خظرناک کھیل اور آصف زرداری

انور ساجدی
آنے والے چند ہفتوں زبردست مقابلہ ہونے والا ہے یہ ایک تین طرفہ مقابلہ ہوگا یعنی پی ڈی ایم کا مقابلہ حکومت سے ہوگا جبکہ اسی دوران مختلف دہشت گرد گروپوں کا مقابلہ پی ڈی ایم سے ہوگا راولپنڈی والے وفاقی وزیر شیخ رشید احمد نے 24 اکتوبر کو انکشاف کیا تھا کہ پی ڈی ایم کے کوئٹہ اور پشاور کے جلسوں کے موقع پر دہشت گردی کا خطرہ ہے انہوں نے واشگاف نشاندہی کی تھی کہ تحریک طالبان پاکستان میں دوبارہ منظم ہوچکی ہے اسے بھارت فنڈز بھی فراہم کررہا ہے جس کی وجہ سے وہ کارروائیاں کرسکتی ہے ان کے انکشاف کے عین مطابق ایوب اسٹیڈیم جہاں جلسہ ہورہا تھا وہاں سے 20 کلو میٹردور ہزار گنجی میں ایک دھماکہ ہوا جس میں تین افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے نہ صرف یہ بلکہ گزشتہ روز پشاور کے ایک مدرسہ میں بڑا ہولناک اور بے رحمانہ دھماکہ ہوا جس میں 8 کمسن طالب علم جاں بحق اور سو سے زائد زخمی ہوگئے اس واقعہ کی ذمہ داری ٹی ٹی پی نے اب تک قبول نہیں کی ہے لوگوں کو یاد ہوگا کہ 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں ریاست کی تاریخ کا سب سے بہیمانہ حملہ ہوا تھا جس میں دہشت گردوں نے 180 بچوں کی قیمتی زندگی چھین لی تھی اس واقعہ کی ذمہ داری ٹی ٹی پی کے اس وقت کے ترجمان احسان اللہ احسان نے قبول کی تھی یہ موصوف حساس حراست سے فرار ہوکر کسی نامعلوم مقام پر مقیم ہیں اور انہوں نے کئی بیانات بھی جاری کئے ہیں وفاقی وزیر شیخ رشید کے بیان کے بعد پی ڈی ایم رہنماؤں نے ایک بیان میں مطالبہ کیا ہے کہ شیخ رشید کو بلاکر پوچھا جائے کہ وفاقی اداروں کی جانب سے تھریٹ الرٹ کے بعدانہوں نے دہشت گردوں کی نشاندہی کیسے کی آیا انہیں معلوم تھا کہ اس طرح کے واقعات ہونے والے ہیں اگر یہ پیشگی معلومات تھیں تو دہشت گردوں کے حملے روکنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی ایک اہم سوال یہ بھی شیخ صاحب سے پوچھا جاسکتا ہے کہ ان کو یہ معلومات کہاں سے ملی ہیں کہ ٹی ٹی پی دوباہ منظم ہوگئی ہے اور اسے بھارت فنڈنگ کررہا ہے شیخ صاحب سے یہ سوال بنتا ہے کہ ٹی ٹی پی اپوزیشن کے اجتماعات کو کیوں نشانہ بنانا چاہتی ہے کیا حکومت سے اس کے دوستانہ تعلقات ہیں جو وہ اسے گزند نہیں پہنچائے گی؟ اس سوال سے قطع نظر اگر ٹی ٹی پی یا دیگر گروپ اپوزیشن کو نشانہ بنائیں گے جس کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر اپوزیشن کی تحریک ناکام ہوئی تو اس کا کریڈٹ ان گروپوں کو جائے گا کیونکہ حکومت میں نہ توانتظامی دم ہے نہ سیاسی حکمت عملی جو اپوزیشن کا مقابلہ کرسکے البتہ ٹی ٹی پی کے اقدامات سے زیادہ فائدہ حکومت کو حاصل ہوجائے گا۔
مدرسہ میں دھماکہ کے باوجود مولانا صاحب نے اعلان کیا ہے کہ پشاور میں جلسہ ضرور ہوگا اور اس میں کوئٹہ سے بھی زیادہ لوگ آئیں گے انہوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ ہم ڈرنے والے نہیں ہیں لہٰذا اس جلسہ میں 11 جماعتوں کے رہنما خطاب کریں گے البتہ کوئٹہ کی طرح بلاول بھٹو کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ پشاور کے جلسہ میں بھی ذاتی طور پر شرکت نہ کریں بلکہ ویڈیو خطاب پر اکتفا کریں کیونکہ دہشت گردوں کا خاص نشانہ ان کی ذات ہے بلاول کو گلگت بلتستان جانے سے پہلے بھی یہی مشورہ دیا گیا تھا لیکن انہوں نے ان مشوروں کو نظر انداز کردیا اور وہ ایک ہفتہ میں 14 اجتماعات سے خطاب کرچکے ہیں اگر گلگت بلتستان کے انتخابات غیر جانبدارانہ ہو ئے تو پیپلز پارٹی نصف نشستیں حاصل کرسکتی ہے اگر نہیں ہوئے تو تحریک انصاف بازی لے جائے گی جس نے ابھی تک کوئی کمپئن نہیں چلائی ہے یعنی وہ اتنی مقبول ہے کہ کسی کوشش کے بغیر کامیابی اس کی جھولی میں خودبخود آکر گرے گی اگرچہ ن لیگ نے بھی کافی امیدوار کھڑے کئے ہیں لیکن حالات اس کے موافق نہیں ہیں اگر حکومت سمجھ دار ہوتی تو گلگت بلتستان کی حکومت بھی پیپلز پارٹی کو بنانے دی جاتی تاکہ دو حکومتوں کی وجہ سے وہ اسمبلیوں سے مستعفی ہونے سے انکار کردیتی جس کے نتیجے میں اپوزیشن کی تحریک کمزور ہوجاتی ویسے بھی آہستہ آہستہ پتہ چل رہا ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے اپروچ میں فرق نمایاں ہے پیپلز پارٹی ان ہاؤس تبدیلی کے حق میں ہے جبکہ ن لیگ چاہتی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ ہوجائے اور نئے انتخابات کااعلان ہوجائے ن لیگ اور پی ڈی ایم کی دیگر جماعتیں پیپلز پارٹی سے سندھ حکومت کی قربانی مانگ رہی ہیں جو کہ ایک مشکل کام ہے پیپلز پارٹی اسمبلیوں سے استعفوں کے حق میں بھی نہیں ہے اس کا خیال ہے کہ جلسوں کے بعد مارچ شروع کئے جائیں تاکہ بزرگوں پر اتنا پریشر پڑے کہ وہ وزیراعظم کو ہٹانے پر مجبور ہوجائیں کراچی میں مریم نواز کی تضحیک کے واقعہ کے بعد حکام بالا مسلسل بلاول سے رابطے میں ہیں اور انہوں نے وفاقی حکومت کی جانب سے گورنر راج کوششوں کو بھی ناکام بنادیا ہے تاہم اگر پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کی پوری حکمت عملی کے ساتھ وابستہ رہی تو ظاہر ہے کہ سندھ میں یقینی طور پر تبدیلی لائی جائے گی جس کے نتیجے میں پارٹی کے متعدد ارکان ٹوٹ جائیں گے اسی طرح ن لیگ کے نصف اراکین بھی چھوڑنے کیلئے تیار ہیں کیونکہ وہ نواز شریف کے حیران کن بیانیہ سے گھبرائے ہوئے ہیں پنجاب میں یہ پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ نواز شریف نے محمود خان اچکزئی کو بطور ”مینٹور“ قبول کیا ہے اور ریاست کے بارے میں ان کے نظریات کو اپنے بیانیے میں شامل کر لیا ہے اسی طرح بہت جلد یہ الزام بھی لگنے والا ہے کہ مریم نواز اختر مینگل کے بیانیے پر چل رہی ہیں بلکہ خوداختر جان نے جاتی امرا میں صحافیوں کو بتایا کہ مسلم لیگ ن نے ان کا بیانیہ اپنایا ہے پنجاب کے عوام کو باور کرایا جارہا ہے کہ نواز شریف خطرناک راستے پر چل پڑے ہیں جن سے ریاست کی وحدت کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے سچ یہ ہے کہ اپوزیشن کا واحد مقصد عمران خان اور اس کی حکومت کو ہٹانا ہے یہ بنانیے وغیرہ وقتی چیز ہیں کیونکہ اس ریاست میں کوئی نظریاتی سیاست نہیں ہے بلکہ کسی بھی جماعت کا سرے سے کوئی نظریہ نہیں ہے بلکہ سب کا مقصد حصول اقتدار یا اس میں شراکت داری ہے اگرچہ مسلم لیگ ن کی نمائندگی بلوچستان اسمبلی میں نہیں ہے لیکن اختر مینگل اپوزیشن کو قائل کررہے ہیں کہ باپ پارٹی کی حکومت کا دھڑن تختہ کیا جائے لیکن یہ کام اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک باپ پارٹی کے اندر سے بغاوت نہ ہو چونکہ یہ پارٹی ایک خاص اور خوفناک ڈسپلن کی پابند ہے اس لئے قدوس بزنجو سمیت باغی ارکان میں اتنا دم خم نہیں ہے کہ وہ جام صاحب کو ہٹانے کیلئے اپوزیشن کے ساتھ مل جائیں جام صاحب نے گزشتہ دنوں بتایا کہ آواران ضلع میں قدوس بزنجو کی کوئی بڑی حیثیت نہیں ہے بلکہ اس علاقہ کے لوگ تاریخی طور پر ان کے باپ دادا کے حامی رہے ہیں اس لئے وہ مستقبل قریب میں پرانے لوگوں سے رابطہ قائم کریں گے جس کے نتیجے میں آئندہ انتخابات میں قدوس بزنجو آؤٹ ہوجائیں گے جام صاحب نے بتایا کہ قدوس بزنجو کئی اضلاع میں معدنیات کی لیز یں کروارہے ہیں جوکہ غلط ہے کیونکہ ان معدنیات پر قدوس بزنجو کا نہیں مقامی لوگوں کا حق ہے۔
بظاہر تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ اگر اپوزیشن کی تحریک آگے بڑھی اور جیسے کہ اختر مینگل نے مریم نواز کو مشورہ دیا ہے کہ جلسوں سے کچھ نہیں ہوگا دما دم مست قلندر کرنے کی ضرورت ہے یعنی لاہور سے یا ملک بھر سے اسلام آباد کی طرف مارچ کیا جائے جہاں لاکھوں لوگوں پر مشتمل دھرنا دیا جائے اس دھرنے کی دھمکی مولانا صاحب نے پہلے سے دے رکھی ہے انہوں نے حکام بالا سے کہا ہے کہ اس مرتبہ دھرنا ڈی چوک پر نہیں بلکہ ریڈ زون پر ہوگا تاکہ دنیا دیکھے کہ تحریک انصاف اور اس کی حکومت کو عوام کی حمایت حاصل نہیں ہے البتہ بلاول نے ابھی تک ریڈ زون میں دھرنے کی حامی نہیں بھری ہے انہوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس کے نتیجے میں موجودہ لولی لنگڑی جمہوریت بھی چلی جائے گی جبکہ وہ چاہتے ہیں کہ بساط لپیٹے جانے کی بجائے مزید جمہوریت کے حصول کیلئے کوشش کی جائے تاہم مولانا اور ن لیگ جلدی میں ہیں اور وہ اس حکومت کو مزید مہلت نہیں دینا چاہتے ہیں ویسے بھی یہ حکومت صرف تین جلسوں سے گھبرا گئی ہے اس کے ہاتھ پیر پھولے ہوئے ہیں اور یہ سارا کام چھوڑ کر اپوزیشن پر جوابی وار کررہی ہے وہ بھی وزراء اور مشیروں کے ذریعے میدان میں کیا کیا جائے اس کی کوئی حکمت عملی نہیں ہے حکومت مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں مکمل ناکام ہے گزشتہ روز وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزراء کو اور کچھ نہ سوجھا تو انہوں نے مہنگائی کی وجہ بیوروکریسی کی سازش کو قرار دیا اور الزام عائد کیا کہ بیوروکریسی اپوزیشن سے مل گئی ہے تاکہ اس حکومت کو بدترین ناکامی سے دو چار کیا جائے چونکہ یہ حکومت معاملات کو گفت و شنید کے ذریعے سلجھانے کی صلاحیت سے عاری ہے اس لئے وہ چاہتی ہے کہ مذاکرات کا کام بھی حکام بالا کریں وزیراعظم کو غلط مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ سارا زور فرار نواز شریف کو واپس لانے پر لگادیں حالانکہ لندن میں نوازشریف اور نیب کی حراست میں شہبا ز شریف سے ملاقاتوں اور رابطوں کا سلسلہ جاری ہے حکام نے چند روز قبل خواجہ آصف اور احسن اقبال کو شہباز شریف سے ملاقات کی اجازت دی شہباز شریف نے ملاقات کے دوران اپنے بھائی کیلئے اہم پیغام دیا تاہم نواز شریف عمران خان کی حکومت تک واپس آنے کیلئے تیار نہیں ہیں انہوں نے اس دوران زبردست عالمی رابطے کئے ہیں بتایا جاتا ہے کہ نواز شریف کو سعودی عرب اور یو اے ای کی حمایت حاصل ہوگئی ہے یہ دنوں ممالک کوشش کررہے ہیں کہ نئی امریکی انتظامیہ برطانیہ اور فرانس کو قائل کیا جائے کہ وہ نواز شریف کو دوبارہ اقتدار میں لانے کی راہ ہموار کریں نواز شریف کو معلوم ہے کہ اگر جوبائیڈن صدر بن گئے تو ان کی حمایت آصف علی زرداری کیلئے ہوگی جس کے قریبی دوستانہ تعلقات ہیں زرداری نے اپنی حکومت کے خاتمہ کے بعد صدر اوبامہ اور جوبائیڈن سے قریبی تعلقات استوار رکھے تھے وہ وائٹ ہاؤس کے اکثر ناشتوں میں حاضری دیتے تھے ایک اور اہم بات یہ ہے کہ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کے بھی خاندانی تعلقات آصف علی زرداری سے ہیں اگرچہ وہ نواز شریف کو یوکے سے نہیں نکالیں گے لیکن وہ ہر دو تین ماہ بعد زرداری کو ٹیلی فون کال کرتے ہیں اور ان کی خیریت دریافت کرتے ہیں بورس جانسن نے انہیں کئی مرتبہ علاج کی غرض سے لندن آنے کی دعوت دی ہے لیکن مقدما ت اور اسیری کی وجہ سے زرداری باہر نہیں جاسکتے یعنی مستقبل کی قیادت کیلئے ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں ایک اندرونی چپقلش بھی موجود ہے جو آئندہ چل کر شارپ بھی ہوسکتا ہے زرداری میں یہ خاص بات ہے کہ وہ عمومی طور پر بڑھک نہیں مارتے انہوں نے آخری بڑھک اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کرکے ماری تھی جس کے بعد نواز شریف نے ان سے کنارہ کشی کرلی تھی اور وقت دینے کے باوجود وہ ملاقات پر راضی نہیں ہوئے تھے کیونکہ انہیں حکام بالا سے تعلقات خراب ہونے کا ڈر تھا چنانچہ زرداری نے فیصلہ کیا کہ وہ آئندہ محتاط ہوکر بات کریں گے اور نواز شریف پر کبھی بھروسہ کرکے نہیں چلیں گے یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم کے حوالے سے زرداری اور بلاول کے اپروچ میں فرق ہے ن لیگ کے بارے میں چوہدری اعتزاز احسن کا جو موقف ہے اندر سے زرداری کا بھی وہی موقف ہے زرداری کو بہلاپھسلا کر حکام بالا نے بلوچستان میں ن لیگ کی حکومت ختم کرنے اور چیئرمین سینیٹ کیلئے ایک غیر سیاسی شخص صادق سنجرانی کی حمایت پر آمادہ کیا تھا لیکن اس کے بدلے میں انہیں کوئی رعایت نہیں دی گئی تھی چنانچہ اس کے بعد سے وہ محتاط ہیں اور آج کل اسپتال کے پرتعیش کمرے میں شطرنج کھیلتے ہیں وہ سیاست کو بھی شطرنج کا کھیل سمجھتے ہیں اورکرداروں کو مہرہ سمجھ کر مات دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں