دنیا بھر میں بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام

تحریر: بلاول ساجدی
آج ہم اس دور میں جی رہے ہیں۔ جس میں قتل و غارت عام ہوچکی ہے۔ آج کے دور میں مرنے والے کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیوں قتل ہو رہا ہے۔ مارنے والے کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیوں کسی کو قتل کر رہا ہے۔سب سے زیادہ اس طرح کے حالات مسلمان ممالک کے ہیں۔ عربستان میں سعودی عرب اور بحرین کو چھوڑ کر باقی تمام عرب ملکوں کی حالات معمول کے مطابق ہیں۔
بات سعودی عرب اور بحرین کا ہے۔ وہاں کے معملات کچھ مختلف ہیں۔ سعودی عرب کی جھڑپیں یمن کے ساتھ ہوتی ہیں وہ بھی فرقاواریت فسادات کی بناء پر ہوتی ہیں۔ بحرین کے معاملات بھی کچھ مختلف نہیں۔ مگر یہ دنوں ممالک چاہیں اپنے حالات کو بہتر کرسکتے ہیں۔ مگر اسکے لیے یہ خود حکمت عملی مرتب نہیں کرتے۔ مزاکرات کے لیے قدم آگے نہیں بڑھاتے۔ اگر یہ ممالک چاہیں مزاکرات کر کے اپنے خطے میں امن کو بحال کرسکتے ہیں۔
باقی جو عرب ممالک ہیں۔ انکے امن وامان کی صورتحال بہت اچھی ہے۔ کیونکہ وہ امریکہ کے پیروکار ہیں۔ اور کچھ امریکہ کے پیروکار بننے والے ہیں ۔ ان میں کچھ نے امریکہ کے کہنے پر اسرائیل کو تسلیم بھی کر لیا اور کچھ کرنے والے ہیں۔ مگر ایک بات صاف واضح ہو گیا ہے کہ عرب کے لوگ صرف اپنے مطلب کے ہیں۔ جب یو اے ای اسرائیل کو تسلیم کر رہی تھی تو کچھ معاہدے امن و امان کے لیے بھی کر لیے تھے۔ مگر وہ کیوں کریں انکو باقی مسلمان ممالک کے ساتھ کوئی سروکار نہیں ہے۔
کہیں سالوں سے فلسطین جل رہا ہے۔ فلسطین کو جلانے والا اسرائیل ہے۔ وہاں بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے اور اتفاق سے وہاں ظلم و ستم کرنے والا اسرائیل ہے۔ مگر عربوں نے اپنے فائدے کے لیے اسرائیل کو تسلیم کیا۔ یہ کرتے ہوئے انکے ضمیر نے یہ تک گوارہ نہیں کیا کہ وہ اسرائیل سے فلسطین کے لیے مکمل جنگ بندی کا معاہدہ کرواتے۔ تاکہ فلسطین میں امن قائم ہو جاتا اور مسلمانوں کا قتل عام بند ہو جاتا۔ اسکے بعد ان اندھوں کو کشمیر میں ہندوستانی ظلم و ستم کا منظر نظر نہیں آتے۔ سال بھر سے کشمیر میں بھارتی فوج نے مکمل کرفیو لگایا ہوا ہے۔ اور مسلمانوں کو بے رحمی سے قتل کیا جارہاہے کشمیر کے لوگ اپنے شہیدوں کی میت کو اپنے گھروں میں دفن کررہے ہیں۔ مگر عربوں نے اسکے لئے امریکہ کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کیا۔ اگر عرب چاہتے کشمیر میں جاری کردہ بھارتی فوج کا ظلم ختم ہو جاتا۔ کیونکہ ہندوستان امریکہ کی پیروکار ہے۔ اگر امریکہ ہندوستان سے کہتا تو وہ کشمیر میں جاری کردہ ظلم بند کرتا اور مکمل جنگ بندی کی اعلان کر دیتا۔
ماضی میں بھی مسلمانوں کے ساتھ یہی حالات تھے۔ مگر مسلمانوں کو کبھی بھی اللّٰہ پاک نے تہنا نہیں چھوڑا اور نہیں چھوڑے گا۔ ماضی میں روس نے افغانستان سے گرم پانی حاصل کرنے کے لیے حملہ کیا تھا۔ اسوقت روس سپر پاور ملک تھا۔ کہیں بے گناہ مسلمان شہید ہوگئے تھے۔ آخرکار ایک طویل جنگ کے بعد روس کو منہ کی کھانی پڑی اور شکست فاش ہوئی۔
جب 11 ستمبر 2001 میں امریکہ کے شہر نیویارک میں ہوائی جہاز کو ورلڈ ٹریڈ ٹوین ٹاورز سے ٹکرا کر اس عمارت کو زمین بوس کر دیا گیا تھا۔ تو اسکا الزام افغان طالبان پر اور اسامہ بن لادن پر لگا تھا۔ اسکے بعد امریکہ نے افغانستان میں طالبان کی خلاف جنگ شروع کیا۔ کہی سال تک یہ جنگ چلتا رہا اور امریکی فوجیوں کی طرف سے ہر قسم کی حملے ہوتے رہے ہیں۔ جس میں کہیں بے گناہ مسلمان شہید ہوئے۔ آخر میں کہیں سالوں کے بعد امریکہ کو ہوش آگیا کہ اس نے کتنا بڑا نقصان کیا ہے مالی اور جانی دونوں۔ آخرکار ایک طویل مدت کے بعد امریکہ نے امن معاہدے کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
ویسے آج مسلمانوں کی جنگ غیر مزہب لوگوں سے کم اور اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ زیادہ چل رہا ہے ۔ آج مسلمان آپس میں لڑ رہے ہیں۔ ایک دوسرے پر لعنت بھیج رہے ہیں۔ اسکی بڑی وجہ یہ ہے ہم مسلمان لوگوں کی باتوں کو زیادہ ترجیح دے رہے ہیں۔ لوگ اپنی ملاوٹی باتوں سے فتنے بازی اور فسادات کروارہے ہیں۔ حقیقت بات یہ ہے آج زیادہ تر مولوی پیسے کی لالچ میں بک چکے ہیں۔ اور امن بھائی چارگی کا درس کم دیتے ہیں اور فسادی درس زیادہ دیتے ہیں۔
پاکستان میں بے گناہ مسلمانوں کی 0قتل بہت عام ہے۔ اسوقت پاکستان میں پھر سے فرقہ واریت فسادات کی آگ کو بڑکھایا جا رہا ہے۔ پھر سے شعیہ اور سنیوں کو زبردستی لڑانے کی منصوبہ بندی ہو رہا ہے۔ اس میں الیکٹرونک میڈیا کا کردار بھی ہے۔ الیکٹرونک میڈیا کے پروگرام اب تک میں محترمہ سیفی علی نے انٹرویو دیتے ہوئے گستخانہ بات کی اور آپکو بتاتا چلوں وہ پروگرام برائے راست بھی نہیں تھا بلکہ ریکارڈٹ پروگرام تھا۔ میڈیا کو چاہیے تھا اس ریکارڈٹ پروگرام برائے راست نشر نہیں کرتے۔اسکے نشر ہونے کے بعد علامہ آصف رضا علوی صاحب نے محترمہ سیفی علی کی کہی ہوئی باتوں کی حمایت کیا۔ اور آگ لگانے کے بعد پاکستان چھوڑ کر لندن چلے گئے۔ مطلب یہ اسکو جن آقاؤں نے حمایت کرنے کا کام سپرد کیا تھا یہ انکے پاس چلا گیا۔ اگر یہ کام شیعہ علماءوں کا ہوتا تو علامہ آصف رضا علوی صاحب لندن کے بجائے ایران یا نجف کی طرف چلے جاتے۔علامہ آصف رضا علوی صاحب کے حمایت کے بعد کچھ ناسمجھ لوگوں نے اسکے خلاف مختلف جگہوں سے جلوس نکالے اور کچھ امام بارگاہوں پر پتھراؤ بھی کیا۔ اکثر اس طرح کی حرکتیں تیسری عناصر کرتے ہیں۔ تاکہ تعاصب پھیل جائے۔اور شعیہ فرقے کے باقی تمام علماءوں نے اس بات کی بے حد مزمت کی۔
اور کچھ لوگوں کی وجہ سے نفرتیں پھیل جاتی ہے۔ اکثر اس طرح کی جلوسوں، ریلیوں اور درنوں میں یہ بھی سنا جاتا ہے۔ کافر شیعہ کافر بات مختصر سی ہے جس رسول اور جن صحابیوں کے لیے اس طرح کی رد عمل پیش کرتے ہیں۔ پہلے یہ مت بھولوں کے ان ہستیوں نے کبھی کسی کافر کو کافر کہا ہے۔ کبھی اپنے زبان اور ہاتھوں سے کسی کی دل شکنی کی ہے۔ یہاں تک کے دین اسلام کہتا ہے کہ کافر کو بھی کافر کہنے کا حق نہیں۔ تو کیسے شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو کافر کہا جاتا ہے۔ شعیہ فرقے سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی مسلمان ہیں۔ مسلمان سے پہلے سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں۔ اگر ہم مسلمان دوسروں کی سازشوں میں آئیں گے تو سب سے بڑا نقصان اپنا کریگئے۔
یہاں پر ایک مضبوط مسلمانی ریاست کا زکر کرتا چلوں جسکو آج دنیا میں اسپین کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی فتح سے پہلے یہ ریاست گندگی کی ڈھیر اور غلیظ ریاست تھی۔ اسپین میں مسلمانوں کی آنے سے پہلےکلیسا نے اسپین میں تعلیم اور تعلق پر پابندی لگادی تھی۔ قدیم یونان کی عظیم و شان خطب خانے اور فلسفہ کی تحریری اور انکی علمی اور ثقافتی سرمائے طے خانوں میں بند ہو کر دفن ہوگیا تھا۔ اور ہر تخت نشین ہونے والا بادشاہ اہل کلیسا کو خوش رکھنے کے لیے ان طے خانوں کی دروازوں پر اپنے نام کا سب سے بڑا تالا لگوا دیتا تھا۔ کلیسا نے غسل کو گناہ قرار دیا ہوا تھا۔اس وقت اسپین کے لوگوں سے بدبو آنا شروع ہو گیا تھا۔ اسپین کو غلیظ مٹی اور کیچر سے برا خطہ مانا جاتا تھا۔ مسلمانوں نے طارق بن زیاد کی قیادت میں اسپین پر قبضہ کیا تھا۔ جس ساحل پر مسلمان اترے تھے اسکو جبل الطارق کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ طارق بن زیاد نے سب کشتیوں کو جلا کر یہ یہ اہم الفاظ کہے تھے۔ اب ہمارے پاس واپسی کا کوئی راستہ نہیں بچا ہے یا تو ہمیں فتح حاصل ہوگی یا پھر ہمیں جام شہادت نصیب ہوگا۔
مسلمانی فوج نے طارق بن زیاد کی قیادت میں اسپین پر حملہ کیا۔ جب مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی۔ تو اسپین کا قسمت جاگ اٹھی۔ اور مسلمانوں نے اس خطے میں شاندار حکومت قائم کی۔ اور مسلمانوں نے اسپین کو اندلس کا نام دیا۔ اور بہت مضبوط بنیادی نظام میں تعلیم قائم کیا۔ اندلس میں ایک زمانے میں شراء خواندگی 100 فیصد تک پہنچ گیا تھا۔ اندلس میں مسلمانوں نے ایسے تعلیمی ادارے بنائیں۔ جس کا شراء پوری دنیا میں پہنچا۔اس تعلیمی ادارے میں کسی قوم اور کسی مزہب کی کوئی قید نہیں تھی۔ دنیا بھر سے آنے والے یہاں سے علم کی فیض حاصل کرتے تھے۔
اندلس میں مسلمانوں کی بے شمار تعمیرات میں سے دو قابلِ ذکر تعمیرات قصر الحمراء اور مسجد قرطبہ تھی۔ قصر الحمراء مسلمان خلیفاوں کی رہائشگاہ کی طور پر استعمال ہوتا تھا۔ جس کو عیسائیوں نے فتح کرنے کے بعد عیسائی شاہی خاندان کی رہائشگاہ بنایا۔ اور عظیم اور خوبصورتی کی شاہکار مسجد قرطبہ اسوقت اسلامی دنیا کی عالی شان مسجد تھی۔ بعد ازاں اسکو بھی گرجا گھر میں تبدیل کردیا گیا۔ مسلمان آٹھ سو سالا اقتدار میں اقلیت میں رہے۔ لیکن افسوس وہاں پر مسلمانوں کی مقامی نسل تیار ہو نا سکی۔
مسلمانوں کی باہمی، قبائلی جھگڑے اور اقتدار کی رسہ کاشی نے انھیں اندر سے کھوکھلا کر دیا۔ وہاں کی مسلمانوں کی تیزی سے زوال ہونا شروع ہو گیا۔ پھر یورپی دنیا سے مسلمانوں کا خاتمہ ایسے ہوا جیسے پہلے کبھی انکا کوئی وجود موجود نہیں تھا۔اور اسپین میں مکمل عیسائیوں کی حکومت قائم ہوگئی۔
اسوقت باقی تمام مسلمانی ممالک کا یہی حال ہے اقتدار کی تنازعہ چل رہے ہیں۔ زر، زمین اور زن کو دین سے زیادہ فوقیت دی جارہی ہیں۔ ان چیزوں کے لیے فتنے پیدا کیا جا رہے ہیں۔ آپس میں مسلمان مسلمان سے لڑ رہے ہیں۔
اگر اب بھی مسلمانوں نے ہوش کے ناخن نہ لیا تو آنے والے وقتوں میں مسلمانوں کی کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اور یہود اور نصار مسلمانوں پر حکمرانی کرینگے۔ مسلمانوں کو چاہیے آپس کی اختلافات کو ختم کریں۔ اللہ تعالیٰ اور رسول کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی دین کو قائم رکھتے ہوئے زندگی گزارے۔ بھائی چارگی کو قائم کریں۔ امن کی دعوت کو عام کریں۔ پھر کوئی بھی مسلمانوں کا بال پیکا نہیں کر سکے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں