ستائیسویں آئینی ترمیم کے تحت وفاقی آئینی عدالتوں کا قیام، سپریم کورٹ سمیت تمام عدالتیں فیصلوں کی پابند ہوں گی
اسلام آباد (ویب ڈیسک) مجوزہ آئینی ترمیم کے مطابق ملک میں وفاقی آئینی عدالت قائم کی جائےگی۔وفاقی آئینی عدالت میں ہر صوبے سے برابر ججز ہوں گے۔ چیف جسٹس آئینی کورٹ اور ججز کا تقرر صدر کرےگا۔ وفاقی آئینی عدالت کے پاس اپنےکسی فیصلے پر نظرثانی کا اختیار ہوگا۔صدر قانون سے متعلق کوئی معاملہ رائے کے لیے وفاقی آئینی عدالت کو بھیجے گا۔ ہائی کورٹ کے ججز کے تبادلے کا اختیار جوڈیشل کمیشن کو دیا جائےگا۔ اگرکوئی جج ٹرانسفر ماننے سے انکار کرےگا تو وہ ریٹائر تصور کیا جائےگا۔ مجوزہ آئینی ترمیم میں از خود نوٹس سے متعلق 184 بھی حذف کر دی گئی۔ مجوزہ آئینی ترمیم کے مطابق قانون سے متعلق معاملہ سپریم کورٹ کو بھیجنے کی شق ختم کر دی گئی ہے از خود نوٹس سے متعلق 184 بھی حذف کر دی گئی ہے۔ وفاقی آئینی عدالت کا جج 68 سال کی عمر تک عہدے پر رہےگا۔ آئینی عدالت کا چیف جسٹس اپنی تین سالہ مدت مکمل ہونے پر ریٹائر ہو جائےگا۔ صدر آئینی عدالت کے کسی جج کو قائم مقام چیف جسٹس مقرر کرےگا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے سوائے آئینی عدالت کے فیصلوں کی تمام عدالتیں پابند ہوں گی۔ مجوزہ آئینی ترمیم کے مطابق آئینی کورٹ یا سپریم کورٹ کے پاس ہائی کورٹ سے کوئی اپیل یا کیس اپنے پاس یا کسی اور ہائی کورٹ ٹرانسفر کرنےکا اختیار ہوگا۔ وفاقی آئینی کورٹ کے فیصلے کی سپریم کورٹ سمیت پاکستان کی تمام عدالتیں پابند ہوں گی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے سوائے آئینی عدالت کے تمام عدالتیں پابند ہوں گی۔ ہائی کورٹ کا کوئی جج وفاقی آئینی عدالت یا سپریم کورٹ میں تقرری کو قبول نہیں کرے گا تو ریٹائر تصور ہوگا۔ سپریم کورٹ کا کوئی جج وفاقی آئینی عدالت کا جج بننے سے انکار کرے گا تو ریٹائر تصور ہوگا۔ صدر سپریم کورٹ کے ججز میں سے وزیراعظم کی ایڈوائس پر وفاقی آئینی کورٹ کا پہلا چیف جسٹس تقرر کرے گا۔ وفاقی آئینی عدالت کے پہلے ججز کا تقرر صدر وزیر اعظم کی ایڈوائس پر چیف جسٹس فیڈرل آئینی کورٹ سے مشاورت سے کرےگا۔ مجوزہ آئینی ترمیم کے مطابق صدر کے خلاف عمر بھر کے لیے کوئی فوجداری کارروائی نہیں ہوسکے گی۔ گورنر کے خلاف اس کی مدت کے لیے کوئی فوجداری کارروائی نہیں ہوگی۔ کوئی عدالت صدر اورگورنر کی گرفتاری یا جیل بھیجنے کے لیے کارروائی نہیں کرسکے گی۔


