کون ہے جو کرونا پھیلاناچاہتاہے

تحریر : انورساجدی
کوئی تو ہے جو پاکستان میں بڑے پیمانے پر کرونا کی وبا پھیلانا چاہتا ہے اسکے کیا مقاصد ہیں یہ کوئی نہیں جانتا؟ پر لیکن وفاقی حکومت نے تباہ کن صورتحال میں اپنی رٹ کیوں قائم نہیں کی اور وہ صوبوں کی رہنمائی کرنے سے کیوں انکاری رہی یہ الگ سوال ہے لاک ڈاؤن اور کرفیو کولیکروزیراعظم نے جو بلاوجہ کی بحث چھیڑی اس کا کیا مقصد تھا بار بار ایرانی اور افغان بارڈر کھولنے کے احکامات کس نے دیئے اور وہ کون ہستی ہے جو کچھ وقفہ کے بعد مختلف ممالک میں مقیم پاکستانیوں کوخصوصی پروازوں کے ذریعے واپس لارہاہے۔
سوشل میڈیا میں ایسے کئی درجن ثبوت موجود ہیں کہ ایران سے لوگ خفیہ یا چور راستوں کے ذریعے داخل ہورہے ہیں بلکہ سینکڑوں لوگ کنٹینروں کے اندر چھپ کر داخل ہوئے ادھر توبہ کاکڑی سے براستہ افغانستان درجنوں لوگ آرہے ہیں یہ لوگ ایران سے ہرات اور وہاں سے خفیہ راستوں کے ذریعے پہنچ جاتے ہیں مندپنجگور اوردیگرسرحدی علاقوں سے بھی آنے کا سلسلہ جاری ہے اس صورتحال سے یہ خدشہ بڑھ گیا ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں پاکستان جنوبی ایشیاء میں کرونا کا سب سے بڑا مرکز بن سکتا ہے اس بات کی طرف وزیراعظم نے بھی میڈیا پرسنز سے گفتگو کے دوران اشارہ دیا اسکی وجہ یہ ہے کہ ابھی تک ہزاروں مشتبہ مریضوں کا ٹیسٹ ہی نہیں ہوا صحت کے معاون خصوصی ڈاکٹرظفرمرزا نے تسلیم کیا ہے ساڑھے چھ ہزار مریض قرنطینہ میں ہیں جب شروع میں تفتان بارڈر سے ہزاروں زائرین کو آنے دیا گیا تھا۔اس وقت اسکریننگ کی کوئی سہولت نہیں تھی یہ لوگ سارے ملک میں پھیل گئے انکے تقریباً ڈیڑھ ہزار ٹیسٹ پازیٹو آئے حکومت کا حال تو سب کے سامنے ہے سندھ میں بھی جہاں سخت لاک ڈاؤن کاحکم ہے لوگ پابندیوں کی پروا نہیں کررہے کئی علماء نے نمازجمعہ کے اجتماعات منعقد کئے کراچی کے جن علاقوں میں ایم کیو ایم کا زورہے وہاں گلی محلوں میں نوجوان اور بچے کرکٹ کھیلتے دکھائی دیتے ہیں ملیر کی ایک امام بارگاہ سے ریلی نکالنے کی کوشش بھی کی گئی جسے رینجرز نے ناکام بنادیا گڈز ٹرانسپورٹ کھلنے کے بعد دیگرگاڑیاں بھی سڑکوں اورشاہراؤں پر رواں دواں نظرآتی ہیں صرف بازار اور ریستوران بند ہیں سرکاری دفاتر میں تو پہلے بھی کام نہیں ہوتا تھا کہاجاسکتا ہے کہ کراچی میں مکمل نہیں جزوی لاک ڈاؤن ہے اس غیر موثر لاک ڈاؤن کے ذریعے مرض کوپھیلنے سے روکنا ممکن نہیں۔
وزیراعظم کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے گھروں میں راشن پہنچانے کیلئے سرکاری مشنری کی بجائے تحریک انصاف کی ٹائیگر فورس سے کام لینے کا فیصلہ کیا ہے راشن پہنچانے کا کام بھی یکم اپریل کے بعد شروع کرنے کا پروگرام ہے جب تک غریب اور نادار لوگ کیا کریں گے کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ٹائیگر فورس والی ترکیب مشکوک ہے اول تو تحریک انصاف کے پاس کافی تعداد میں ٹائیگر فورس نہیں ہے کیونکہ وہ تیزی کے ساتھ اپنی مقبولیت کھوچکی ہے اگر امداد کی خاطر کوئی فورس کھڑی کی گئی تو وہ انصاف سے کام نہیں لے گی بلکہ بلاامتیاز راشن پہنچانے کی بجائے اپنی جماعت کے لوگوں کو ریلیف پہنچائے گی جس سے ایک انتشار اور بے چینی کی کیفیت پیداہوگی۔
ناقدین کا خیال ہے کہ وزیراعظم نے غلط فیصلہ کیا ہے راشن پہنچانے کا کام ڈپٹی کمشنروں انتظامیہ اور کونسلروں کے حوالے کرلینا چاہئے تھادوسری بات یہ ہے کہ عوام تک رسائی اور ریلیف پہنچانا صوبوں اور این ڈی ایم اے کی ذمہ داری ہے یہ تحریک انصاف بیچ میں کہاں سے آگئی بہتر ہوتا کہ وفاقی حکومت ریلیف کا سارا کام این ڈی ایم اے کے سپرد کرتی اور وہی اپنے ذرائع سے یہ کام انجام دیتا لیکن افسوس کا مقام ہے کہ وزیراعظم اپنی پارٹی کے حوالے سے امتیاز اور ناانصافی سے کام لیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ موجودہ نازک موقع پر بھی انہیں مخالفین کیخلاف سخت پروپیگنڈہ سوجھی ہے سوشل میڈیا پر حکومت کیخلاف اعتراضات کاجواب دینے کیلئے وفاقی حکومت نے سوشل میڈیا کے جیالوں کو تقریباً ساڑھے چار کروڑ روپے جاری کردیئے ہیں یہ لوگ کرونا کی وبا پھیلانے کاالزام بھی ن لیگ اور پیپلزپارٹی پرلگارہے ہیں۔انکی دلیل ہے کہ ان دونوں جماعتوں نے10سال کے عرصے میں اسپتال نہیں بنائے ورنہ یہ صورتحال پیدا نہیں ہوتی اگر تحریک انصاف والے سندھ کا جائزہ لیں تو لیاری جنرل اسپتال سے لیکر گمبٹ کے میڈیکل کمپلیکس تک اتنا کام ہوا ہے کہ کوئی تصور نہیں کرسکتا چونکہ پیپلزپارٹی کا کرپشن کی وجہ سے میڈیا ٹرائل چل رہا ہے اس لئے کسی کی نظر ان اسپتالوں کی طرف نہیں گئی جو 10 سال میں قائم کئے گئے ہیں یا ان میں توسیع کی گئی ہے پاکستانی میڈیا شہری اشرفیہ اور ایک خاص طبقہ کی تعریف وتوصیف میں لگارہتا ہے اس لئے جتنے بھی نامی گرامی اینکر ہیں وہ اپنے مخصوص مالی ایجنڈے کے فروغ کیلئے کام کرتے ہیں وہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کو چور،ڈاکو اور بدمعاش ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں لیکن وہ پریس کانفرنس میں عمران خان کی ڈانٹ ڈپٹ ہتک اور بے عزتی کو بھی اپنی توہین نہیں سمجھتے۔جنرل ضیاء الحق تو ہر پریس کانفرنس میں اخباری مالکان اور صحافیوں کو بے عزت کرتے تھے لیکن مجال ہے جو امیرالمنومنین کے اس رویہ کا کسی نے برا منایا ہو۔
گزشتہ ڈیڑھ برس میں جو کچھ ہوا ہے کسی صحافی یا اینکر پرسن نے اسکی غضب کہانی پیش کرنے کی جرأت نہیں کی اب تو سب سے بڑے میڈیا مغل میرشکیل الرحمن کی بے رحمانہ گرفتاری بطور مثال سب کے سامنے ہے لہٰذا کون جرأت کرے گا نام نہاد قومی میڈیا جو اپنے صوبوں اور مالی مفادات کے اسیر ہیں۔کرونا وائرس کی صحیح صورتحال پیش نہیں کررہا اس دوران وفاق نے جبری طور پر بارڈر کھلوایا اور حکومت بلوچستان کو مجبور کیا کہ وہ ہزاروں زائرین کو کیمپوں میں رکھے کسی نے اس زیادتی کو اجاگر نہیں کیا الٹا یہ الزام عائد کیا گیا کہ بلوچستان حکومت وبا کے پھیلاؤ کی ذمہ دار ہے ہفتہ کو وزرائے اطلاعات کی وڈیو کانفرنس کے دوران اطلاعات کی مشیرآپاں فردوس عاشق اعوان نے ایک بار پھر تفتان کا ذکر کیا یعنی یہ وبا بلوچستان حکومت کے ناکافی انتظامات کی وجہ سے پھیلی میرلیاقت شاہوانی بھی اس کانفرنس میں شریک تھے جب سے موصوف بلوچستان کے معاملات کے انچارج ہوئے ہیں وہ نام نہاد قومی میڈیا کے وکیل کا کردارادا کررہے ہیں اور انہی کی ہدایت پر بلوچستان کے وسائل قومی میڈیا پر لٹائے جارہے ہیں اب جبکہ ان بیرونی میڈیا کی ترسیل بھی بند ہے پھر بھی حکومت بلوچستان کی مہربانیاں تھمنے کانام نہیں لیتیں۔
ایک ہفتہ ہوا برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن آفندی نے حکم جاری کیا تھا کہ تمام بوڑھے ماں باپ کو بچے خود سے الگ کردیں۔حالانکہ برطانیہ میں فیملی سسٹم کمزور ہے اور بچے بالغ ہوتے ہی ماں باپ کوچھوڑ کرچلے جاتے ہیں خدا کاکرنا ایسا ہوا کہ60سالہ بورس جانسن خود کرونا کا شکار ہوگئے وہ اپنے بچے خاندانی گھر میں بھیج کر وزیراعظم ہاؤس میں محصور ہیں اسی طرح کی بات ہمارے وزیراعظم عمران خان نے شروع میں کی تھی اور کہا تھا کہ کرونا سے ڈرنا نہیں یہ عام فلو ہے گزشتہ روز عالمی میڈیا نے خبردی کہ پاکستانی وزیراعظم پر کرونا کا حملہ ہوا ہے تاہم بعد میں پتہ چلا کہ کرونا کا ہلکا سا اثر ہوا ہے مکمل حملہ نہیں ہوا اس سے سبق سیکھنا چاہئے اور 25کروڑ خلق خدا کو ہلاکت سے بچانے کیلئے سردھڑ کی بازی لگادینا چاہئے۔اسلام آباد میں بیٹھ کر جو ناسمجھ لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ کرونا کی وجہ سے پاکستان کے قرضے معاف ہوجائیں گے آئی ایم ایف سے نیاقرضہ ملے گا ایشیائی ترقیاتی بینک امریکہ،چین،جاپان،عالمی ادارہ صحت اور دیگر ادارے امداد کی بارش کردیں گے اس لئے چند ہزار افراد کی جانوں کی یہ اچھی قیمت ہے۔
انہیں خوف خدا سے ڈرنا چاہئے
ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ خود قدرتی آفت کی شکار ہوکر زندگی کھوبیٹھیں اگرحکومتی رویہ یہی رہا تو کرونا پورے ملک میں پھیل جائیگا ہزاروں لوگ اس سے متاثر ہونگے اور اتنی اموات ہونگی کہ کسی نے سوچا تک نہ ہوگا موجودہ حکومت کا اعتراض ہے کہ سابق حکومتوں نے صحت کے اچھے انتظامات نہیں کئے تھے تو پونے دوسال ہوئے ہیں اس حکومت نے کیا کیا ہے اس نے تو ایک وینٹی لیٹر کا اضافہ تک نہیں کیا البتہ پشاور میں شوکت خانم ضرور بنایا گیا جو پشاور جیسے علاقہ کے عوام کیلئے غنیمت ہے لاہور کا یہ حال ہے کہ ایک اسپتال میں کرونا کے ایک بزرگ مریض کو اسپتال کے بیڈ پررسیوں سے باندھا گیا اور اسی حالت میں اسکی موت واقع ہوگئی وفاقی حکومت اور کچھ نہ کرتی اسلام آباد کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال پمز کی حالت بہتر کرتی وہاں تو پولی کلینک میں متعدد ڈاکٹرکروناکا شکار ہوگئے اور انکے علاج کی کوئی سہولت نہیں تھی کئی حلقوں نے یہ تجویز دی تھی کہ کراچی کے سب سے بڑے اسپتال آغا خان،لیاقت نیشنل اور ضیاء الدین کو وقتی طور پر سرکاری تحویل میں لیکر مریضوں کیلئے وقف کیاجائے لیکن حکومت نے بات نہیں سنی۔
کیا یہی اچھا ہوتا کہ وزیراعظم اپنے دواسپتالوں کو کرونا کے علاج کیلئے وقف کرتے ہرطرف سے انکی واہ واہ ہوتی یہ تجویز بھی مسترد ہوئی کہ بحریہ ٹاؤن کراچی کو قرنطینہ سینٹر میں تبدیل کیاجائے۔جہاں ہزاروں افراد کے رہنے کی گنجائش ہے۔فرانس کی مثال سامنے ہے جہاں تمام پرائیویٹ اسپتالوں کوسرکاری تحویل میں لے لیاگیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں