ڈینئل پرل کیس؛ عدالتی فیصلے پر امریکی تشویش
سندھ ہائی کورٹ نے امریکی صحافی ڈینئل پرل کے کراچی میں اغوا اور قتل کیس میں ملوث چار ملزمان کوطویل حراست ختم اور رہا کرنے کا فیصلہ سنایا ہے،امریکی وزارت خارجہ نے اس پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے اور حکومت پاکستان کی یقین دہانی کوقابل ِ اطمینان کہا ہے۔ حکومت سندھ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرے گی،امریکی دفتر خارجہ نے یہ بھی کہا ہے کہ اس انتہائی مشکل وقت میں پرل کے اہل خانہ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ دوسری جانب مقتول صحافی کے والد نے بھی کہا ہے سپریم کورٹ انصاف کرے گی۔ یہاں معاملہ غیر ملکی صحافی کے اغوا اور پراسرارقتل کا ہے۔جن دنوں یہ وقوعہ پیش آیا،پاکستانی عدالتوں میں موبائل فون جیسی جدید ٹیکنالوجی سہولت کو قانونی طور پر شہادتEvidence) (نہیں مانا جاتا تھا۔اس لئے قاتلوں کے خلاف استغاثہ مطلوبہ شواہد جمع کرنے میں ناکام رہتا تھا۔علاوہ ازیں با اثر قاتل قابل وکلاء کی خدمات حاصل کرکے قانونی سقم اور استغاثہ کی روایتی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ویسے بھی ہمارے ملک میں ماتحت عدالتوں کے دیئے گئے ایسے فیصلے بڑی تعداد میں موجود ہیں جو سپریم کورٹ نے ناکافی شہادتوں کی بنیاد پرنہ صرف تبدیل کر دیئے بلکہ ملزمان بھی بری ہوتے رہے ہیں۔لیکن ڈینئل پرل کیس کو عام کیسز سے مختلف اور ہائی پروفائل کیس کی حیثیت حاصل رہی اور یہی وجہ ہے کہ ملزمان عمر قید کی سزائیں پوری ہونے کے بعد بھی جیل میں قید ہیں۔عام آدمی کی دلی خواہش ہے کہ وہ پاکستانی عدالتوں کے فیصلوں کو عالمی معیار کے مطابق دیکھے اور کسی ملک کا دفترخارجہ کسی عدالتی فیصلے پر اپنی تشویش کا اظہار نہ کر سکے۔تاہم یہ پہلو اطمینان بخش ہے کہ سپریم کورٹ کے سسلین مافیا جیسے ریمارکس والے فیصلے کے بعد تسلسل سے جو فیصلے آئے انہوں نے بااثر ملزمان کے دماغ ممکنہ حد تک درست کر دیئے ہیں۔ملک سے فرار کے رجحان سے اسی تأثر کو تقویت ملتی ہے۔لاقانونیت کو بلا شرکت غیرے بعض داخلی اور خارجی عوامل کے باعث گل کھلانے کے مواقع میسر رہے، اور ابھی تک موجودہ حکومت پر اثر انداز ہونے والے عناصر عوام کے لئے ایک عذاب بنے ہوئے ہیں۔ آٹا،چینی، اور اشیائے خوردنی کے بحران کا تسلسل یہی ظاہر کرتا ہے کہ ابھی کچھ عرصے تک معاشرے کو امتحانوں کا سامنا رہے گا۔عدالتیں بھی آسمان سے نازل نہیں ہوتیں،جیسا معاشرہ ہوتا ہے، ویسے ہی ججز بھی کرسیوں تک پہنچتے ہیں۔یہ بھی ممکن نہیں کہ تمام ججز کا علم اور تجربہ یکساں ہو۔امریکی عدالتوں کے بعض فیصلے بھی تنقید کا نشانہ بنے ہیں، ان میں صدارتی امیدوار الگور اور بش کے درمیان ووٹوں کی گنتی کا مشہور مقدمہ بھی شامل ہے جس کا فیصلہ آنے پر ہارنے والے صدارتی امیدوار کا مدبرانہ تبصرہ عوام کو برسوں یاد رہے گا کہ میں چار سال بعد جیت سکتاہوں لیکن عدالتوں کے دو سو سالہ وقار پر دھبہ آیا تو کبھی نہیں دھلے گا۔ پاکستان میں تطہیر کا عمل شروع ہو چکا ہے،جوں جوں وقت گزرے گا اس میں تیزی اور بہتری آتی چلی جائے گی۔جلد یا بدیر اس عمل نے مکمل ہونا ہے۔دنیا نے بھی کرپٹ مافیاز کو اپنا ہیرو تسلیم کرنا ترک کر دیا ہے۔برطانوی رکن پارلیمنٹ کااپنے وزیر اعظم کو حال ہی میں لکھا جانے والا خط اس ضمن میں رونما ہونے والی خوشگوار اور صحت مند تبدیلی کی نوید سمجھا جا سکتا ہے۔یاد رہے بیمار معاشرے بجلی سے چلنے والے مشینی پلانٹس نہیں کہ ایک دو ہفتوں میں ان کی اوور ہالنگ ممکن ہو سکے۔دنیا کی تاریخ شاہد ہے کہ انسانی معاشرے دہائیوں میں بگڑتے ہیں اورپھر دہائیوں میں ہی ان کی اصلاح ہوا کرتی ہے۔ پاکستانی عوام نے جس صبر وتحمل کا مظاہرہ اس بگاڑ کے دوران کیا تھا،اب اسے کم از کم ایک دہائی اسی صبر و تحمل کا مزید مظاہرہ کرنا ہوگا۔ابھی تو کرپٹ مافیاز کی بالائی پرت کو عدالتوں سے سزائیں نہیں سنائی گئیں، صرف پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ اس کے بعد تطہیر کا عمل نچلی پر ت تک پہنچے گا۔ابھی اعلیٰ پولیس افسران نے قبولنا شروع کیا ہے تھانے بجٹ کی بجائے رشوت سے چلتے تھے۔پہلا بجٹ انہیں رواں مالی سال ملا ہے۔اسی دوران ٹریک ٹو مذاکرات کے لئے بھی کوششیں شروع ہوگئی ہیں۔عوام کی نظریں آسمان کی طرف اٹھ رہی ہیں۔ان کے لبوں پر خدا خیر کرے جیسے کلمات تیرنے لگے ہیں۔اگر ٹریک ٹو مذاکرات کاپردہ اٹھتے ہی کسی تازہ دم، اور وسیع تر این آراو کی مکروہ صورت نمودار ہوئی تو عام آدمی بے موت مارا جائے گاعوام کے حق میں وہی مذاکرات مفید ثابت ہوتے ہیں جو دن کی روشنی میں عوام کے سامنے ہوں۔سوال یہ ہے کہ ہماری پارلیمنٹ کس مرض کی دوا ہے؟اگر سارا کام ٹریک ٹو مذاکرات کے ذریعے ہونا ہی ملک کا مقدر ہے تو یہ پارلیمنٹ کا ناٹک بند کیا جائے۔ بھٹو حکمت کے 1977میں خاتمے سے پہلے بھی اسی قسم کا ماحول پیدا کیا گیا تھا۔تب بھی پیر پگارا کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی تمام جماعتیں ہم آواز ہو گئی تھیں۔آج بھی 11میں سے 7جماعتوں کی شناخت مذہبی ہے۔ جماعت اسلامی بظاہر ان سے الگ ہے مگر مزاج و نفسیات تو پی ڈی ایم میں شامل مذہبی جماعتوں کے قریب تر ہے۔ نون لیگ بھی پی پی پی کی کبھی ہمدرد نہیں رہی۔اس سے ملتا جلتا ماحول تھا جب بھٹو مخالفت میں خان عبدالولی خان جیسے قدآور سیاست دان نے ”پہلے احتساب، بعد میں انتخاب“جیسا نعرہ لگایا تھا۔آج تو بھاری بھرکم سیاسی شخصیت دور دور تک نظر نہیں آتی۔نہ جانے کیسے کیسے تکلیف دہ نعرے سننے کو ملیں؟عدالتی عہدوں پر جسٹس افتخار چوہدری والی ذہنیت قابض ہونے کے امکانا ت بڑھ جائیں گے۔امریکی تشویش کی طرح عوامی تشویش میں بھی اضافہ ہوگا لیکن آئین میں ترمیم کا اختیار پارلیمنٹ کی جگہ کسی شخص واحد کو منتقل ہونے سے روکنے والا کوئی نہیں ہوگا۔جب بھی کسی ملک کی پارلیمنٹ اپنے فرائض پس پشت ڈال کر نان ایشوز کو اپنا مرکزی نعرہ بنانے کی غلطی دہراتی ہے اس کے نتیجے میں کوئی نیا سانحہ جنم لیتا ہے۔پاکستان ایسے کسی صدمے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ساری نہ سہی لیکن 80فیصد ذمہ داری پی ڈی ایم کے سر آئے گی،اس لئے کہ میدان میں وہی اتری ہے۔ٹریک ٹو سے بچنے کی کوشش کی جائے۔یاد رہے فیصلہ ہمیشہ طاقت ور فریق ڈکٹیٹ کرتا ہے۔


