اخلاقیات اور مذہب کا ربط

احمد علی کورار
انسان کے وجود پر اگر غورو خوض کیا جائے تو بعض ایسی چیزیں بھی ہیں جو انسان اور جانوروں دونوں میں مماثل ہیں مثلا بھوک پیاس کا لگنا تکلیف کا احساس محبت کا احساس جیسی جبلتیں دونوں میں پائی جاتی ہیں۔
باقی ایسا کیا ہے؟ جو انسان کو ایک جانور سے ممتاز کرتا ہے
وہ تین چیزیں جو انسان اور جانور کے مابین امتیاز کو ظاہر کرتی ہیں .
ان میں ایک عقل دوم اخلاقیات اور سوم جمالیات ہے ان تین چیزوں کی بنیاد پر ایک انسان جانور سے مختلف وجود رکھتا ہے۔
یہاں بنیادی سوال انسان اور جانور کے امتیاز کا نہیں ہے بلکہ جو بات زیر بحث ہے وہ انسان کااخلاقی وجود ہے اور اس اخلاقی وجود کی بنیاد مذہب کو قرار دیا جاتا ہے.
ایک عرصے سے یہ بات حلقہ اہل علم کے مابین موضوع بحث بنی رہی ہے کہ کیا اخلاقیات یا اخلاقی تعلیمات کے لیے مذہب کا ہو نا ضروری ہے؟
جواب ہمیشہ ہاں میں آتا ہے اخلاقیات کا مذہب سے گہرا ربط ہے اور اخلاقی تعلیمات کے لیے مذہب کا ہونا ضروری ہے.
پھر بعض حضرات کے اذہان کے نہاں خانوں میں یہ سوال بھی کھٹکتا ہے کہ دنیا میں ایسی بھی اقوام ہیں جن کےہاں مذہب کا کوئی تصور نہیں ان کے ہاں بھی اخلاقیات پائی جاتی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ بنیادی اخلاقیات انسانی فطرت میں قدرت کی طرف سے ودیعت کی گئی ہے
تو ہم یہ کہہ کر بری الذمہ ہو جائیں کہ مذہب کا اخلاقیات سے کوئی تعلق نہیں مذہب کو ہم ایک طرف لاکھڑا کر دیں۔۔
اور یہ کہتے رہیں کہ مذہب اور اخلاقیات الگ الگ چیزیں ہیں
حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو مذہب کا بنیادی مقصد ہی اخلاقیات کی تطہیر ہے اسی کا تزکیہ ہے ۔
قرآن حکیم نے تو بڑی صراحت کے ساتھ اخلاقی اصول متعین کر دیے ہیں۔
عدل احسان حقوق العباد کا جگہ جگہ تذکرہ آتا ہے۔
پھر ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ جب مذہب میں اخلاقیات ہے تو پھر عبادات کیوں؟
لیکن ہم باریک بینی سے سوچیں تو اخلاقی تعلیمات عبادات کا بھی تقاضا کرتی ہے جب ایک شخص اخلاقیات کی بنیاد پر اپنے والدین کی خدمت کے لیے وقت نکال سکتا ہے تو کیا وہ شخص اس مالکِ حقیقی کی عبادت کے لیے چند منٹس نہیں نکال سکتا جس نے اسے تخلیق کیااور طرح طرح کی نعمتوں سے نوازا..
سو مذہب کو اخلاقیات سے جدا نہیں کیا جا سکتا مذہب سارا کا سارا اخلاقیات ہی تو ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں