گوادر۔۔۔ہمارے مستقبل کا سوال


    یلان زامرانی

گوادر بلوچ وبلوچستان کی ملکیت ہے،کبھی گوادر ڈے مناکر یہ تاثر دیاجاتا ہے کہ گوادر ہم نے خریدا ہے اور عمان قبضہ گیر تھا،نہ عمان قبضہ گیرتھا نہ گوادر کو کسی نے خریدا ہے،گوادر بلوچ وبلوچستان کی ملکیت ہے جسے بلوچ حکمرانوں نے اپنے دوست عمان کے بادشاہ کے بیٹے کو بطور تحفہ دیاتھاکہ جب تک آپ کیلئے حالات سازگار نہ ہوں آپ گوادر میں بیٹھیں اور آج بھی گوادر کے کئی شہری اور بلوچ عمان میں رہائش پزیر ہیں،گوادر کیخلاف سازشیں نصف صدی سے درپردہ چل رہی ہیں اور حکمرانوں ومقتدر قوتوں کی خواہش ہے کہ وہ ساحل بلوچ پر اپنی عیاشیوں کے اڈوں کو آباد کریں سی پیک کے نام پر تربت سے لیکر گوادر تک زمینوں کو بیچا جارہاہے اور گوادر کو سیف سٹی کے نام پر باڑ لگائی جارہی ہے تاکہ وہاں سامراجی طاقت چین کے ساتھ ملکر بلوچ قوم کو بے دخل کر کے انسانی آزادی کو پنجرے میں بند کردیاجائے،ریاست اگر واقعی ماں ہے تو کیا وہ ماں ایسی ہی بے رحم ہوگی؟یقینا ماں قابض بن کر بیٹوں کے سروں پر قہر الہٰی نہیں بنے گی۔
گوادر پر طاقتور قوتوں کی نظریں لگی ہیں جبکہ موجودہ سلیکٹڈ حکومت جو بلوچستان پر قہر الہٰی کی طرح مسلط کردی گئی ہے اس کامقصد ہی یہی تھاکہ اپنے پرانے لوٹوں کو یکجاہ کرکے پارٹی بنائی جائے اور من پسند عزائم کی تکمیل کی جائے۔ان حالات میں ناکوئی مڈل کلاس ہے ناقوم پرست،ناکوئی ملاہے نا سیکولر ناکوئی ادیب وشاعر ہے نا مسجد کاموذن وامام بلکہ اللہ تعالی کی قانون کے تحت وسائل کی بے رحمانہ لوٹ مار اور قبضہ گیریت کے خلاف تمام سیاسی ومذہبی قیادت کو یکجاہ ہوکر سد سکندری کا کردار ادا کرنا ہوگا اور گوادر وساحل بلوچستان سمیت بلوچ قوم کیلئے آنے والے چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہوگا۔اخترجان مینگل،ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سمیت دیگر جتنی بھی بلوچ قیادت ہے انہیں ان عزائم کے خلاف متفقہ جدوجہد کرنے کا اعلان کرنا چاہئے اور بیانات وچھوٹے موٹے احتجاج کی حدسے آگے بڑھ کر موثر احتجاج کرنا چاہیے۔اس سے پہلے دہشت گردی اور امن وامان کے نام پر تربت اور گوادر وپنجگور ودیگر ایریاز کو ایرانی بلوچستان سے متصل سرحد کے نام پر باڑ لگاکر بلوچ قوم کو معاشی طورپر کمزور کرکے بھوک سے تباہ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ان حالات میں اگر سیاسی قیادت نے سنجیدگی اور اعلی ظرفی کا ثبوت نہیں دیا تو یہ ناقابل معافی جرم ثابت ہوگی۔جبکہ عام بلوچ کوبھی ان حالات میں نہیں دیکھنا چاہیے کہ وہ کسی سیاسی جماعت کی طرف دیکھیں اگر سیاسی جماعتوں نے اقتدار کی خاطر آنکھیں چرالیں تو اپنی مدد آپ تحریک چلاکر اس رویے کے خلاف موثر کردار ادا کرسکتے ہیں اور اگر کسی جماعت یا سیاسی قیادت نے احتجاج کی کال دی تو سب کو لبیک کہنا چاہیے اور سیاسی عصبیت کی پٹی آنکھوں سے اتار پھینکنی چاہئے کہ ہمارے مستقبل کاسوال ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں