گلالئی اسماعیل کے والدین پر پرانے مقدمات میں نئی دفعات کے تحت فرد جرم عائد
پشتون تحفظ موومنٹ کی حامی سماجی کارکن گلالئی اسماعیل کے والد اور والدہ کے وکیل کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف ایک پرانے مقدمے میں شامل کی گئیں نئی دفعات کے تحت فرد جرم عائد کی گئی ہے۔
پاکستان کے شہر پشاور میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے بدھ کو گلالئی اسماعیل گلالئی اسماعیل کے والد اور والدہ پر دہشت گردی کی دفعات کے تحت فرد جرم عائد کی تھی۔
اس مقدمے میں 2013 اور 2015 میں تشدد کے واقعات میں معاونت کی دفعات درج کی گئی ہیں جن میں انسداد دہشت گردی کے قانون 11 این جو دہشت گردی کے لیے مالی معاونت کے بارے میں ہے جبکہ 120 بی اور 124 ہیں جو ریاست کے خلاف بغاوت کے متعلق دفعات لگائی گئی ہیں۔
وکلا کے مطابق ان پر پشاور میں 2013 میں چرچ پر حملے اور 2015 میں حیات آباد میں مسجد پر حملے میں حملہ آوروں کی معاونت کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
گلالئی اسماعیل اور ان کے والدین کی جانب سے شہاب خٹک ایڈوکیٹ اور فضل الہی ایڈوکیٹ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش ہوئے تھے۔
فضل الہی ایڈوکیٹ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری مدعیت میں جو چالان انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا اس میں ان دفعات کا اضافہ کیا گیا ہے۔
پروفیسر اسماعیل اور ان کی اہلیہ کے وکلا نے بتایا ہے کہ بنیادی طور پر یہ مقدمہ خارج کر دیا گیا تھا اور پھر اس میں انسداد دہشت گردی کے محکمہ سی ٹی ڈی کی جانب سے مزید تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔
پروفیسر اسماعیل اور ان کی اہلیہ کے وکیل شہاب خٹک ایڈووکیٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ گلالئی اسماعیل کے والدین نے فرد جرم سے انکار کیا ہے اور اب یہ مقدمہ آگے چلے گا۔
شہاب خٹک ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک پرانا مقدمہ ہے جسے عدالت نے ایک مرتبہ خارج کر دیا تھا اور انھیں بری کر دیا گیا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ اب ایک مرتبہ پھر سی ٹی ڈی نے مزید الزامات کے تحت چالان پیش کیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’یہاں حیران کن بات یہ ہے کہ جس عدالت نے یہ کیس خارج کیا تھا اب دوبارہ یہ کیس اور چالان اسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا بلکہ ایک دوسری عدالت میں پیش کیا گیا ہے۔
پشاور میں محکمہ انسداد دہشت گردی کے کے تھانے میں درج ایف آئی آر کے مطابق یہ مقدمہ جولائی سال 2018 میں درج کیا گیا تھا اور اس میں کہا گیا تھا کہ اس بارے میں وفاقی تحقیقاتی ادارے اسلام آباد کی جانب سے مراسلہ موصول ہوا تھا۔
اگرچہ ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی کے قانون کی دفعات درج ہیں لیکن وکلاء کے مطابق بعد میں اس میں دیگر دفعات بھی شامل کر دی گئی تھیں۔ بنیادی طور پر یہ مقدمہ ٹیرر فنانسگ یا دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے مالی معاونت کا تھا۔
اس ایف آئی آر میں الزام تھا کہ گلالئی اسماعیل کی غیر سرکاری تنظیمیں ’اویئر گرلز‘ اور ’سٹینڈ فار پیس‘ کی آڑ میں ملک دشمن عناصر اور دیگر تنظیوں کے لیے کام کرتی ہیں اور ان کے بینک اکاونٹس سے رقم بیرونی ممالک سے آتی ہے اور وہ فلاحی کاموں کی بجائے ملک دشمن عناصر اور دیگر تنظیوں کو فراہم کر دی جاتی ہیں۔
شہاب خٹک ایڈووکیٹ نے بتایا کہ ایف آئی اے کے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ وہ 2017 سے اس بارے میں تحقیقات کر رہے ہیں اور ان تنظیموں پر الزامات ہیں جس پر سی ٹی ڈی نے اس مراسلے کی بنیاد پر مقدمہ درج کر دیا تھا۔
’عدالت نے متعدد بار سی ٹی ڈی سے کہا تھا کہ شواہد پیش کیے جائیں کہ کیسے انھوں نے دہشت گردی کی معاونت کی ہے لیکن وہ کچھ فراہم نہ کر سکے جس پر کیس خارج کر دیا گیا تھا۔شہاب خٹک ایڈووکیٹ نے بتایا کہ اس مقدمے میں عدالت نے متعدد بار سرکاری وکلا سے بھی کہا کہ اس بارے میں وہ شواہد پیش کریں لیکن کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کیے جا سکے تھے۔
’رواں برس جولائی میں عدالت کی جانب سے سرکاری وکلا کو ثبوت فراہم کرنے کا کہا گیا لیکن ٹھوس شواہد کی عدم دستیابی کی بنیاد پر عدالت نے مقدمہ خارج کر دیا تھا۔
گلالئی اسماعیل گزشتہ برس ستمبر میں کئی ماہ کی روپوشی کے بعد اچانک امریکہ میں منظرِ عام پر آئی تھیں۔
یاد رہے کہ گلالئی اسماعیل مئی میں اس وقت غائب ہوئی تھیں جب اسلام آباد میں ایک بچی سے جنسی زیادتی اور اس کے قتل کے واقعے پر احتجاج کرنے پر ان کے خلاف انسدادِ دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
اس مقدمے میں گلالئی اسماعیل پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ اُنھوں نے ’اس واقعے کی آڑ میں لوگوں کو حکومت اور فوج کے خلاف بھڑکایا ہے۔
اس کیس میں گلالئی اسماعیل کو مفرور قرار دیا جا چکا ہے۔ گلالئی اسماعیل پختون تحفظ موومنٹ کی حامی رہی ہیں اور وہ خواتین کی آگہی کے لیے غیر سرکاری تنظیم کی سربراہ رہی ہیں۔
گزشتہ برس ان مقدمات کے اندراج کے بعد گلالئی اسماعیل روپوش ہو گئی تھیں اور پھر کچھ عرصے کے بعد امریکہ میں سامنے آئیں جہاں انھوں نے پناہ کی درخواست دی تھی۔ گلالئی اسماعیل اس وقت امریکہ میں خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہی ہیں۔


