بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
تحریر: راحت ملک
جناب عمران خان نے وزیراعظم کی حیثیت میں گذشتہ روز الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے جس کے متعلق ذرائع ابلاغ‘ سیاسی جماعتوں اور ذرائع ابلاغ کے تجزیوں میں بین السطور یا کبھی کبھار کچھ واضع الفاظ میں اظہار خیال ہوتا آ رہا ہے مگر اس بات کو ہمیشہ پروپیگنڈہ قرار دے کر مسترد کر دیا جاتا تھا۔
تاریخ میں پہلی (بار یہ جملہ جناب عمران خان کا تکیہ کلام ہے ان کے سیاسی متبعین جس کی جگالی فرماتے رہتے ہیں) تاہم میں نے اسے مکمل تاریخی تناظر میں لکھا ہے نقالی کے طور پر نہیں ……
وزیراعظم نے حکومت اور فوج کے تعلقات کی موجودہ صورتحال اور ماضی میں اس بارے جو کچھ تھا اسے گویا سرکاری طور پر طشت ازبام کیا ہے وزیراعظم کا کہنا ہے
”فوج حکومتی پالیسیوں کے ساتھ کھڑی ہے ماضی میں ایسا نہیں ہوتا تھا ہم مل کر کام کر رہے ہیں جمہوری حکومت کی پالیسیاں خواہ بھارت کے حوالے سے ہوں یا افغانستان کے پر امن حل کے حوالے سے …… فوج ان پالیسیوں کے ساتھ ہے ہر جگہ پر فوج ہمارے ساتھ کھڑی ہے حکومت اور فوج مکمل تعاون کے ساتھ کام کررہے ہیں جبکہ ماضی کی حکومتوں میں فوج کے ساتھ تعلقات میں آسانیاں نہیں تھیں“۔
پاکستان کا ریاستی ڈھانچہ آئین پر استوار ہے پارلیمانی طرز جمہوریت سے وابستگی آئینی و ریاستی بیانیہ بھی اور سیاسی سطح پر بھی سماج اور مملکت اس آئینی بندوبست پر متفق ہیں کہ ملک میں پالیسی سازی کا استحقاق و اختیار پارلیمان کے پاس ہوگا جسے پارلیمنٹ سے اعتماد کی حامل حکومت تشکیل دے گی اور ریاست کے تمام محکمے (بشمول فوج) اس پالیسی اور فیصلوں پر مکمل عملدرآمد کے پابند ہونگے۔
ملکی تاریخ کے (قبل از سانحہ مشرقی پاکستان) باب سے صرف نظر کر لی جائے اور منتخب آئین ساز اسمبلی کے منظور کردہ پہلے جمہوری متفقہ آئین کے بعد کے حالات کو ملحوظ رکھیں اور لمحہ موجود تک اس بندوبست میں جاری ریشہ دوانیوں یا پارلیمانی بالادستی کو قبول نہ کرنے کے تناظر میں بات کریں تو افسوسناک حقیقت یہ سامنے آتی ہے کہ بدقسمتی سے اور بقول عمران خان ماضی میں "حکومت اور فوج کے درمیان معاملات ویسے نہیں رہے جیسے ان کے خیال میں آج ہیں ” یہ بہت نازک نقطہ ہے مگر چونکہ اب یہ حکومتی سطح سے شروع سامنے آیا ہے تو یقین رکھنا چاہئے کہ اس بیان پر مبنی بیانیے کے جائزے پر کسی کو اعتراض نہیں ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ آئین کے مطابق تو فوج کیلئے یہی عمل زیبا تھا اور ہے کہ وہ حکومت وقت کی مرتب کردہ پالیسیوں پر ہر حال میں عمل کرے اگر کسی نقطے پر اختلاف ہو تو اس کی نشاندہی کرے مگر کسی بھی صورت حکم نافذ کرنے والا انداز لب و لہجہ اور طرز عمل اپنانے سے گریز کرے البتہ ملکی تاریخ اسکے برعکس کی کہانی بیان کرتی ہے۔آئین کی موجودگی میں دو بار مارشل لاء کے نفاذ اور اس کے بعد پس پردہ ذرائع سے اختیارات پر دسترس رکھنا کسی طور پر بھی آئینی عمل نہیں ہو سکتا اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ جناب وزیراعظم نے جن پالیسیوں کے متعلق حکومت اور فوج کے درمیان اتحاد تعاون اور اتفاق رائے کی بات کی ہے کیا وہ تمام امور فیصلے اور پالیسیاں عمران حکومت کی تشکیل کی کردہ ہیں یا انہیں حکومت کے برعکس کسی محکمے نے مرتب کیا اور حکومت کو عمل کرنے کیلئے پیش کی ہیں؟ چنانچہ جناب عمران خان کے لیے یہ دعویٰ کرنا ممکن ہوا ہے کی ماضی کے برعکس اب فریقین میں مکمل اتفاق پایا جاتا ہے؟
اگر یہ پالیسیاں حکومت کی تشکیل کردہ ہیں تو کیاوہ انہیں پارلیمان میں توثیق کیلئے پیش کرنے کی متحمل ہو سکتی ہے؟ یقینا اس سوال کے جواب سے حقائق کی عقدہ کشائی ہوجائے گی
وزیراعظم کے لیے ماضی کی حکومتوں اور فوج کے درمیان کشیدگی کا ذکر کرنا ہی کافی نہیں حکومت کو اپنی بالادستی اور درست سمت ثابت کرنے کیلئے ماضی اور موجودہ دور کیپالیسیوں میں ان تمام نکات کی بھی وضاحت کرنی چاہئے تھی جن کے ذریعے حکومت اور فوج کے اختلاف رائے سامنے آ سکتا عامہ الناس جان سکیں کہ فوج اگر ماضی کی پالیسیوں پر عمل پیرائی کے عمل میں حکومت کیلئے بقول عمران آسانیاں مہیا کرنے میں مزاحم رہی تھی تو اس کے اسباب اور وجوہات کیا تھیں! ایک اجمالی جائزہ لیں تو یہ بات منکشف ہو جاتی ہے کہ
بھارت کے متعلق موجودہ پالیسی کی خامیاں واضح ہو ہیں بھارت نے 70 سال کے بعد اپنے زیر انتظام کشمیر کا وہ آئینی استحقاق جو کشمیری قیادت اور نئی دہلی کے مابین تعاون کی اساسی نوعیت کا مظہر تھا جسے بھارتی آئین کی دفعہ 370 میں سمویا گیا تھا کا یکطرفہ طور پر خاتمہ کر کے کشمیر کو بھارتی یونین میں ضم کر لیا ہے اور پاکستان کی "موجودہ پالیسیاں "اسے ایسا گھناؤنا اقدام کرنے سے روکنے میں ناکام رہتی ہیں تو کیا عوام تسلیم کر لیں کہ بھارت کے متعلق حالیہ پالیسی حکومت اور فوج کی مشترکہ حکمت عملی کا نتیجہ ہے؟ اس پالیسی کا دلچسپ پہلو بشمول مقبوضہ کشمیر کو پاکستان کے سرکاری نقشے کا حصہ بنانے کے فیصلے کے یہ ہے دونوں حکومتوں نے اپنے اپنے آئین میں اپنی اپنی ریاستی حدود میں توسیعی عمل بارے رودبدل بھی نہیں کیا آج بھی بھارت کی آئینی جغرافیائی حدود میں کشمیر بھارتی یونین کا حصہ نہیں اور یہی صورتحال پاکستان کے آئین کی ہے۔ جس میں کشمیر ہماری آئینی جغرافیائی حدود کا حصہ نہیں۔ بھارت کے اقدام کی توضیح آہستہ چلنے کے حوالے سے زیر غور آ سکتی ہے اسی بھارت کے ساتھ دو طرفہ پرامن ہمسائیگی پر مبنی تعلقات کے قیام کی حکمت عملی تو سابقہ دور کی واضح پالیسی تھی جو باہمی تنازعات کو پرامن ذرائع سے حل کرنے کی اولین ترجیحی کلید تھی اور نریندر مودی کی پاکستان آمد اس پالیسی کا مثبت نتیجہ تھا جسے وزیراعظم عمران خان نے "حکومت اور فوج کے درمیان ” وجہ نزاع بنا کر پیش کیا ہے تو یقینا اس بات پر اعتماد کرنا بہت سہل ہے۔ دوسری طرف بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی اور مذاکرات کے ذریعے تنازعات کا حل نکالنے کے متعلق عمران حکومت کے بیانات و اقدامات بہت واضع ہیں جو سابقہ پالیسی سے کسی طور مختلف بھی نہیں لیکن بد قسمتی سے ہمارے وزیراعظم کی خطے میں امن و استحکام کیلئے پیش قدمی کے حامل اقدام کا دہلی نے مثبت جواب نہیں دیا وزیراعظم کی فون کال مودی نے سننے سے گریز کر کے ہمارے ملک کی جو توہین کی تھی وہ عمران حکومت کی حکمت و پالیسی کی اگر آئینہ دار ہے تو کیونکر درست سمت میں تشکیل دی گئی کامیاب خارجہ پالیسی تسلیم کئے جائے؟ نیز اس ناکام پالیسی کی ذمہ داری کا بوجھ فوج پر عائد کیا جائے؟ کیا وزیراعظم کا حالیہ بیان اسی قابل قدر پالیسی کا ہی ترجمان ہے جس پر بقول وزیراعظم‘ حکومت اور فوج ایک ساتھ ہیں؟
مجھے یہ کہنے دیجیئے کہ ماضی کی منتخب حکومتوں کے ساتھ فوج کی کشیدگی کا جس طرح جناب وزیراعظم نے تذکرہ کیا ہے ان کے بیانیے کو آئین کے تناظر بالخصوص دفعہ چھ کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ وزیراعظم نے اپنی "روایتی بصیرت اور بلوغت فکری” کے ذریعے فوج کو انتہائی پریشان کن صورتحال سے دوچار کرنے کی کوشش کی ہے یا پھر انہوں نے حکومتی ناکامیوں کا ملبہ فوج پر ڈالنے کی سیاسی پشتہ بندی کی ہے تاکہ حکومت پر ہونے عالی تنقید کا رخ فوج کی جانب موڑ اپنی ساکھ اور راج کا دفاع کیا ہے؟ یہ نکات بحث طلب ہیں جن پر وسیع سطح و تناظر میں معقولیت پسندانہ جائزہ لیا جان ضروری ہے
گزشتہ جمہوری حکومتیں ہمیشہ اس داخلی دباو یا تناؤ کی پردہ پوشی کرتی رہی ہیں عمران حکومت چونکہ لاڈلی ہے اور لاڈلا بچہ والدین کیلئے بعض اوقات مشکلات بھی پیدا کرتا ہے سو وزیراعظم نے یہی کچھ کیا ہے جناب عمران خان کی دانش مندی کے مظاہر گزشتہ دو سال سے دیکھے جا رہے ہیں کبھی وہ جاپان و جرمنی کی سرحدیں ملا دیتے ہیں اور کبھی تاریخ سے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر غائب فرما دیتے ہیں اسی انٹرویو میں انہوں نے ایک اور درفنطنی یہ چھوڑی ہے کہ ان کے دور حکومت میں پاکستانی میڈیا انتہائی آزاد خودمختار ہے اس آزادی کی حدود و تفصیل اگلے کالم تک ملتوی۔