پی ڈی ایم دوراہے پر

تحریر: انور ساجدی
قپی ڈی ایم کا یہ مؤقف سوفیصد درست ہے کہ حق حکمرانی عوام کو حاصل ہے 1973ء کے آئین میں بھی یہی لکھا ہے لیکن آئین بننے سے آج تک اس پر کبھی عملدرآمد نہ ہوا اگر اپوزیشن کی موجودہ تحریک ناکام ہوگئی تو حق حاکمیت عوام کو تفویض ہونا ایک خواب ہی رہے گا بدقسمتی سے آئین میں جو صوبائی خود مختاری دی گئی ہے جو 18 ویں ترمیم کے بعد مستحکم ہونا چاہئے تھا لیکن اس پر پہلے ن لیگ کی حکومت نے اور اب تحریک انصاف نے عمل کرنے سے صاف انکار کیا ہے آئین میں صوبوں اور مرکز کے اختیارات واضح کئے گئے ہیں لیکن موجودہ حکومت سندھ اور بلوچستان کے جزائر پر قبضہ کرکے اربوں ڈالر کے منصوبے بنانا چاہتی ہے جبکہ دریائے راوی پر قبضہ کرکے وفاق صریحاً صوبائی معاملات میں مداخلت کررہا ہے بلوچستان میں تو معاملات زیادہ گھمبیر ہیں پوری ساحلی پٹی پر پراسرار سرگرمیاں جاری ہیں پہلے گوادر کے پانیوں میں ماہی گیروں کے داخلہ بند کردیا گیا اس کے بعد گوادر شہر میں باڑ لگاکر اسے ایک سیکورٹی ایشو قرار دیا گیا آج تک کسی کو نہیں بتایا گیا کہ گوادر کا ماسٹر پلان کیا ہے پنجاب سے تعلق رکھنے والے چند پراپرٹی ڈیلر پلاٹ بیچنے کی خاطر ایک ماسٹر پلان کا نقشہ دکھاتے ہیں اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ گوادر مستقبل میں وفاق کا علاقہ ہوگا پورے ضلع میں جس طرح زمینوں کو گمنام الاٹیوں کے نام منتقل کردیا گیا ہے وہ بھی خاصا پراسرار معاملہ ہے بلوچستان کی سیاسی جماعتوں نے کافی تاخیر سے یہ مسائل اٹھائے ہیں لیکن ابھی تک ان کی کارروائیاں زبانی کلامی بیانات تک محدود ہیں سیاسی جماعتوں کو وفاق پر دباؤ ڈالنا چاہئے کہ وہ اس علاقے کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہتا ہے اگر گوادر شہر کی موجودہ آبادی کا انخلاء درکار ہے تو اسے کہاں پر متبادل جگہ دے کر بسایا جائے گا یہ بھی پوچھنے کا سوال ہے کہ پورٹ بے شک فیڈرل سبجیکٹ ہے لیکن ساحل تو صوبائی معاملہ ہے وفاق ساحلوں کو اپنے کنٹرول میں کیسے کررہا ہے اگر سی پیک کا منطقی نتیجہ آبادی کے توازن کو بگاڑنا اور ساحل کو وفاقی علاقہ قرار دینا ہے تو اس تباہ کن منصوبہ کے خلاف آواز اٹھانا لوگوں کا بنیادی حق ہے ابتداء میں جب تحریک انصاف کو جھرلو پھیر کر کامیاب قرار دیا گیا تھا تو کافی عناصر نے اسی وقت کہا تھا کہ مقتدرہ تحریک انصاف سے ایک بڑا کام لینا چاہتی ہے اس بڑے کام کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ یہ آئین میں تبدیلی لانا ہے یعنی ملک کو پارلیمانی نظام کی بجائے ایک بار پھر صدارتی نظام کی طرف لے جانا ہے اپنی حکومت کے قیام کے بعد وزیراعظم عمران خان نے کئی بار ایوب خان کی حکومت اور صدارتی نظام کی کامیابیوں کا ذکر کیا تھا چونکہ عمران خان تاریخ کے طالب علم نہیں ہیں اس لئے انہیں معلوم نہیں کہ پاکستان میں بگاڑ کی بنیادایوب خان نے ڈالی تھی انہوں نے مارشل لاء لگاکر 1956ء کے آئین کو منسوخ کردیا تھا اور پارلیمانی نظام کی جگہ ایک خود ساختہ صدارتی نظام متعارف کروایا تھا جس میں عوام کو رائے دہی سے محروم رکھا گیا تھا انہوں نے بی ڈی ممبران کو حلقہ انتخاب قرار دیا تھا انہوں نے 1962ء کا عجیب و غریب آئین نافذ کیا جو ایوب خان کی ذاتی خواہشات پر مبنی تھا ایوب خان نے پیریٹی کا نظام بناکر بنگالی اکثریت اور مغربی پاکستان کی اقلیت کو برار قرار دیا تھا ایوب خان نے تمام سیاستدانوں کو کرپٹ قرار دے کر ایبڈو کا قانون نافذ کیا تھا جس کے تحت تمام نامور سیاستدان نااہل قرار دیئے گئے تھے ویسے عمران خان بھی چاہتے ہیں کہ ان کے مقابلے میں کوئی سیاسی جماعت اور رہنما نہ ہو وہ اکیلے سیاہ سفید کے مالک ہوں ان کے نزدیک اپوزیشن کا کوئی تصور نہیں ہے جیسے کہ چند سال قبل عرب ممالک میں تھا انتخابی دھاندلی کی بنیاد بھی ایوب خان نے ڈالی تھی 1964 ء اور 1965ء کے صدارتی انتخابات میں انہوں نے کھلیدھاندلی کرکے محترمہ فاطمہ جناح کو شکست دلوائی تھی۔
کرتے کرتے ایوب خان نے 1965ء کی جنگ چھیڑدی جس کے نتیجے میں ایوب خان کو شکست سے دوچار ہونا پڑا اور اس نے جان بچانے کیلئے سوویت یونین سے رجوع کرلیا یہ جوکہا جارہا ہے کہ 1965ء کی جنگ ایوب خان نے جیتی تھی سفید جھوٹ اور پروپیگنڈہ ہے 17 روزہ جنگ کے دوران امریکہ سمیت سارے دوستوں نے ایوب خان کا ساتھ چھوڑ دیا تھا اور وہ پہلی بار تنہا رہ گئے تھے۔
ایوب خان نے اگر تلہ سازش بناکر شیخ مجیب پر غداری کا الزام لگایا حالانکہ شیخ مجیب نے کبھی بنگلہ دیش بنانے کی بات نہیں کی تھی بلکہ سرکاری وکیل نے مقدمہ میں پہلی بار بنگلہ دیش کا نام لیکر بنگالیوں کو راہ دکھائی تھی۔
ایوب خان کا واحد کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے عوامی تحریک کے بعد شرافت سے اقتدار چھوڑ دیا اور اپنا آئین توڑ کر قومی اسمبلی کے اسپیکر کی بجائے اپنے کمانڈر انچیف جنرل آغا محمد یحییٰ خان قزلباش کو اقتدار حوالے کردیا یہ جو عمران خان”رطب اللسان“ ہیں کہ ایوب خان کے دور میں پاکستان نے ترقی کی تھی سراسر جھوٹ ہے جب ایوب خان نے اقتدار چھوڑا تھا تو قومی خزانہ خالی تھا اور معیشت کا براحال تھا کوئی تحریک انصاف کے رہنماؤں سے پوچھے کے ایوب خان کے مضبوط صدارتی نظام کے باوجود بنگال میں بغاوت کیوں ہوئی اور یحییٰ خان کے صدارتی نظام میں بنگلہ دیش کیوں بن گیا اس وقت تو کوئی پارلیمانی نظام نافذ نہیں تھا۔
گماں گزرتا ہے کہ ایوب خان کے بعد جناب عمران خان کے آئیڈیل حکمران جنرل محمد ضیاء الحق ہیں انہوں نے بھی 1973ء کا آئین توڑ ڈالا ریاست کی پوری ساخت تبدیل کر ڈالی پہلے منتخب وزیراعظم کو تختہ دار پر چڑھایابنیادی حقوق کو بلڈوزروں کے نیچے روند ڈالا سیاست کو شجر ممنوع قرار دیا ایک جماعت اسلامی کے سوا کسی کو کام کرنے نہیں دیا ہزاروں سیاسی کارکنوں کو کوڑے مارے اور سینکڑوں کو پھانسی کی سزا دی آج عمران خان کہتے ہیں کہ نظریاتی طور پر وہ جماعت اسلامی کے قریب ہیں اس قربت کی قدر مشترک جنرل ضیاء الحق ہیں جماعت اسلامی نے بھی ان کی اطاعت قبول کرلی تھی عمران خان بھول گئے کہ کیسے پنجاب یونیورسٹی میں اسلامیجمعیت نے ان پر تشدد کیا کس طرح امیرالعظیم اور فیاض چوہان نے انکی تضحیک کی اگر وہ جماعت اسلامی سے نظریاتی قربت رکھتے ہیں تو اپنی جماعت کو جماعت اسلامی میں ضم کردیں کیونکہ تحریک انصاف کا کوئی جمہوری مستقبل نہیں ہے ان کا یہ کہنا درست ہے کہ وہ جنرل ضیاء الحق سے متاثر ہیں سیاست وسیادت کے بارے میں دونوں کے رویہ میں یکسانیت پائی جاتی ہے کیونکہ عمران خان بھی یک جماعتی نظام کے تحت ریاست مدینہ قائم کرنا چاہتے ہیں اور جس طرح ضیاء الحق ریفرنڈم میں اکیلے کھڑے تھے اور انہیں 84 فیصد ووٹ ملے موصوف کی ریاست میں بھی ان کے علاوہ کسی اور کو انتخاب لڑنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
گوکہ اپوزیشن جماعتوں نے بہت غلطیاں کی ہیں لیکن بالآخر انہوں نے اپنی اصلاح کرلی ہے اور ان کا یہ مؤقف کہ یہ فیصلہ ہو ہی جانا چاہئے کہ
ملک میں حق حکمرانی عوام کو حاصل ہے یا غیر منتخب طاقتوں کو بدقسمتی سے اپوزیشن کی صفوں میں اتحاد نہیں ہے اپنے وقتی اور چھوٹے جماعتی مفادات کی خاطر ان میں ہم آہنگی پائی نہیں جاتی اگر ووٹ کی حرمت اور آئین کے تقدس کا فیصلہ نہیں ہوجاتا پاکستان اسی طرح معاشی زبوں حالی اور پسماندگی کا شکار رہے گا۔
نواز شریف کی صاحبزادی مریم بی بی نے گڑھی خدا بخش میں محترمہ بینظیر اور ان کے والد کے مزار کے سامنے کھل کر کہا کہ آئین کی بالادستی کیلئے اگر انہیں شہادت دینی پڑے تو وہ پیچھے نہیں ہٹیں گی دو روز قبل بھی انہوں نے کہا کہ وہ قتل ہونے کیلئے تیار ہیں لیکن اپنے مشن سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں یہی جذبہ پی ڈی ایم کے دیگر قائدین میں بھی ہونا چاہئے ورنہ انہیں ماضی کی طرح تابعدار بن کر رہنا پڑے گا اور کرپشن کے الزامات کی رسوائی کا بوجھ سہنا پڑے گا حالانکہ سیاستدانوں سے زیادہ کرپشن دوسرے لوگوں نے کی ہے بس بدنامی ان کے حصے میں آئی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں