سیاسی جدوجہد کی حرکیات

تحریر: راحت ملک
2018ء کے انتخابات سے قبل اور بعد ازاں قائم ہونے والی حکومت دونوں ملک میں سیاسی استحکام اور معاشرے کے تمام گروہوں،اقوام وسیاسی جماعتوں کے درمیان ہم آہنگی پید اکرنے میں کامیاب نہیں ہویے۔ زیادہ سچی بات یہ ہے کہ دونوں عام انتخابات اور نئی حکومت عملاً سیاسی عدم استحکام کا مضبوط سبب بنے ہیں نئے سیاسی بندوبست کے خدوخال تشکیل دینے والوں نے اگر یہی کچھ حاصل کرنے کے لئے تمام اقدامات کئے تھے تو وہ اپنی” کامیابی ” پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔سوال البتہ عوامی سیاسی اور آئینی حدود کے اندر سے ابھرتا ہے کہ خدود خال کا تعین کرنے والوں نے جوہدف مقرر کیا تھا وہ حاصل ہوا ہے؟ تو بتایا جا ئے کہ اغراض و مقاصد کیا تھے؟ نیز یہ کہ خدوخال متعین کرنے والے کون تھے؟ اور کس قانونی اختیار کے تحت سیاسی اہداف طے کررہے تھے؟ طے کردہ اہداف اگر حاصل ہوچکے ہیں تو کیا ان کے نتیجے میں ملک میں سیاسی معاشی استحکام آیاہے؟ یا حالات اس کے برعکس ہوگئے ہیں؟حتمی طور پر انہیں یہ بھی واضح کردینا چاہیے کہ وہ پی ڈی ایم کی تجویز،/ تحریک کے رد عمل میں کیا جوبی لائحہ عمل اختیار کرینگے؟آیا وہ اپنی مسلط کردہ حکومت کی بقاء کے لئے عوام کی سیاس کی سیاسی لہر کے مقابلصف آراٰ ہونگے؟۔یا سیاسی عمل سے علیحد رہ کر حکومت اور حزب اختلاف کو سیاسی میدان میں قانونی اور سیاسی ذرائع کے ذریعے اپنی مقاصف کیحصول کے لیے کوشاں ہونے کے مواقع دینگے؟ پی ڈی ایم نے سیاسی تحریک کے متعلق اپنی حکمت مفصل لائحہ عمل بیان کردیا ہے اب آغاز کا ر سیاسی جلسوں سے ہوگا ملک کے مختلف شہروں میں ہونے والے جلسوں کے شیڈول سامنے آگئے ہیں۔کیا دسمبر کے وسط میں لاہور کے جلسہ عام کے بعد پی ڈی ایم اسلام آباد کا رخ کریے لگی؟۔قیاس اغلب ہے کہ لاہور کے جلسہ کے موقع پر۔۔ملک بھر میں ہوئے جلسوں کے اثرات کی روشنی میں جدوجہد کے اگلے پڑ اؤ کا تعین کیا جائے گا ممکن ہے کہ تمام جلسوں کے نتیجے میں سیاسی کارکنوں اور عوام کے وسیع حلقے میں سیاسی تحرک بھر پور جوش وجذبے کے ساتھ نمایاں ہو کر منظم جدوجہد کے ابتدائی مراحل کے تقاضے پورا کر دے تو پھر لاہور کا جلسہ اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا نکتہ آغٓاز بھی بن سکتا ہے۔!!!
سیاسی جدوجہد کی حرکبات اور حکمت عملی کی جزیات کے رموز مد نظر رکھتے ہوئے یہ سمجھنا سہل ہے کہ پی ڈی ایم جلسوں کو احتجاج گھیراؤ،ریلیوں اور بلا آخر اسلام آباد میں دھرنے میں بدل دے۔ان تمام مراحل کے لئے پی ڈی ایم کے پاس معقول تعداد میں افرادی قوت سماجی عوامی حمایت اور سیاسی کارکن موجود ہیں جو جوش وجذبے کی توانائی سے معاملات آگے بڑھا سکیں گے۔البتہ یہ سوال بھی قابل توجہ ہے کہ حکومتی سیاسی مخالفین کا راستہ کسی طرح روکے گی؟وزیراعظم ان کے معاونین کے لب ولہجہ سے خدشہ ابھر رہا ہے کہ سیاسی حریفوں کو ریاستی طاقت سے کچلنے کی کوششیں کی جائے گی یا پھر حکمران اتحاد بالخصوص پی ٹی آئی جس کے قائد غیر ضوری اعتماد کے ساتھ اسٹریٹ پاور کے متعلق سب سے زیادہ تجربہ رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں اس دعویٰ کی روشنی اور حکومتی بیانات میں تدبر کی شدید کمی کے تناظر میں یہ بھی ممکن ہے کہ پی ٹی آئی،پی ڈی ایم کے مقابلے میں اپنی تحریک شروع کردے۔جلسے جلوس نکالے،پی ٹی آئی اس کا حق رکھی ہے مگرطخطرہ ہے کہ رد عمل پر مبنی دونوں اقدامات سیاسی تصادم کو بڑھاوا دیں گے اور اس کا سارا فائدہ حکومت کی بجائے پی ڈی ایم کو ملے گا سیاسی جدوجہد میں قیادت کی گرفتاریاں خطرناک ثابت ہوتی ہیں قیادت کی عدم موجودگی میں کارکنان مشتعل ہوسکتے ہیں جبکہ کارکنوں سمیت عوام میں حکومت کے اقدامات کے خلاف غم و غصہ بڑھ جائے تو بھی سیاسی تحریک میں شدت وتوانائی آجاتی ہے جو حکمران جماعت یا کبھی کبھی حکمران طبقے کو تاریخ کے کوڑے دان میں دھکیل دیتی ہے میرا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ پاکستان کے مقتدر حلقے یا برسر اقتدار جماعت کو تاریخ کا حصہ بنا دے گی ایسا ہونا سردست ناممکن ہے کیونکہ تحریک بنیادی طور پر عوامی جمہوری انقلاب یعنی پیپلز ڈیمو کریٹک کردار سے فاصلے پر ہے طبقاتی اور نظریاتی اعتبار سے یہ اتحاد ملک کے مختلف الخیال سیاسی حلقوں پر مشتمل ہے جو کم از کم نکات پر متفق ہو کر جدوجہد پر آمادہ ہویے ہیں جدوجہد کابنیادی مقصد ملک میں جمہوریت کے تنگ ہوتے دائرے کی مزاحمت کرنا،آئینی پارلیمانی جمہوری نظام میں غیر سیاسی مداخلت کی مخالفت/ تدارک کرنا ہے۔عوامی حاکمیت ممکن بنانا اور گرتی ہوئی معاشی صورتحال،بے تحاشہ مہنگائی،لاقانونیت،بے روز گاری،اقتصادی تجارتی گراوٹ ٹ سفارتی ناکامی اور عوام کے استحصال کی بھیانک موجودہ صورتحال میں تبدیلی بلکہ بہتری لانا ہے اس مقصد کے لئے سیاسی جماعتوں نے سیاسی جدوجہد پر مبنی اپنی حکمت عملی تشکیل دی ہے جس کے مختلف تدریحی مراحل ہیں حتمی اقدام اسمبلیوں سے اجتماعی استعفے دینا بتایا گیا ہے یہ بھی ممکن ہے کہ استعفوں کی نوبت نہ آئے کہ اجتماعی تحریک ہی آغاز سے ہی عوامی جوش جذبے کا بھر پور مظاہرہ کرتے تو ایوان اقتدار کو لرز دے
ذرائع ابلاغ میں تحریک کے متعلق منفی تجزیئے بھی انکشاف نما خبروں یا اندرونی کہانی کے طور پر پیش کئے جارہے ہیں ایک نکتہ جس پر مسلسل سوال اٹھائے گئے اور اصرار کیا جارہا ہے۔ کی اسمبلیوں سے استعفے دینے سے متعلق پیپلزپارٹی متفق نہیں۔دلیل یہدی جارہی ہے کہ پیپلزپارٹی استعفیٰ دے کر سندھ حکومت سے ہاتھ دھونے پر آمادہ نہیں۔معروف اینکر پرسن کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی استعفے نہیں دے گی یہ بات درست ہو سکتی کہ پی پی سندھ اسمبلی سے سدتعفے دینے کی بجایے ایسا آئینی اقدام کر دے جو کھلیں گے نہ کھلنے دینگے کے مترادف ہو
صدارتی آرڈیننس کے ذریعے حال ہی میں سندھ کے جزائر مرکزی اختیار میں لینے کا فیصلہ سندھ کی سیاست میں گہرے اثرات مرتب کرے گا یہ صورتحال دھماکہ خیز ہے حکومت نے صدارتی آرڈیننس اس لیئے جاری کیا ہے کہ وہ پارلیمان کے ذریعے اس نوعیت کی قانون سازی کرانے کی استعداد نہیں رکھتی بالخصوص سینٹ سے لیکن اگر مارچ2021 میں سینٹ کی آدھی خالی ہونے والی نشستوں کے موجودہ صوبائی اسمبلیوں کے ذریعے انتخابات ہوئے تو سینیٹ میں حکومت کی کمزور عددی پوزیشن مستحکم ہوجائے گی تب سندھ کے جزائر سمیت بلوچستان کی ساحلی پٹی پر کوسٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے زریعے مرکزی متقدرہ کا قبضہ واختیار حاصل کرنا بہت سہل ہوجائے گ۔اس صورتحال سے بچنا سندھ وبلوچستان کیلئے اشد ضروری ہے جس کی ذمہ داری دونوں صوبوں کی وطن دوست سیاسی جماعتوں کے کاندھوں پر آگئی ہے سندھ میں پیپلزپارٹی کو حالیہ صدارتی آرڈیننس کے زریعے دیوار سے لگا کر حکمرانوں نے کم از کم سندھ میں سینیٹ کے انتخابی کالج کی فروری سے قبل تحلیل کی یعنی بنیادمہیا کردی ہے یہ کام پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے استعفوں کی صورت کرے یا سندھ کی حکمران جماعت کے طور پر اپنے آئینی اختیارات بروئے کار لائے۔ نتیجہ ایک ہی نکلنے والا ہے اس تناظر سے چشم پوشی کرنے والے یہ صحافی ہی دعویٰ کرسکتے ہیں کہ پیپلزپارٹی اسمبلیوں سے مستعفی نہیں ہوگی میں یہ سمجھتا ہوں کہ سندھ حکومت استعفوں کی بجائے انتہائی اقدام پر مجبور ہوچکی ہے جبکہ تجزیہ کارحضرات واقعات کے تسلسل کو ملحوظ رکھنے کی بجائے جست لگا کر نتائج اخذ کرنے کی غلطی کر رہے ہیں مثلاً
یہ کہنا کہ پیپلزپارٹی سندھ اسمبلی سمیت قومی اسمبلی سے مستعفی ہوجائے تو اسے نقصان ہوگا فائدہ نہیں دراصل اس استد لال کے بین اسطور میں پی ڈی ایم کی تحریک کی ناکامی کو یقینی تسلیم کر لیا گیا ہے جبکہ یہی پہلو توجہ کا متضاضی ہے یہ سو چنا چاہیے کہ استعفوں کی نوبت حتمی نتیجے میں پیش آئے گی لہذا آخری وار کے ذریعے حکومت کو ہر طور پرگھر بیچا جانا ناگزیر ہو چکا ہوگی تو استعفے دینا متنازعہ نہیں بنیادی فیصلہ ہے جس پر سب کا اتفاق حاصل ہے یا وہ اس پر مجبور ہوگا کیونکہ اس کے بعد اگلے مرحلے میں (آئینی تناظر) میں عام انتخابات کا انعقاد یقینی ہوگا اور پی ڈی ایم فاتح سیاسی قوت ہوگی چنانچہ اسکے مطالبات کی پذیرائی لازم ہے جن میں انتخابات میں ہر قسم کی مداخلت کاخاتمہ،شفاف،صاف،قابل اعتماد رائے شماری ممکن بنانا بہت اہم ہے تحریک کی کامیابی کے ثمرات تقاضہ کرینگے کہ نئے انتخابات 2018ء کا اعادہ نہ ہوں چنانچہ منصفانہ عدم مداخلت والے انتخابات میں پی ڈی ایم کی جماعتیں زیادہ بہتر نتائج لائیں گی (اگر انہوں نے پی ڈی ایم کو انتخابی اتحاد میں بدل لیا تو انتخابی صورت حال میں جوہری تبدیلی آجائے گی)۔بہرحال سندھ سے پیپلز پارٹی کی نشستیں بڑھ سکتی ہیں کراچی میں گزشتہ انتخابات کے برعکس نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے جس کی دو وجوہ میں (۱) عدم مداخلت اور(۲)پی ٹی آئی حکومت کی نااہل حکمرانی.
پی ڈی ایم اتحاد انتخابی اتحاد نہ بھی بنے تو امکان ہے کہ اس کی اتحادی جماعتیں باہمی طور پر مختلف حلقوں میں انفرادی طور پر انتخابی ایڈجسٹمنٹ کر کے اپنی پوزیشن مستحکم کریں۔
حتمی طور پر تحریک کی مکمل کامیابی کی صورت میں سندھ اور ملک بھر میں پیپلزپارٹی کی نشستوں میں اضافہ متوقع ہے اس لئے اسے ستعفےٰ دینے میں کوئی تامل نہیں ہوگا یہ بھی ممکن ہے کہ عام انتخابات کے بعد پنجاب اور مرکزمیں مسلم لیگ وپیپلزپارٹی مخلوط حکومت سازی کی پالیسی اپنائیں جس کے بہترین فوائد پیپلزپارٹی کی قیادت کو میسر آسکتے ہیں۔
” آزریت ” کے ہنر مند اگر اپنا رویہ نہیں بدلتے تو پی ڈی ایم کے لئے نیم صدارتی نظام کے احیاء کا تدارک اٹھارویں ترمیم اور سندھ بلوچستان کے ساحلی علاقوں پر صوبائی اختیار بحال رکھنے کے لئے بلا اخری سینیٹ انتخابات روکنے کے لیے اس کے کے الیکٹرول کالج کا خاتمہ کرنا ناگزیر ہوچکا ہے حکومت نے سیاسی مخالفین بالخصوص مسلم لیگ کے بیسوں رہنماؤں پر غداری کا مقدمہ درج کر کے اور پھر اس سے فاصلہ پیدا کر کے پی ڈی ایم کی تحریک کا راستہ آسان بنا دیا ہے اس اقدام سے تین نتائج برآمد ہونے ہیں۔
1۔سیاسی مخالفین پر کرپشن کے مقدمات کی ساکھ تباہ ہوگئی ہے یہ ثابت ہوا کہ حکومت سمجھتی ہے کہ کرپشن کے مقدمات میں اتنی جان نہیں کہ ان کے ذریعے مخالفین کو سیاسی میدان سے باہر دھکیلا جاسکے
2) اس نے غداری کے مقدمات کا سہار لیا مگر فی الفور اس سے پیچھے ہٹ گئی یوں اس نے اپنی فیصلہ سازی اور اقتدار پر مضبوط گرفت کا مجہول تاثر بھی زائل کرلیا ہے۔
3)۔غداری کے مقدمات صرف حکومت درج کرسکتی ہے یہاں پی ٹی آئی کے ایک رکن کی مدعیت میں مقدمات کا اندراج ہوا جسے پی ٹی آئی کے سربراہ نے بقول فواد چوہدری نا پسند کیا۔ تو پھر مقدمات کس کے حکم پر کیسے درج ہوئے؟ اس سوال نے ” ریاست کے اندر ریاست ” اور ” ریاست میں ماورائے ریاست ” کے بیانیے کی تصدیق کر کے پی ڈی ایم کے موقف کو مضبوط شہادت فراہم کی ہے۔
غداری کے فتوے اور پھر مقدمات نے پی ٹی آئی کو ایوب دور کی کنونشن لیگ یا قیوم لیگ بنالیا ہے جبکہ مسلم لیگ نون کے قائد کے آئین پارلیمنٹ اور جمہوری بالادستی کے موقف نے اسے ماضی کی نیب کے مکتب فکر سے قریب کردیا ہے۔ ملکی سیاست میں یہ نظری تغیر بہت گہرے مثبت اور دور رس اثرات مرتب کرے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں