آنکھ مچولی
تحریر: انورساجدی
پاکستانی سیاست میں آنکھ مچولی جاری ہے مسلم لیگ (ن) کے سپریم لیڈر میاں نواز شریف نے پرعزم انداز میں اعلان کیا تھا کہ حکمرانوں سے کسی قسم کے مذاکرات نہیں کریں گے انہوں نے پارٹی رہنماؤں پر پابندی عائد کی تھی کہ وہ کسی سطح پر بھی حکمرانوں سے رابطے میں نہ رہیں ابھی اس اعلان کی بازگشت باقی تھی کہ ان کی دختر نیک اختر محترمہ مریم نواز نے بی بی سی کو ایک تہلکہ خیز انٹرویو دیا جس میں انہوں نے فوجی قیادت سے حکومت کو چلتا کرنے کی شرط پر بات چیت پر آمادگی ظاہر کر دی مخالفین اسے ایک پیارا سا خوبصورت سا ”یوٹرن،، کہہ رہے ہیں اس سے بظاہر ن لیگ کی ساکھ کو دھچکہ لگا ہے لیکن بادی النظر میں یہ ایک حقیقت پسندانہ بات ہے کیونکہ جب کوئی ٹیم ناکام ہوجائے تو اس کی تبدیلی کیلئے بات چیت کا مناسب فورم سلیکٹرز ہیں۔اگر پی ڈی ایم موجودہ حکومت کو ہٹانا چاہتی ہے تو کس سے بات کرے کیونکہ پاکستان میں کبھی آئین کے دائرہ کار کے اندر تبدیلی نہیں لائی جاسکتی آئین کی رو سے اگر کوئی حکومت ناکام ہوئے تو وہ استعفیٰ دے کر نئے انتخابات کی راہ ہموار کرتی ہے یا ان ہاؤس تبدیلی کا راستہ اختیار کرپڑتا ہے لیکن یہاں اس کی روایت نہیں ہے حکومتیں جس طرح انجینئرنگ کے ذریعے لائی جاتی ہے اسی طرح غیر آئینی طریقے سے رخصت کی جاتی ہیں۔ایک اہم بات یہ ہے کہ اس دنیا میں ٹرمپ اور عمران خان جیسے حکمران موجود ہیں جو انتخابات میں شکست تسلیم نہیں کرتے اگر وہ ریاست چلانے میں فیل ہوجائیں تو اپنی ناکامی نہیں مانتے۔بیڈ گورننس کی وجہ سے معیشت تباہی سے دوچار ہوتو بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہو گئی ہے یہ وہ لوگ ہیں جو خرابیوں کو دلیل منطق،حکمت عملی اور ڈائیلاگ کے ذریعے حل کرنے پر یقین نہیں رکھتے اس لئے ان لوگوں سے معاملہ کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔اس لئے انہیں لاناتو آسان ہوتا ہے لیکن گھر بھیجنا مشکل ہوتا ہے جیسے کہ وزیراعظم عمران خان کا تکیہ کلام ہے کہ نہیں چھوڑوں گا سب کو جیلوں میں ڈال دوں گا لیکن عملی طور پر صرف ایک انتقامی صورت نظر آتی ہے ایسے لگتا ہے کہ حکومتی اکابرین بڑے پارسا اور دودھ کے دھلے ہیں وہ جو بھی کریں مجال ہے جو نیب ان پر ہاتھ ڈالے تمام ادارے چینی اور آٹا سکینڈل پر خاموش ہیں حالانکہ اس سکینڈل کے ذریعے چار کھرب کا نقصان ہوچکا ہے اس صورت حال میں صرف سلیکٹرز ہی ٹیم کو بدل سکتے ہیں اور اس کے لئے موثر مذاکرات کا ذریعے اختیار کیا جاسکتا ہے۔یہ جو ن لیگ نے بات چیت سے انکار کا اعلان کیا تھا اس کا مقصد دباؤ مزید بڑھانا تھا اسے سیاسی کھیل یا سادہ لفظوں میں منافقت کا نام دیا جاسکتا ہے جب کہ پارٹی رہنماء اسے لازمی طور پر سیاسی چال کا نام دینگے لیکن حقیقت یہ ہے کہ رابطے جاری ہیں۔ بیک ڈور چینل متحرک ہے اسلام،لاہور اور لندن میں پیغامات کا تبادلہ ہورہا ہے۔یہ بات ماننے کی ہے کہ سلیکٹرز بہت صبر وتحمل اور سلیقے سے معاملات کو ڈھیل کررہے ہیں۔مریم کے ساتھ جوواقعہ کراچی میں ہوا اس کی انکوائری مکمل ہوگئی ذمہ دار اہلکاروں کے خلاف تادیبی کارروائی بھی کی گئی اور یوں معاملہ نمٹا دیا گیایہ الگ بات ہے کہ میاں نواز شریف نے اس انکوائری کی رپورٹ اور اس کے نتیجے میں ہونیوالی کارروائی کو مسترد کردیا یہ بھی دباؤ بڑھانے کا ایک طریقہ تھا کیونکہ پاور گیم میں فریقین ایک دوسرے پر دباؤ بڑھاتے رہتے ہیں تمام تر قصے میں سب سے اہم بات مریم بی بی کا وہ انٹرویو ہے جو انہوں نے پاکستانی چینل کو تین روز پہلے دیا ہے جس میں انہوں نے بعض افسوسناک انکشافات کئے ہیں اور پہلی دفعہ کہا ہے کہ دوران حراست ان کے ساتھ کیا سلوک ہوا تھا۔انہوں نے الزام عائد کیا ہے کہ نیب حکام نے ان کے کمرے اور واش روم میں کیمرے نصب کررکھے تھے جب کہ ان کے ساتھ بہت زیادتی کی گئی یہ تک کہا کہ اگر میں دنیا کو بتا دوں تو یہ لوگ منہ دیکھنے کے قابل نہیں رہیں گے۔اگر چہ اس سنگین الزام سے بہت کچھ اخذ کیا جاسکتا ہے لیکن پھر بھی بات پوری طرح واضح نہیں ہے۔مریم کو چاہیے کہ ان کے ساتھ جو ناروا سلوک ہوا تھا وہ اپنی پارٹی اور عوام کو بتا دیں تا کہ دنیا کو پتہ چلے کہ اس ملک میں سیاسی مخالفین کے ساتھ کیا کیا بہیمانہ اور تضحیک آمیر سلوک ہوتا ہے
اگر ہو سکے تو چیف جسٹس آف پاکستان اس الزام پر از خود نوٹس لیں اور معاملہ کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کروائیں تاکہ ذمہ داروں کا تعین ہوسکے اور ان کو جرم کے مطابق سزا مل سکے۔
ماضی میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں محترمہ بے نظیر بھٹو پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے گئے تھے مارشل کی کال کوٹھڑیوں میں اتنا تشدد کیا گیا تھا کہ ان کے کانوں کے پردے پھٹ گئے تھے اور وہ سکھر جیل میں زندگی سے دور موت سے قریب پہنچ گئیں تھی۔لاہور میں ایک ریلی کے دوران حکام نے محترمہ نصرت بھٹو کو لہو لہان کردیا تھا ان کے سر پر چوٹیں آئی تھیں جس کے بعد وہ کبھی نارمل زندگی نہیں گزار سکیں یہ پہلا موقع ہے کہ پنجاب کی ایک بیٹی کے ساتھ جو کہ ایک بڑی جماعت کی لیڈر ہیں پنجاب ہی کی جیلوں اور نیب کی حراست کے دوران توہین آمیز رویہ اپنایا گیا ہے چونکہ بات ہی حساس اور نازک ہے اسی لیئے اس کی تہہ تک جانا مناسب نہیں البتہ انصاف کا تقاضا ہے کہ جن لوگوں نے پنجاب کی بیٹی کے ساتھ ناروا سلوک کیا انہیں معاف نہیں کیا جائے۔باقی ملک کی خیر سندھ اور بلوچستان میں خواتین کے خلاف ہتک آمیز سلوک نئی بات نہیں ہے حتیٰ کہ یہ ڈاکٹر شازیہ خالد کی توہین پر نواب اکبر خان نے احتجاج کیا اور اتنا احتجاج کیا کہ انہیں پہاڑوں کا رخ کرناپڑا اور ایک فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے انہیں بمباری کر کے شہید کردیا ڈاکٹر شازیہ کے معاملہ میں ریاست نے نہایت بے انصافی اور جانب داری سے کام لیا اور ثابت کیا کہ شازیہ خالد قوم کی بیٹی نہیں ہے اس واقعہ کے بعد جو تباہی آئی حکمرانوں نے اس کا ادراک نہیں کیا اگر چہ ڈاکٹر شازیہ کو وہ فضیلت حاصل نہیں جو محترمہ مریم کو ہے اس کا تعلق کسی بھی پارٹی سے نہیں تھا اگر حکمرانوں نے اس کے معاملہ پر توجہ نہیں دی تو کل کلا ں ن لیگ دوبارہ اقتدار میں آئے گی اور جن لوگوں نے مریم کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا ان کو سرکاری اورعوامی سطح پر عبرتناک سزائیں دیگی بہتر ہے کہ حکمران خود اس کا نوٹس لیں اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کریں اس واقعہ میں ایک سبق پوشیدہ ہے اور وہ سبق میاں نواز شریف اور مسلم لیگ ن کے لئے ہیں 18ویں ترمیم کی منظوری کے وقت میاں صاحب نے نیب کے اختیارات کو کم کرنے کی ترمیم کی مخالفت کی تھی جبکہ آئین کی دفعہ62‘63کو بھی نکالنے نہیں دیا یہ مکافات عمل ہے کہ میاں صاحب اسی قانون کی وجہ سے اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے،نااہل ہوئے اور جیل میں گئے نیب کی وجہ سے پورا شریف خاندان زد میں ہے ن لیگ مانتی ہے کہ اس سے غلطی ہوئی تھی توقع ہے کہ یہ جماعت آئندہ ایسی فاش غلطیاں نہیں کریگی۔
بہر حال مقابلہ جاری ہے حکومت کو ہٹانے کے لئے پی ڈی ایم نے دباؤ بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے حکومت کوشش کررہی ہے کہ کرونا کو جواز بنا کر پشاور اور لاہور میں پی ڈی ایم کے جلسے نہ کرنے دیں اگر مولانا بضد ہوگئے تو محاذآرائی تصادم میں بدل سکتی ہے۔سنا ہے کہ مولانا سے کہا گیا ہے کہ وہ حکومت ہٹانے کے لئے آئینی راستے اختیار کریں یعنی قومی اسمبلی کے اندر عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی جائے یہ یقین دہانی بھی کروائی گئی ہے کہ اس تحریک کے دوران غیر جانبداری اختیار کی جائے گی تاہم یہ ایک پر خطر راستہ ہے کیونکہ 1990میں محترمہ بے نظیر کی اکثریت بھی6ووٹوں پر مشتمل تھی لیکن آئی جے آئی اپنی عدم اعتماد کی تحریک کو کامیاب نہیں کرواسکی تھی کیونکہ حکومت کے پاس اراکین کو اپنے کیمپ میں لانے کے لئے وسائل ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ حکومت تحریک عدم اعتماد سے پہلے ن لیگ کو توڑنے کی کوشش کررہی ہے۔اگر ن لیگ یا پیپلزپارٹی کی اراکین پارلیمنٹ ٹوٹ گئے تو یہ تحریک پیش ہونے سے پہلے ناکام ہوجائے گی حکومت نے تحریک کے خوف سے الہیٰ برادران کے خلاف ریفرنس واپس لئے ہیں۔ق لیگ کی قیادت بہت ناراض ہے حکومت کی صلاحیت کا یہ عالم ہے کہ چوہدری برادران کو منانے کے لئے شیخ رشید کو گجرات بھیج دیا گیا ہے اگر سلیکٹرز ساتھ ہوئے تو چوہدری برادران حکومتی کیمپ نہیں چھوڑیں گے البتہ اشارہ ہوا کہ ن لیگ ٹوٹنے کے باوجود چوہدری براداران حکومت کا ساتھ نہیں دینگے جس کی نتیجے میں حکومت کو بڑا دھچکہ لگے اس کی کوشش ہے کہ اس کا اتحاد آخر تک برقرار رہے تا کہ سینیٹ کے انتخابات میں اسے کامیابی ملے جس کی نتیجے میں اپوزیشن کی تحریک اپنی موت آپ مرجائے گی جس کے نتیجے میں اپوزیشن کو بڑا زور لگانا پڑیگا ورنہ 2023تک عام انتخابات کا انتظار کرنا پڑیگا جس کے لئے ذہنی طور پر مولانا صاحب تیار نہیں ہیں چنانچہ تبدیل شدہ حالات میں پی ڈی ایم کو اپنی حکمت عملی تبدیل کرنا پڑیگی کیونکہ جلسوں اور ریلیوں سے حکومت جانے والی نہیں ہے۔اپوزیشن ایک ہی دفعہ زور لگا کر لانگ مارچ کرے اور ڈی چوک پر دھرنا دیں پایہ تخت میں ایک بہت بڑا اور موثر دھرنا ہی حکمرانوں کو تبدیلی لانے پر مجبور کرسکتا ہے جس کے لئے پیپلزپارٹی کو ساتھ رکھنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اگر دھرنا ناکام ہوا تو پیپلزپارٹی سراسر خسارے میں رہے گی اسے سندھ حکومت سے ہاتھ دھونا پڑے گا البتہ اگر گلگت بلتستان میں پیپلزپارٹی کی ممکنہ کامیابی کو تحریک انصاف کے حق میں بدلنے کی کوشش کی گئی تو یہ جماعت ایک اور حکمت عملی اختیار کریگی۔پی ڈی ایم کا یہ حال ہے کہ جی بی میں پی پی اور ن لیگ ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں اگر وہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرتے تو تحریک انصاف کی کامیابی یقینی نہ ہوتی اسی طرح یہ معلوم نہیں کہ مولانا کے ووٹرز کس کے حق میں ووٹ دالیں گے کم از کم اس بارے میں وقت پر فیصلہ کیا جاتا۔
پی ڈی ایم کے پاس وقت کم ہے جب کہ مقابلہ سخت ہے اس کے پاس صرف دسمبر اور جنوری کا ٹائم ہے جس کے بعد وقت اس کے ہاتھوں سے نکل سکتا ہے۔