اندھاانصاف
تحریر: انور ساجدی
ٹریفک سارجنٹ عطاء اللہ مرحوم کے ساتھ اس دنیا میں انصاف نہ ہوسکا اُس دنیا میں ضرور ہوگا کیونکہ پاکستان جیسے ممالک میں سپاہیوں کلرکوں،کوچوانوں،کسانوں اور دیگرافتادگان خاک کے ساتھ انصاف نہیں ہوسکتا کیونکہ یہاں کاجونظام ہے وہ زروالوں زور والوں بڑے بڑے لٹیروں اور ڈاکوؤں کو ہی انصاف فراہم کرسکتا ہے لہٰذا غریبوں کے ساتھ آخرت میں ہی انصاف ہوسکتا ہے لہٰذا عطاء اللہ کے بھوکے ننگے بچوں کوچاہئے کہ وہ صبروشکر کرلیں اور انصاف کیلئے ہاتھ اوپر اٹھائیں۔
جسٹس کھوسہ نے پانامہ کیس کے فیصلہ میں مشہور ناول گاڈفادر کے کرداروں سسلی مافیا کا ذکر کیا تھا اور اس ناول کے ایک ڈائیلاگ کورقم کیا تھا کہ
ہر برُے پیسے کے پیچھے
ایک جرم پوشیدہ ہوتا ہے
انہوں نے تو نوازشریف کو مجرم قرار دیدیا تھا لیکن باقی جج صاحبان نے معاملہ کی تحقیقات کیلئے ایک جے آئی ٹی قائم کرنے کا حکم صادر کیا تھا جے آئی رپورٹ کی روشنی میں احتساب عدالت نے نوازشریف سے لندن کی جائیدادوں کی خریداری کامنی ٹریل طلب کیا تھا یہ منی ٹریل فراہم کرنا واقعی ایک مشکل کام ہے۔اسی طرح کامنی ٹریل عمران خان سے بھی طلب کیا گیا تھا اور ان سے کہا گیا تھا کہ وہ بتائیں کہ انہوں نے لندن کا فلیٹ اور بنی گالا کی3سوکنال زمین کہاں سے خریدی تھی نوازشریف کے مقابلہ میں عمران خان نے نہایت قابلیت اور چابکدستی سے اپنا منی ٹریل فراہم کردیا تھا مثال کے طور پر انہوں نے لکھ کردیا تھا کہ انکی اہلیہ جمائما خان نے انہیں بنی گالا کی خریداری کیلئے قرض دیا تھا اور یہ قرض انہوں نے لندن کا فلیٹ بیچ کر واپس کیا تھا انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا تھا کہ انہوں نے پہلے برٹش آئل آف مین میں کمپنی رجسٹر کروائی تھی اور پھر اسی کے نام پر فلیٹ خریدا تھا تاکہ ٹیکس سے بچا جاسکے۔نوازشریف نے بھی پہلے آف شور کمپنی قائم کی تھی اور اسکے ذریعے فلیٹ خریدے تھے لیکن عدالت نے عمران خان کا جواز اور منی ٹریل کوقبول کرلیا تھا جبکہ نوازشریف کے جواز اور منی ٹریل کو مسترد کردیا تھا عدالت کے فیصلہ کے نیتجے میں عمران خان تخت پر جلوہ افروز ہوئے اور نوازشریف کو جیل جانا پڑا1990ء میں جب صدر غلام اسحاق خان نے محترمہ بینظیر کو برطرف کردیا تھا تو عدالت عظمیٰ نے اس فیصلہ کو جائز قراردیا تھا جبکہ اس عدالت نے نوازشریف کی برطرفی کو ناجائز قرار دیا تھا ایک ہی طرح کے مقدمات میں سپریم کورٹ کے فیصلہ پر محترمہ بینظیر نے کہا تھا کہ
لاڑکانہ کے وزیراعظم کیلئے فیصلہ اور ہے
اور لاہور کے وزیراعظم کیلئے مختلف ہے
جب بینظیر کا مختلف عدالتوں میں ٹرائل ہورہا تھا تو انہوں نے ”کینگرو“ کورٹس کی اصطلاح استعمال کی تھی آج بچہ بچہ اس اصطلاح سے واقف ہے اور سب جانتے ہیں کہ اس سے کیا مراد ہے ایک صادق اور امین چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے تو عمران خان کو صادق اور امین بھی قرار دیا تھا حالانکہ عمران خان کی زندگی پر نظر دوڑائی جائے تو یہ ایک دیومالائی کہانی معلوم ہوتی ہے انکی ماضی زینت امان سونو والیہ سیتاوائٹ اور بے شمار چمکتے کرداروں سے آراستہ ہے لیکن یہ انکی قسمت کہ اسکے باوجود وہ صادق اور امین ٹھہرے لوگوں کو یاد ہوگا کہ شہبازشریف جب وزیراعلیٰ تھے تو انہوں نے ایک جذباتی تقریر میں مائیک توڑتے ہوئے کہا تھا کہ وہ آصف علی زرداری کو مال روڈ پر گھسیٹیں گے اور ان کا پیٹ چاک کرکے لوٹا ہوا مال باہر نکالیں گے۔لیکن یہ مکافات عمل ہے کہ شہبازشریف کراچی میں زرداری کے حضور حاضر ہوئے دوزانو ہوکر پرنام کیا اور رخصت ہوتے ہوئے کان میں کہا کہ یار میں نے جو زیادتی کی ہے اس کی معافی دیدینا اگران میں جرأت ہوتی تو یہ معافی سرعام مانگتے کم از کم اپنے ساتھیوں کے سامنے مانگتے لیکن جرأت کم تھی اس لئے کان کے قریب جاکر معافی کے طلب گار ہوئے مکافات عمل نے ہی شہبازشریف کو زرداری سے بھی بڑا چور اور لٹیرا ثابت کیا ہے آج تک وہ عدالتوں کو منی ٹریل پیش نہ کرسکے۔منی لانڈرنگ 20ویں صدی کی اصطلاح ہے لیکن ”منی ٹریل“ کو رائج ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا اور اس لفظ نے نائن الیون کے بعد زور پکڑا ویسے تو پاکستانی اپوزیشن کے ہر رہنما نے اپنے طور پر منی ٹریل دینے کی کوشش کی لیکن آج تک عدالتوں نے انہیں قبول نہیں کیا جب عمران خان کی ہمشیرہ محترمہ علیمہ خان کا کیس سامنے آیا تو ایف بی آر نے منی ٹریل نہیں مانگا بلکہ جرمانہ عائد کردیا اور محترمہ یہ رقم ادا کرکے سرخ روہوئیں نہ نیب کامقدمہ نہ ایف آئی اے کی تحقیقات اور نہ ہی ایف بی آر کے نوٹس اگر ان پر بھی مقدمات ہوتے اور عدالتیں منی ٹریل طلب کرتیں تو یہ کم بخت منی ٹریل دینا بڑا مشکل ہوتا کیونکہ کاروبار کے بغیر جو پیسہ آئے اس کا کیا حساب دیاجاسکتاہے۔
پاکستان میں جتنے سیاسی غیر سیاسی شخصیات نے اربوں کھربوں کمائے ہیں ان کا اصل زربہت تھوڑا تھا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے وہ ملک کے دولت مند ترین شخص بن گئے مثال کے طور پر ملک ریاض کا اصل زرچند ہزار روپے تھا لیکن30سال کے عرصہ میں وہ کھربوں کے مالک بن گئے میاں نوازشریف کا اصل زر تو ایک سائیکل کی قیمت کے برابر تھا لیکن انکے والد نے بہت بڑی کاروباری سلطنت کھڑی کردی وزیراعلیٰ بننے سے پہلے شہبازشریف کو والد سے گزارہ الاؤنس ملتا تھا لیکن وہ بھی30سال کے عرصہ میں کھرب پتی بن گئے ان کا اصل زر تو تھا ہی نہیں اسی طرح عمران خان کا اصل زر موجود ہی نہیں ہے انہوں نے سرمایہ کے بغیر کاروبار نہیں کام شروع کیا آج وہ بنی گالا میں 3سو کنال کے محل میں رہتے ہیں جو رائے ونڈ کے بعد پاکستان کا دوسرا بڑا مکان ہے اسکے منیٹی نینس پر کروڑوں روپے خرچ آتا ہوگا لیکن کاروبار کے بغیر وہ اس محل کو کوکامیابی کے ساتھ سنوار کے رکھے ہوئے ہیں اسی طرح زمان ٹاؤن لاہور میں ان کا محل ہے اسکے اخراجات بھی لاکھوں میں ہونگے لیکن آمدنی کے ذرائع نہیں ہیں اور نہ ہی کسی ادارے نے منی ٹریل پوچھنے کی جسارت کی ہے ان کا فارن فنڈنگ کیس بھی الیکشن کمیشن میں زیرالتوا ہے جب اس کا فیصلہ آئے گا یا آگے جاکر عدالتوں میں فیصلہ آئیگا تب شائد ان سے پوچھا جائے کہ اربوں روپے کہاں کہاں خرچ ہوئے۔چونکہ یہ ڈیجیٹیل دور ہے اس لئے سوشل میڈیا کا منہ بند نہیں کیاجاسکتا بے شک پرنٹ او الیکٹرانک میڈیا خاموش ہوں لیکن سوشل میڈیا اتنا شور مچاتا ہے اور ایسے سوالات پوچھتا ہے کہ عدالتیں اور وکیل بھی نہیں پوچھ سکتے۔حال ہی میں جنرل عاصم سلیم کا معاملہ سامنے آیا ہے انہوں نے نہایت معصومیت کے ساتھ بتادیا ہے کہ ان کا اصل زر19ہزار ڈالر تھا جو18سال میں بڑھ کر 6ارب ڈالر تک جاپہنچاہے ویسے یہ کمال کی بات ہے کہ اتنے تھوڑے سے اصل زر کواتنی توسیع دی جائے معلوم نہیں کہ جنرل صاحب نے یہ بات مانی کیوں؟ کیونکہ ان سے پوچھنے والا تو کوئی نہیں تھا وزیراعظم ان سے مطمئن تھے کیس ایسا نہیں تھا کہ نیب دخل اندازی کرے یہ ایف آئی اے اور ایف بی آر کے دائرہ اختیار سے بھی باہر تھا پھر انہوں نے تردید اور وضاحت دینا کیوں ضروری سمجھا جب بھی کسی معاملے کی تردید اور وضاحت آجائے تو سوال پر سوال کھڑے ہوجاتے ہیں اورنتیجہ وہی ہوتا ہے جو پانامہ کیس کا ہوا۔