا رکھا جا رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان ایک قوم نہیں بن سکتا پشتون بلوچ ہزارہ کو پہلے آپس میں بیٹھ کر ایک دوسرے کو قبول کرنے کی ضرورت ہے جس کے بعد ہی وہ اپنے حقوق حاصل کر سکتے ہیں، رویوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ زئی و خیلی کی تفریق کا خاتمہ کرکے ہمیں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے یہاں بلوچ اپنی سرزمین اور پشتون اپنی سر زمین پر آباد ہے، مقررین نے کہا کہ بلوچستان کے مختلف ڈویژنز میں پانی، گیس، بجلی، تعلیم، صحت و دیگر مسائل درپیش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اتحاد، خود احتسابی، تعصب اور کرپشن کا خاتمہ کرکے اپنی اصلاح کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مصویر کاکڑ کی ماں پر کیا گزر رہی ہے وزیر اعلی بلوچستان سے گزارش ہے کہ مصویر کی بازیابی کو یقینی بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کی خاموشی سے مسائل بڑھ رہے ہیں آج کے اس کوئی واقعہ ہوتا ہے کل کو کسی اور کے ساتھ یہ واقعہ ہوگا۔ ہمیں کسی کے ساتھ ہونے واقعہ پر خاموش نہیں رہنا چاہیے بلکہ ان پر آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔