"پاکستان کا قانونی نظام”

تحریر: بلاول ساجدی
قانون بنانےکا مقصد یہ ہوتا ہے۔ کہ عوام کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ عوام کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ ملک کو دہشتگردی اور لوٹم وغیرہ کی وارداتوں سے پاک کیا جائے۔ کہنے کو پاکستان میں مدینہ کی ریاست کی بات ہورہی ہے۔ مگر یہاں کے حکمران شاہد یہ بھول چکے ہے کہ ریاست مدینہ میں انصاف کیسے ہوتا تھا۔ شائد وہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ کے انصاف کو بھول چکے ہیں۔ یا انکے انصاف کرنے کے طریقہ کا انکو کوئی علم نہیں ہے۔
پاکستان کا قانونی نظام شروع دن سے خراب تھا اور اب تک خراب ہے۔ یہاں قانون غریبوں اور لاچاروں کے لیے بنا ہوا ہے۔ امیر لوگوں کے لیے کوئی قانون نہیں ہے۔ انکا جب جو چاہے وہ کریں۔ اور ہر روز قانون کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں۔ قانونی نظام میں پاکستان میں سب سے پہلے پولیس کا نظام بد ترین حالات کا شکار ہے۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ پاکستان کا وجود اسلام کے نام پر ہوا ہے۔ مگر یہاں اسلامی اصولوں کاپابند کوئی بھی نہیں ہے۔ اسلام نے رشوت دینے اور لینے والے یعنی دونوں کو جہنمی قرار دیا ہوا ہے۔ مگر پاکستان کی پولیس رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں کرتی ہے۔ انکے پاس جب کوئی بھی شخص اپنی عرضی لے کر جاتا ہے FIR درج کرنے کے لیے انکے منہ سے پہلے یہی الفاظ نکلتے ہے چائے پانی دو۔ چائے پانی کا مطلب رشوت دو پھر FIR درج ہوگا ورنہ نہیں۔
جب پولیس کسی عام شخص کی عرضی پر کسی طاقتور انسان کے خلاف FIR درج کرتا ہے۔ تو اس FIR میں اس طرح کے معاملات درج کرتا ہے۔ وہ FIR ایک غیر معمولی FIR ہو جاتی ہے۔ اور طاقتور مجرم کو اس FIR سے کوئی فرق تک نہیں پڑ تا ہے۔ اور جسکے ساتھ ظلم ہوا ہوتا ہے۔ وہ بیچارہ کچھ بھی نہیں کر پاتا ہے۔
اگر پولیس کسی مجرم کو رنگے ہاتھوں پکڑ بھی لیتی ہے۔ اس سے رشوت لے کر اسکو بغیر FIR کے چھوڑ دیتے ہیں۔ پولیس کے اس کارنامے سے مجرم کو سزاء کے بدلے الٹا شئے مل جاتا ہے۔ اور وہ مجرم معاشرے میں اپنے غلط کاموں کا دندا زیادہ گرم کر دیتا ہے۔
پولیس کے بعد ہمارا عدالتی نظام کا حال بھی بہتر نہیں ہے۔ عدالتوں میں لوگ انصاف کے لیے اپنی جوانی سے بڑھاپے تک انتظار کرتے رہتے ہیں۔ مگر انصاف نہیں ملتا ہے۔ ایک چھوٹا سا کیس بھی کہیں سالوں تک چلتا رہتا ہے۔ اسکا کوئی فیصلہ نہیں ہوتا ہے۔ اور جب فیصلہ ہوتا بھی ہے تو غلط فیصلہ ہوتا ہے۔ مجرم کو قانون سے سزاء نہیں ملتی ہے۔ قاتل کو پھانسی کی سزاء نہیں ملتی ہے۔ چور کے ہاتھ کاٹ نہیں دیئے جاتے ہیں۔ اس لیے آج پاکستان بدترین حالات کا شکار ہوگیا۔ پاکستان میں قانونی نظام جس دن ٹھیک ہو جائے گا اس دن پاکستان کی قسمت خود بخود چمک اٹھے گی۔
اقتدار اعلیٰ کو چاہیے ملک بھر کےسب پولیس تھانوں میں کیمرے لگوادیں اور اسکی مکمل مانیٹرنگ کی جائے۔پولیس کی بہتر کارکردگی کو یقینی بنانے کے لیے ایک سرکاری کمیٹی تشکیل دی جائے۔کسی بھی پولیس تھانے میں کسی شخص کی بھی مدعیت میں FIRدرج کی گئی ہو۔ اس مدعی سے پولیس کے علاؤہ اس سرکاری کمیٹی کے ممبران بھی تفتیش کریں۔ اور عدالتوں میں ہر کیس کی ایک مکمل وقت مقرر کیا جائے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے جائیداد کے کیس کا فیصلہ تین ماہ کے اندر ہو، قتل کا کیس کا فیصلہ دو ماہ کے اندر ہو۔ اس طرح سے ہر کیس کے لیے وقت مقرر کیا جائے۔ اتنی مدت میں کیس کا فیصلہ ہونا چاہیے۔
اگر فیصلہ مقرر شدہ وقت میں نہیں ہوا۔ اس کیس کے جج کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ اور اسلامی قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر جرم کی سزاء مقرر کیا جائے۔ پھر پاکستان سے دہشتگردی کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ یہاں تک کہ کرپشن کرنے والوں کی نیندیں حرام ہو جائینگی۔ کرپشن جڑ سے ختم ہو جائے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں