سینیٹ الیکشن میں حصہ لینے کا مشورہ
سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری نے میڈیا اطلاعات کے مطابق پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور مسلم لیگ نون کے تاحیات رہبر محمد نوازشریف سے ٹیلی فونک رابطہ کیاہے اوردونوں رہنماؤں سے کہا ہے کہ سینیٹ انتخابات سے قبل استعفے نہ دیئے جائیں۔انہوں نے کہا کہ ہم ضمنی انتخابات کے بائیکاٹ کے حق میں بھی نہیں۔انہوں نے بااصرار کہا ہے کہ پی ڈی ایم اگر الیکشن لڑے تو 15سے زائد نشستیں حاصل کرسکتی ہے،بصورت دیگریہ سیٹیں حکمراں جماعت کو ملیں گی۔ اطلاعات مطابق نواز شریف نے یہ مشورہ ماننے سے انکار کردیاہے،وہ سمجھتے ہیں کہ پی ڈی ایم کی جانب سے اتنی بڑی تعداد میں استعفے دیئے جائیں تو حکومت کے لئے سینیٹ انتخابات کرانا مشکل ہو جائے گا۔مولانافضل الرحمٰن نے کہا ہے:اس حوالے سے فیصلہ پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس کر سکتا ہے۔ تنہا کوئی پارٹی نہیں کر سکتی۔واضح رہے کہ پی پی پی 11جماعتی اتحاد کی دو بڑی پارٹیوں میں سے ایک ہے۔اگر اس نے پی ڈی ایم کے سامنے استعفے نہ دینے اور سینیٹ الیکشن میں حصہ لینے کا مسئلہ مدلل انداز میں سربراہی اجلاس میں اٹھایا تو توقع کی جا سکتی ہے کہ اکثریت اس مؤقف کی حمایت کرے گی۔سینیٹ میں پی ڈی ایم کی نمائندگی کافی حد تک سکڑجائے گی۔ مسلم لیگ نون ایک محتاط اندازے کے مطابق 7کے لگ بھگ سیٹیں جیت سکتی ہے۔پی پی پی کے پاس سندھ میں بھاری اکثریت ہے، وہ نہیں چاہے گی سینیٹ میں نمائندگی ملنے کے اس موقع کو ضائع کرے۔دوسری جانب پی ڈی ایم قائدین نے مردان ریلی سے خطاب کے دوران حکومت کی کارکردگی پر شدید تنقید کی اور حکومت کا تختہ الٹنے تک چین سے نہ بیٹھنے کے عزم کا اظہار کیا۔مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ حکومت کو لانے والوں نے کہہ دیا ہے ہمیں کچھ نہ کہو، تم جانو، حکومت جانے۔مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز نے حکومت سے سوال پوچھا ہے کہ اگر حکومت چلانے کی تیاری نہیں تھی تو شیروانی پہننے کی جلدی کیوں کی؟ ایسے جذباتی تناظر میں جے یوآئی اورنون لیگ کے لئے آسان نہیں ہوگا کہ آصف علی زرداری کا مدبرانہ سیاسی مشورہ مان لیں۔ اسی بناء پرایک نے بڑی تعداد میں استعفوں کا ذکر کیا اور دوسرے نے پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں معاملہ رکھنے کاراستہ بتایا۔ اس کے معنے یہی ہوتے ہیں کہ استعفے دینے اور نہ دینے کے سوال پر اگراتفاق رائے نہ ہو سکا تو پی ڈی ایم موجودہ شکل میں قائم نہیں رہ پائے گی۔ ویسے بھی یہ اتحاد اپنی تشکیل کیآغاز سے ہی متعدد مشکلات کا شکار ہے۔ یاد رہے کہ نون لیگ کے سپریم لیڈر محمد نوازشریف کے ”بیانیے“ پر جمیعت ابھی تک دو خانوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ”بیانیے“ والے اختلاف کے آفٹر شاکس جے یو آئی کے اندرابھی تک محسوس کئے جارہے ہیں۔جمیعت کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن پر ان کے پرانے ساتھی سنگین نوعیت کے الزامات عائد کر رہے ہیں۔ابھی دیکھناہے کہ مولانا جمیعت کی اندرونی بغاوت سے کیسے نمٹیں گے۔یہ ایک فرد یا پارٹی رکن کی ناراضگی کا معاملہ نہیں،بڑی تعداد میں سینئر اراکین نے جمیعت کے دستوراور اجتماعی فیصلوں کی خلاف ورزی کی شکایت کی ہے۔ناراض اراکین کسی ایک صوبے تک محدود نہیں۔اس مرتبہ ان کے عزائم سے یہی نظر آتا ہے کہ بات دور تک جائے گی۔ایک آدھ رکن کی ناراضگی ہوتی توقابو پانا مشکل نہ ہوتا۔ اب دوسرا بڑا اختلاف استعفے دینے یانہ دینے کی شکل میں ابھرا ہے۔پی ڈی ایم کی ہیئت اور مستقبل کی حکمت عملی پر اس کے دوررس نتائج اور اثرات مرتب ہوں گے۔اغلب امکان ہے کہ پی ڈی ایم کی بعض دوسری جماعتیں بھی پی پی پی کی رائے کا ساتھ دیں گی۔اکثریتی فیصلہ نہ مانا گیا اور اتفاق رائے کا تقاضہ کیاگیا تو پی ڈی ایم کی بقاء کوخطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔اس میں کسی شک کی گنجاش نہیں کہ پی پی پی کی قیادت جو لائحہ عمل طے کرے گی، اپنے مفادات کی روشنی میں کرے گی۔ جمیعت اور نون لیگ کو سینیٹ الیکشن کے حوالے سے کوئی فیصلہ کرنے میں جلد بازی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے دانشمندی اور تحمل سے کام لینا ہوگا،کوشش کی جائے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی بچ جائے۔سیاست میں ہروقت چومکھی لڑائی کے لئے تیار رہنا ہوتا ہے۔ہمیشہ یاد رہے کہ دشمن کمزور نہیں ہوتا، بچگانہ نعرے سامعین سے تالیاں بجوانے سے زیادہ کام نہیں آتے۔حکومت گرانا ایک سنجیدہ حکمت عملی اور عوامی رضامندی کا تقاضہ کرتی ہے۔زمینی حقائق کو نظر انداز کرکے اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل کی منصوبہ بندی کے ذریعے وہی کچھ حاصل ہوتا ہے جو آج کل پی ڈی ایم کی قیادت دیکھ رہی ہے۔بعض مبصرین کا خیال ہے آنے والے ہفتوں میں پی پی پی کی مصروفیات کارخ بختاور بھٹو زردار کی شادی کے انتظامات کی جانب رہے گا۔ اسباب کچھ بھی ہوں، سچ یہی ہے کہ ہماری سیاسی روایات میں نازک مزاجی کا عنصر غالب اور سنجیدگی اور دور بینی کا فقدان رہا ہے۔ تحریکیں ہمیشہ افرادکے خلاف چلائی گئیں۔”فلاں کو ہٹانے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے“ کانعرہ لگا جاتا رہاہے۔ جنرل ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق،بینظیر بھٹو، اور نواز شریف نامی افرادہمارے اہداف رہے۔ نظام بدلنے کا نعرہ صرف دو بار لگایا گیا۔پہلی مرتبہ پی پی پی کے منشور کی صورت میں،اسلام ہمارا مذہب ہے،جمہوریت ہماری سیاست ہے،سوشلزم ہماری معیشت ہے، اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔اور اس نعرے کی کشش عوام کوبھٹو کے گرد لے آئی،اور بڑے بڑے سیاسی برج الٹ گئے۔سیاست کا فرسودہ نظام زمین بوس ہوگیا۔پاسپورٹ غریب کے ہاتھوں میں پہنچا، اور آج جس زرمبادلہ کی مددسے بجٹ خسارے کا مقابلہ کیا جاتا ہے، وہ اسی پاسپورٹ کا دیاہواانمول پھل ہے۔ دوسری بار”نظام مصطفیٰ“ کے نعرے کی کشش نے اپنا اثردکھایا، عوام والہانہ انداز میں سڑکوں پر نکل آئے۔لیکن ”راشہ راشہ اصغر راشہ“ کا نعرہ بلند کرکے نظام مصطفیٰ لانے کا نعرہ پہلے کمزور کیا گیا پھر شخصیت کو متعارف کراتے ہوئے ایئرمارشل (ر)اصغر خان کانام بدل کرجنرل ضیاء الحق کی صورت میں پرانا والامارشل لاء نافذ کردیا گیا۔ماضی میں نظام مصطفی کے نام پر عوام کو دھوکہ دینے والوں کی باقیات آج ایک بار پھر شخصی تبدیلی کے لئے سڑکوں پر آگئی ہے۔مگر عوام محتاط اندازسے جانچ رہے ہیں کہ پی ڈی ایم کے اصل مقاصد کیا ہیں۔کیا نظام مصطفیٰ کے نام پر عوام کو دھوکہ دینے والوں کی باقیات عوام سے مخلص ہیں؟ جبکہ ان کی کارکردگی پر بھی ایک سے زائدسوالیہ نشان ہیں۔


