صحافی لطیف بلوچ کے نام
تحریر نصیر عبداللہ
صحافی لطیف بلوچ ایک لیویز سپاہی بھی تھے، ہم ہمیشہ اسے چھڑایا کرتے تھے کہ آپ صحافت اور سچ و حق کی اس جنگ میں اپنی نوکری قربان نہیں کرسکتے جو آپ کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ہے لیکن سچ بات تو یہ ہے کہ انہوں نے کبھی بھی نوکری کو اپنی صحافتی زمہ داریوں پر حاوی نہیں ہونے دیا، جس سے اکثر اوقات ان کی تنخواہ بند ہوتی تھی۔ ہم اکثر حب چوکی سے اُن سے ملتے تو ہمیشہ یہ بات اُن سے کہہ دیتے کہ ہمیں آپ کا چہرہ دیکھ کر اندازہ ہوجاتا ہے کہ آپ کی تنخواہ بند کردی گئی ہے۔ غربت چہرے سے صاف جھلک رہی ہوتی ہے۔ لیکن چہرے پر جھلکتے غربت پر حوصلے نے کاری ضرب لگائی ہوتی تھی جس سے حوصلے اور خوش مزاجی نے بازی مارلی ہوتی اور یوں سینے میں چھپائے تمام تر مشکلات کا بوجھ کا تاثر نہیں ملتا۔ اس لیے ان کے قریبی لوگوں کو ہی اِن دنوں ان کے حالات کا اندازہ تھا۔ وہ مجھ سے انگلش سیکھنا چاہتے تھے، اور جدید دور میں صحافتی میدان میں انگریزی زبان کو غربت کے خاتمے کا وجہ قرار دیتے، اس کی یہ بات کافی حد تک درست ہے چونکہ شورش زدہ بلوچستان آئے روز دہشت گردی کے واقعات کے باعث دنیا بھر میں زیر بحث ہوتا ہے اس لیے تمام تر فارن میڈیا ہاوسسز کو اسٹوریز درکار ہوتی ہیں۔ لطیف بلوچ مجھ سے اپنے بیٹوں کی طرح پیار کرتے تھے اور محبت بھری انداز میں حسد کرتے تھے اور یہی ان کی کامیابی کی وجہ ہے کہ وہ حسد کرکے ہمیشہ آگے نکل جانے کا سوچتے۔ کہتے آپ کا صحیح ہے آپ گوروں کے لیے لکھتے ہیں اور ڈالر میں پیسے کماتے ہیں ڈالر کی بھاری بھرکم وزن سے آپ کے چہرہ کا گلو صاف نمودار ہے۔ "فارن میڈیا آوٹ لیٹس میں کام کے بہت مواقع ملے ہیں انگریزی ہمیشہ سے رکاوٹ بنی رہی اور معاشی مجبوریوں کے سبب وقت نہیں مل سکا کہ سیکھنے کی کوشش کی جائے” ۔
زندگی کے اسی تگ و دو میں ایک دن صبح اٹھے تو ان کی ناگہانی موت کی خبر نے جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کس نے ؟ اور کیوں؟ ایک حساس انسان اور ہم سے ہمارا ایک دوست چھین لیا؟ افسوس ہے کہ ملکی و غیر ملکی صحافتی تنظیموں کے واقع پر تحقیقی مطالبات کے باوجود یہ سوال جوں کا توں ہی ہے کہ کس نے؟ اور کیوں اس کے نازک جسم کو گولیوں سے بھون دیا؟
وہ ایک بہادر انسان تھے اس لیے بے باک صحافی بن گئے، اور تلخ باتیں کرتے تھے حقیقت بتاتے تھے جو تلخ ہوتی تھیں یہی تلخی اس کے بے باکی پر حاوی ہوگیا اور اس کے موت کا سبب بن گیا۔
لطیف بلوچ کے قتل سے بلوچ قوم کا بالخصوص آواران میں ایک خلا خالی ہوگیا جو بڑی مشکل سے مدتوں بعد شاہد ہی پُر ہوسکے۔


