در نایاب

تحریر: انور ساجدی
کچھ ایسی آوازیں آ رہی ہیں یا چھوڑی جا رہی ہیں کہ موجودہ نام نہاد نظام فیل ہوچکا ہے لہٰذا کوئی متبادل انتظام کیا جائے۔ معلوم نہیں کہ یہ عناصر کس حد تک سنجیدہ ہیں یا کسی کے کہنے پر نظام لپیٹنے کی باتیں کر رہے ہیں۔حالانکہ ایک طرف صبح شام موجودہ سیٹ اپ کے انچارج شہبازشریف طرح طرح کے دعوے کر رہے ہیں وہ معیشت کی اڑان کی نوید بھی سنا رہے ہیں 60برس کے دوران سب سے کم مہنگائی کی بات بھی کر رہے ہیں اور چند روز قبل انہوں نے مائیک پر مکا مار کر کہا تھا کہ اگر وہ ترقی کی دوڑ میں بھارت کو پیچھے نہ چھوڑیں تو ان کا نام شہباز شریف نہیں۔ اس طرح کے جو دعوے ہیں بعض اوقات اپنے مایوس عوام کو حوصلہ دینے کے لئے بھی کئے جاتے ہیں موجودہ حکومتی اکابرین اپنی حکومت کی کامیابیوں کے بلند و بانگ دعوے بھی کر رہے ہیں لیکن کون نہیں جانتا کہ کسی کو ان دعوﺅں پر یقین نہیں ہے۔خود حکمران بھی جانتے ہیں کہ ان کے دعوﺅں کی حقیقت کیا ہے؟۔ موجودہ سیٹ اپ کی ایک ناکامی کا سبب تحریک انصاف ہے۔ اگرچہ مار مار کر اور قیادت کو توڑ کر اس جماعت کو کمزور کر لیا گیا ہے لیکن پھر بھی پی ٹی آئی گلے پڑی ہوئی ہے۔اس کی مزاحمت کی وجہ سے پارلیمان چل نہیں رہا ہے۔ ادارے باہم متصادم ہیں۔ داخلی استحکام ناپید، عوام شدید طور پر منقسم ہیں۔اختلاف اتنا کہ ہر طرف طوفان بدتمیزی برپا ہے۔
اگرچہ زمین پر تحریک انصاف کا زور ٹوٹ چکا لیکن سوشل میڈیا پراس کی کوئی توڑ نہیں ان کا جو کی بورڈ وارئیرز ہیں وہ قابو میں نہیں آ رہے ہیں۔طرح طرح کی واہیات ذاتی الزامات فیک نیوز مغلظات کی بھرمار اور انتہائی قابل اعتراض تصاویر کی وجہ سے انہوں نے موجودہ رجیم کی اعلیٰ شخصیات کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔حکومت نے کئی درجن وی لاگرز کے خلاف کارروائی کی ہے لیکن ملک کے اندر اور باہر جو ہزاروں کا جتھہ ہے ان سب کو قابو کرنا بہت ہی مشکل ہے۔اسی لئے حکومت نے پیکا قانون نافذ کیا جس کے تحت خشک کے ساتھ تر بھی جل رہا ہے۔حکومت کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ وہ مزید کیا اقدامات کرے تاکہ اس بے لگام عفریت کو لگام ڈالی جا سکے۔پیکا کی وجہ سے میڈیا کا غریب اور مسکین حصہ ہے اس سے سرنڈر کروا لیا گیا ہے لیکن جو انصافی جتھہ بیرون ملک مقیم ہے وہ ہاتھ نہیں لگ رہا ہے۔ایک بھگوڑامیجر ہے جس کے خلاف لندن کی عدالت میں مقدمہ دائر کیا گیا اور انہیں31 ہزار ہزار پاﺅنڈ کا جرمانہ کیا گیا جو انصافی اوورسیز کارکنوں نے ادا کردیا لیکن برطانیہ کی مجبوری ہے کہ وہ جائز طریقے سے مقیم سیاسی پناہ گزینوں کو ملک بدر نہیں کرتا لیکن حکومتی قانون دانوں کی ٹیم سرتوڑ کوششیں کر رہی ہے کہ ان لوگوں کو برطانیہ بدر کروایا جائے اور انہیں واپس لا کر سبق سکھایا جائے۔ جہاں تک ملک کے اندر جو وی لاگرز ہیں وہ تھوڑے بہت اچھل کود کر رہے ہیں لیکن احمد نورانی کے بھائیوں کے غائب ہونے کے بعد دھیمے پڑ گئے ہیں۔ اسی دوران حکومت نے اپنی ٹیم کو بھی مسلح کر کے میدان میں اتار دیا ہے۔ اس سلسلے میں چاروں صوبوں میں الگ الگ سوشل میڈیا کے سرکاری جتھے سرگرم عمل ہیں اور وہ تحریک انصاف، قوم پرستوں اور پیپلزپارٹی کے خلاف نئے محاذ کھولے ہوئے ہیں گو کہ پیپلزپارٹی میڈیا کے محاذ پر ہمیشہ کی طرح کمزور ہے لیکن شرجیل انعام میمن نے ڈیلی ٹائمز چینل 365 آواز ٹی وی اور سندھ کے متعدد اخبارات حاصل کر کے پیپلزپارٹی کو پروپیگنڈا کے محاذ پر کھڑا کرلیا ہے۔ شرجیل انعام میمن اس وقت سندھ کے سینئر وزیر ہیں۔ یہ باوصف اور باکمال منتظم ہیں ان کے وسائل بھی بہت بڑھ گئے ہیں اس لئے وہ اپنے وسائل کے ذریعے متعدد ادارے چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ حالانکہ انہوں نے ایسے وقت میں اخبارات کا پورا گروپ حاصل کرلیا ہے جو بظاہر ایک گھاٹے کا سودا ہے۔ کیونکہ پرنٹ میڈیا عالم نزع میں ہے جبکہ ڈیجیٹل چینل بھی اپنا اعتبار کھوچکے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ میمن صاحب اپنے یوٹیوب چینل بھی قائم کرلیں، ڈیلی ٹائمز کی فروخت کے بعد پنجاب کے سب سے نمایاں صحافی سی پی این ای کے سابق صدر کاظم خان ادارہ سے الگ ہوگئے ہیں اور بہت جلد وہ کسی اور ادارے سے وابستہ ہو رہے ہیں۔ شرجیل میمن کے ”میڈیا مغل“ بن جانے کے بعد ان کی سیاسی طاقت میں اضافے کا امکان ہے۔ ویسے بھی وہ سندھ کی وزارت اعلیٰ کے امیدوار ہیں اگر موجودہ نظام برقرار رہا توشرجیل کی دلی مراد بھی پوری ہوسکتی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ میڈیا کے میدان میں مزید کمالات دکھا سکتے ہیں۔
وہ جو مخصوص گروہ سرگرم عمل ہے کہ موجودہ نام نہاد جمہوری نظام کا کوئی فائدہ نہیں یا موجودہ نظام فیل ہوگیا ہے وہ اپنے دل کی بات نہیں بتاتے اور نہ ہی کوئی متبادل نظام لانے کی تجویز پیش کرتے ہیں۔غالباً وہ چاہتے ہیں کہ یہ جو پارلیمان ہے اسمبلیاں ہیں یا منتخب نمائندگان کی فوج ظفر موج ہے یہ سب بیکار ہے۔ ان کی جگہ جنرل پرویز مشرف جیسا نظام لایا جائے یعنی ٹیکنو کریٹ حکومت قائم کی جائے۔ حالانکہ اس وقت بھی ٹیکنو کریٹ چھائے ہوئے ہیں۔ اصل چیف ایگزیکٹو بھی سمجھو کہ ٹیکنو کریٹ کے زمرے میں آتے ہیں۔ وزیرخزانہ وزیر داخلہ توانائی اور نجکاری کے اکابرین بھی ٹیکنوکریٹ ہیں۔ پھر کس طرح کی ٹیکنوکریٹ حکومت چاہیے۔
محترم فیصل واوڈا موجودہ نظام سے سخت نالاں ہیں یا تو انہیں وفاقی کابینہ میں شامل کیا جائے تاکہ وہ مطمئن ہو جائیں جیسے مصطفی کمال موجودہ نظام کے بڑے ناقد تھے لیکن کابینہ میں آنے کے بعد وہ پرسکون دکھائی دے رہے ہیں۔ماہرین کا پورا گروپ ہے جو موجودہ نظام کا حصہ ہے۔سابق وزیراعظم انوارالحق کاکڑ اگرچہ سینیٹ کے رکن ہیں لیکن آدھے ملک میں ان کی ڈاکٹرائن چل رہی ہے۔وہ جو سیاسی ٹیکنوکریٹ ہیں ان کے ڈی فیکٹو سربراہ ہیں۔اسی طرح میرسرفراز بگٹی بھی ایک طرح سے سیاسی ٹیکنوکریٹ ہیں مرکز میں ان لوگوں کی رائے بڑے صائب سمجھی جاتی ہے اور اسے وزن دیا جاتا ہے۔اس کے باوجود نظام لپیٹنے اور مخصوص حکومت لانے کی باتیں ہو رہی ہیں جو ایک منفی سوچ ہے جس کا مقصد سیاسی افراتفری پیدا کرنا اور داخلی عدم استحکام کو مزید بڑھاوا دینا ہے جس کی کوئی ضرورت نہیں ہے جو لوگ موجودہ نظام سے مطمئن نہیں ہیں وہ کھل کر سامنے آئیں اور اپنے ذہن کے اندر جس نظام کا خاکہ ہے اس کا اظہار کریں تاکہ عوامی سطح پر اس پر بحث کا آغاز ہوسکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں