جارجیا میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی، بائیڈن کی کاميابی کی تصديق

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ریاست جارجیا میں ووٹوں کی گنتی میں دھاندلی کے الزامات کے بعد حکام نے ووٹوں کی مشین کے بجائے اس بار ہاتھوں سے دوبارہ گنتی کی۔ نتيجہ اس بار بھی بائیڈن کے حق ميں آيا۔
امریکی ریاست جارجیا میں اليکشن کمیشن کے حکام کا کہنا ہے کہ ووٹوں کی دوبارہ گنتی سے بھی اس بات کی تصدیق ہو گئی ہے کہ رائے دہندگان کی اکثریت نے آئندہ صدر کے طور پر جو بائیڈن کا انتخاب کیا۔ سابقہ گنتی میں جو بائیڈن کو ریاست کے 16 الیکٹورل کالج ووٹ حاصل ہوئے تھے اور اس بار ہاتھوں سے گنتی کرنے کے بعد بھی نتيجہ يہی رہا۔
امريکا کی جنوبی ریاست جارجیا میں کافی عرصے بعد کوئی ڈیموکریٹک امیدوار کامیاب رہا۔ اس سے پہلے سن 1992 میں بل کلنٹن اس ریاست میں کامیاب ہوئے تھے اور تب سے یہاں ری پبلکنز کا غلبہ رہا ہے۔ جارجیا میں پہلی بار کی گنتی میں بائیڈن کو ٹرمپ کے مقابلے میں تقریبا ً14 ہزار ووٹ زیادہ ملے تھے اور دوبارہ ہاتھ سے گنتی کرنے سے بھی جیت کا فرق 12,248 ووٹوں کا بتایا گیا۔
اگر جارجیا میں بائیڈن کامیاب نہ ہوتے تو بھی قومی سطح پر انہیں الیکٹورل کالج میں ٹرمپ پر اتنی سبقت حاصل تھی کہ وہ صدارتی اليکشن میں کامیاب مانے جاتے۔ خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق اب جارجیا میں بھی کامیابی کی تصدیق ہونے کے بعد بائیڈن کے الیکٹورل کالج ووٹوں کی مجموعی تعداد 306 ہو گئی ہے جبکہ ٹرمپ کے الیکٹورل کالج ووٹوں کی تعداد 223 ہے۔ جیت کے لیے 270 الیکٹورل کالج ووٹ درکار ہوتے ہيں۔
لیکن الیکشن حکام کے اس اعلان سے قبل ہی صدر ٹرمپ نے پھر یہ دعوی کر دیا ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی جارجیا کے انتخابی نتائج میں دخل اندازی کرتے ہوئے پکڑی گئی۔ حالانکہ انہوں نے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیے۔ ان کا کہنا تھا، ”جارجیا میں اس بار تقریباً ایک بھی بیلٹ مسترد نہیں کیا گیا جبکہ گزشتہ انتخابات میں چار فیصد مسترد کر دیے گئے تھے۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے۔”
ریاست جارجیا کو جمعہ 20 نومبر تک ووٹوں کی دوبارہ گنتی کر کے نتائج کی تصدیق کی کرنی تھی۔ اس کے بعد چونکہ ہار جیت کا فرق صرف صفر اعشاریہ پانچ فیصد ہے اس لیے ریاستی قانون کے مطابق ہارنے والی جماعت کو پھر دو روز کا مزید وقت دیا جاتا ہے تاکہ اگر وہ چاہے تو ان دو دنوں کے اندر پھر سے گنتی کرانے کی درخواست دائر کر سکتی ہے۔
جارجیا میں پہلے ووٹوں کی گنتی مشین سے ہوئی تھی اور تنازعے کے نتيجے ميں ریاستی قانون کے مطابق ووٹوں کو دوبارہ ہاتھ سے گنا گیا۔ ریاست میں ری پبلکن پارٹی کے سيکریٹری براڈ ریفس پینجر نے بھی ان نتائج کا خیر مقدم کیا۔ انہوں نے کہا کہ تاریخی طور پر جارجیا میں پہلی بار دوبارہ ہاتھ سے ووٹوں کی گنتی کی گئی، ’’اس سے بھی اسی بات کی تصدیق ہو گئی کہ ریاست میں بیلٹ پیپرز ووٹ کے اعداد و شمار کا جو محفوظ نظام ہے، اس نے کس درستگی سے گنتی کی اور نتائج کو رپورٹ کیا۔‘‘
چونکہ مشین اور ہاتھ سے گنتی میں کوئی زیادہ فرق نہیں رہا اور دونوں کے نتائج تقریباً ایک جیسے ہیں اس لیے حکام کے مطابق اگر دوبارہ گنتی کی ضرورت پڑتی ہے تو پھر مشین سے کی جائے گی۔ اس دوران ریاست میں انتخابی نتائج سے متعلق ایک مقدمے کی بھی سماعت ہونی ہے۔
ایک قدامت پسند وکیل نے نتائج کا سرٹیفیکیٹ نہ جاری کرنے کے لیے جارجیا کی اعلی عدالت سے رجوع کیا ہے۔ ان کا الزام ہے کہ ریاست نے اس برس کے اوائل میں غیر حاضر بیلٹ سے نمٹنے کے عمل میں غیر قانونی طور پر بعض اہم تبدیلیاں کی تھیں۔
صدر ٹرمپ کی ٹیم نے نتائج سے متعلق کئی ریاستوں میں مہم چھیڑ رکھی ہے تاکہ ان میں تبدیلی کی گنجائش نکل سکے۔ کئی ریاستیں پہلے ہی ان کے دعوے مسترد کر چکی ہیں جبکہ دیگر میں اس حوالے سے ابھی تک کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی۔ مشیگن میں بھی ٹرمپ کی ٹیم نے قانونی چارہ جوئی کر رکھی تھی جسے اب ان کی ٹیم نے واپس لے لیا ہے۔
لیکن مقدمہ واپس لینے کے چند گھنٹے بعد ہی ٹرمپ نے ریاستی مقننہ کے اراکین کو وائٹ ہاؤس آنے کی دعوت دی تاکہ وہ انتخابی نتائج کے حوالے سے ان سے بات چیت کر سکیں۔ اطلاعات کے مطابق ری پبلکن پارٹی کے دو سینیئر ارکان ان سے ملنے کے لیے وائٹ ہاؤس جانے پر متفق ہو گئے، لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں کہ آخر ان کی بات چیت کا موضوع کیا رہا۔
ریپبلکن پارٹی کے ریاستی نمائندوں نے بھی ابتدا میں جو بائیڈن کی جیت کی تصدیق کر دی تھی لیکن بعد میں وہ اپنے موقف سے پلٹ گئے اس لیے کاؤنٹی نے سرٹیفیکٹ برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔
ریاست مشیگن میں 16 الیکٹورل کالج ووٹ ہیں۔ سن 2016 میں اس ریاست میں ٹرمپ کو کامیابی ملی تھی لیکن اس بار جو بائیڈن کو کامیاب قرار دیا گیا ہے۔ ریاستی حکام کا کہنا ہے کہ نتائج سے متعلق قوانین اور اصول و ضوابط پر عمل کیا جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں