مولانا مولانا ہے

تحریر:!— روح اللہ بلوچ

پاکستان میں سیاسی صورتحال اس شدید سے شدید تر سردی میں بھی جہنمی ایندھن جیسا گرم ہے ایک طرف حکومت کی ناکامیاں اپنے عروج پر تو دوسری طرف پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ کے نام سے بنا ہوا اپوزیشن اتحاد اپنی تحریک کو آگے بڑھانے کے لئے رستہ ڈھونڈتے ہوئے تنقید آمیز لہجے کے ساتھ جارحانہ انداز اپنا رہی ہے لاہور کے جلسے کے بعد مجھ سمیت شاید ہر شخص یہی سوچ رہا تھا کہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ڈیلے پڑ گئے ہیں اب وہ بھی بھاگنے کے لئے کسی رستے کے تلاش میں ہیں لیکن اسکے باوجود حکومت کو خطرہ تھا تو صرف مولانا سے تھا کیوں؟؟ اسکا جواب آپ سب کو اچھی طرح سے معلوم ہوگا مولانا اتنا خطرناک کیسے بن گیا؟ کہ لاہور جلسے کے بعد اس درمیان میں حکومتی اجلاسوں میں بھی اکثر مولانا اور جے یو آئی ہی زیر بحث رہے یہاں تک کہ لاڈلے وزیر اعظم نے بھی کہا تھا کہ اگر اپوزیشن کی تحریک کو کمزور کرنا ہے تو جے یو آئی اور مولانا کو ہی کمزور بنانا ہوگا چنانچہ اسکے وزیر اعظم سواتی وفد لے کر جے یو آئی کی اندرونی اختلافات سے فائدہ اٹھانے کے لئے مولانا شیرانی حافظ حسین احمد مولانا گل نصیب خان اور شجاع الملک کو مولانا کے خلاف اکسانے کے لئے ملاقاتیں کیں اور پورہ زور لگا کر کوشش کی اور انکی اس خواہش کی تکمیل بھی ہو گئی لیکن انہیں پتہ نہیں تھا کہ مولانا تو مولانا ہے جے یو آئی میں مذکورہ تمام حضرات پندرہ سال سے جے یو آئی کو اندر سے کمزور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی گل نصیب خان اور حافظ حسین احمد اگرچہ اس لائن میں کھڑے نظر نہیں آ رہے تھے لیکن پھر بھی مولانا نے انکو سائڈ لائن کرکے اسکا خطرہ محسوس کیا تھا مولانا نے ماحول ہی اسطرح بنا لیا ہے کہ "کوئی” بھی دوبارہ پڑھیں کہ کوئی بھی اگر اسکے مقابلے میں آئے گا تو اپنا ہی نقصان کر بیٹھے گا جمعیت نظریاتی تمہارے سامنے ہے شیرانی صاحب کو نظریاتی سے ہی عبرت حاصل کرنا تھا لیکن شیرانی کا قصور بھی کیا؟ کیونکہ ان سے وعدہ بھی ایسا کیا گیا تھا کہ یہی پارٹی یہی جھنڈا یہی انتخابی نشان آپکے نام ہوگا ویسے شیرانی کی بصیرت اور سیاست کے تو سب معترف تھے اب ہیں یا نہیں اسکا پتہ نہیں لیکن یہاں وہ کیسے دھوکہ کھا گیا وللہ اعلم اور اب جو حال ان حضرات کا اپنے ہی حلقے میں ہو رہا ہے وہ دیکھنے لائق ہے حافظ حسین کے تو اپنے ہی خاندان نے حافظ سے لاتعلقی کا اعلان کرکے مولانا کے ساتھ وفاداری کا تجدید عہد کر لیا حکومت کو بھی اب پتہ چل گیا کہ یہ تو سب چلے ہوئے کارتوس ہیں تو اس نے اپنی وزراء کی ڈیوٹی بھی مولانا پر حقیر الفاظ اور جملے کسنے کی لگا دی لیکن مولانا تو مولانا ہے یکم جنوری کے اجلاس کے بعد مولانا نے جو پریس کانفرنس کی اب میرے خیال میں حکومت کے لئے پہلے سے ہی تو زمین تنگ تھی اب تنگ سی زمین بھی نصیب نہیں ہوگا مولانا اب انکو منہ لگانا ہی نہیں چاہتا مولانا نے واضح کر دیا کہ اب بات ہوگی تو برملا اور پوری قوت سے ہوگی اب صرف مہرہ نہیں بلکہ اسکو لانے والوں کو بھی خوب رگڑا جائے گا حکومت کی سوختہ آوری سے ظاہر ہے کہ مولانا کے تیر نشانے پر لگ رہے ہیں اور نشانے پر ہی لگنے تھے کیونکہ یہ کوئی نا بالغ سیاستدان نہیں بلکہ ایک ذہین چالاک اور شاطر سیاستدان مولانا فضل الرحمن صاحب ہیں تو بھائی ماننا پڑے گا کہ مولانا مولانا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں