ٹرمپ کا جوہری مذاکرات کیلئے خط درحقیقت دھمکی، تہران جلداسکا جواب دے گا، ایرانی وزیر خارجہ

مانیٹر نگ ڈیسک :ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے بھیجے گئے حالیہ خط میں جوہری مذاکرات کا مطالبہ کیا گیا ہے، وہ درحقیقت ایک دھمکی ہے اور تہران جلد ہی اس کا جواب دے گا۔غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق وزیر خارجہ عراقچی نے ایرانی سرکاری ٹیلی ویژن کو بتایا کہ اگرچہ خط میں مواقع فراہم کرنے کا ارادہ کیا گیا تھا، لیکن یہ حقیقت میں دھمکی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ایران اب اس کے متن کا مطالعہ کر رہا ہے اور آنے والے دنوں میں جواب دے گا۔ایران کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ وہ اس خط کا جواب دینے سے پہلے ایک مکمل جائزہ لیں گے، جسے متحدہ عرب امارات کے ایک سینئر سفارت کار نے 12 مارچ کو دیا تھا۔عباس عراقچی نے وضاحت دیے بغیر کہا کہ جواب مناسب چینلز کے ذریعے بھیجا جائے گا۔واضح رہے کہ 7 مارچ کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو خط لکھ کر جوہری ہتھیاروں کی تیاری روکنے یا ممکنہ فوجی کارروائی کا سامنا کرنے کا انتباہ دیا تھا۔ڈونلڈ ٹرمپ نے فاکس بزنس کو بتایا تھا کہ میں نے انہیں ایک خط لکھا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ مجھے امید ہے کہ آپ مذاکرات کرنے جا رہے ہیں کیونکہ اگر ہمیں فوجی راستہ اختیار کرنا پڑا تو یہ ان (ایران) کے لیے ایک خوفناک چیز ہو گی۔انہوں نے کہا تھا کہ میرے خیال میں انہیں یہ خط مل جائے گا، دوسرا متبادل یہ ہے کہ ہمیں کچھ کرنا ہوگا، کیونکہ ایک اور ایٹمی ہتھیار نہیں بننے دے سکتے۔8 مارچ کو ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جوہری پروگرام پر بات چیت کے لیے بھیجے گئے خط پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ مذاکرات کے لیے تہران کو دھمکایا نہیں جاسکتا۔ان کا کہنا تھا کہ بعض غنڈہ حکومتوں کا مذاکرات پر اصرار مسائل کو حل کرنے کے لیے نہیں، بلکہ وہ اپنے مطالبات مسلط کرنا چاہتا ہے۔آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا کہ ان کے لیے بات چیت نئی امیدوں کا ایک راستہ ہے، یہ صرف ایران کے جوہری مسئلے سے متعلق نہیں ہے، ایران یقینی طور پر اسے قبول نہیں کرے گا۔