ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہو گا؟
تحریر جئیند ساجدی
کوئی مفلس سے پوچھے کہ دو اور دو کتنے ہوتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ چار روٹیاں، اس کہاوت کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ مفلس کا دماغ مفلسی اور غربت کی وجہ سے کام نہیں کرتا اور اپنے پیٹ تک ہی محدود رہتا ہے۔ مفلس ہر چیز کو اپنے پیٹ کی ضروریات کی مناسبت سے دیکھتا ہے۔ موجودہ وزیراعظم عمران خان اور ان کی کابینہ اس کہاوت کی عمدہ مثالیں ہیں کورونا وائرس ایک عالمی وباء ہے اس سائنسی اور ترقی یافتہ دور میں بھی ہے ترقی یافتہ ممالک بھی اس وباء کے سامنے بے بس ہو گئے ہیں قدرت نے ایک بار پھر سے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ انسان جتنی بھی سائنسی اور تکنیکی ترقی کرلے لیکن وہ پھر بھی قدرت کے آگے بے بس ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ عمران خان اور ان کی کابینہ ابھی تک اس وباء کی نوعیت سے نہ واقف ہیں اور اس وباء کو قابو کرنے کیلئے کوئی مثبت اقدامات نہیں اٹھا رہے ہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک کی طرف اپنی مفلسانہ آنکھیں بچائے ہوئے ہیں۔اگرچہ پاکستان کی مفلسی کی یہ بیماری کوئی نئی نہیں بلکہ بہت پرانی ہے۔ یہ بیماری اس کو اس کے قیام کے وقت ہی لگ گئی تھی۔ سرد جنگ کے وقت پاکستان نے سوویت کی بجائے امریکہ کی حمایت کرنے کا فیصلہ اپنی مفلسانہ سوچ کی وجہ سے کیا تھا۔ اس مفلسانہ سوچ کی وجہ سے حکمرانوں نے ریکوڈک‘ سیندک اور گوادر پورٹ کو اس قیمت پر چین کو دیا جیسے کوئی دشمن کے مال کو دیتا ہے۔ان کی اس مفلسانہ سوچ کا شکار نہ صرف یہاں کی عوام ہوئی ہے بلکہ یہاں سائیبریا اور روس سے آنے والے پرندوں کو بھی اس کی قیمت چکانی پڑی ہے چار پیسوں کی خاطر یہاں کے حکمران عربوں کو معصوم پرندوں کے شکار کی اجازت نامے دیتے رہے ہیں۔ اس ملک کو مفلسی کی ایسی عادت لگ گئی ہے کہ 2006کو کشمیر اور شمالی علاقہ جات میں آنے والا زلزلہ ہو یا وقتاً فوقتاً آنے والے سیلاب یہاں کے حکمرانوں کی آنکھیں ہمیشہ بیرونی امداد کی طرف ہی لگی رہی ہیں۔ماضی میں بیرونی امدادکا فائدہ عام عوام کی بجائے حکمرانوں کو ہی ملتا رہا ہے۔ بیرونی امداد کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ بیرونی امداد امیر ملک کے غریب عوام سے لیاجاتا ہے اور اس کو غریب ملک کے امیر افراد کو دیا جاتا ہے۔موجودہ وزیراعظم کوبھی چندہ لینے کی پرانی عادت ہے یہ عادت ان کو اس وقت پڑی تھی جب وہ سیاست کے میدان میں اترے بھی نہیں تھے۔انہوں نے اپنا کینسر ہسپتال چندہ لے کر بنایا اور چندہ لے کرہی اس کو چلا رہے ہیں۔ لہذا اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ اس وباء پر قابو پانے کیلئے انہوں نے امیر ممالک سے یہ اپیل کی کہ وہ پاکستان کے قرضے معاف کریں۔اس کے علاوہ ان کی معاون خصوصی برائے اطلاعات نے عوام کو یہ خوشخبری سنائی تھی کہ کورونا وائرس کی وجہ سے پاکستان کو امریکہ دس لاکھ ڈالر کی امداد دے گا۔ کچھ روز قبل ہی عمران خان نے عوام سے خطاب کرتے ہوئے اپنی مفلسی کا اظہار کیا کہ ان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ اس وباء کا مقابلہ کر پائیں انہوں نے مزید اپنی مفلسی ظاہر کرتے ہوئے یہ کہا کہ وہ مکمل لاک ڈاؤن نہیں کریں گے کیونکہ پاکستان کے معاشی حالات چین یا اٹلی کی طرح نہیں کہ یہاں وہ مکمل لاک ڈاؤن کر سکیں۔انہوں نے اس بات کی وضاحت کچھ اس طرح کی کہ مکمل لاک ڈاؤن سے دیہاڑی دار مزدور‘ ٹیکسی چلانے والے اور چھوٹے کاروبار کرنے والے افراد بھوک سے مر جائیں گے انہوں نے عوام سے درخواست کی کہ وہ کسی افراتفر ی کا شکار نہ ہوں۔ لیکن وہ اپنی متعدد پریس کانفرنسز میں خود ہی افراتفری پھیلا تے رہے ہیں۔ موصوف نے خود اسلام آباد کا مکمل لاک ڈاؤن 2014ء میں نواز حکومت کے خلاف کیا تھا ان کو دیہاڑی والے مزدوروں کا خیال اس وقت نہیں آیا۔ ان کو اپنی اس مفلسانہ سوچ کی وجہ سے ابھی تک اس بات کا ادراک نہیں ہوا کہ امریکہ اور مغرب اس وقت ان کی مالی امداد کرنے کی پوزیشن میں نہیں یورپ اور امریکہ خود اس وباء کا مرکز بن گئے ہیں۔ اور امریکہ میں متاثرہ افراد کی تعدادسوا لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔یورپ کے تو شائد وجود کو خطرہ ہے۔اپنے قیام کے 27 سال بعد یورپی یونین کے تمام ممالک نے اس مرض سے بچنے کی خاطر اپنے بارڈر بند کردیئے ہیں۔ یورپی یونین پاکستان کی تو کیا بلکہ یورپی یونین کے ایک اہم ملک اٹلی کی بھی کوئی مدد نہیں کر پا رہی اور اٹلی کے وزیراعظم گوپسی کونٹے جو یورپی یونین کے بہت بڑے حامی ہیں۔ انہوں نے طیش میں آ کر اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ مشکل کی اس گھڑی میں کسی بھی یورپی ملک نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ سپین جو اٹلی کے بعد یورپ کا دوسرا شدید متاثر ہونے والا ملک ہے وہ کمیونسٹ یا سوشلسٹ طرز حکومت کے ماڈل کو اپنانے پر مجبور ہو گیا ہے۔ کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ سپین کے سرکاری ہسپتال ان مریضوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکے اور اس کے پیش نظر سپین کی سرکار نے تمام نجی ہسپتالوں کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے اور آنے والے دنوں میں بھی اندیشہ ہے کہ اگر سپین کا سرکاری خزانہ خالی ہو جائے تو وہ اپنے ملک کی نجی کمپنیوں کو بھی اپنی تحویل میں لے سکتا ہے۔امریکی ریاست نیو یارک کے میئر نے بھی بیان دیا ہے کہ ان کے پاس وسائل ختم ہو گئے ہیں اور وفاقی حکومت سے مدد طلب کی ہے۔امریکہ نے 12ریاستوں میں لاک ڈاؤن نافذ کر دیا ہے عین ممکن ہے کہ اگر امریکی حکومت کے پاس وسائل نہ ہوں تو سرمایہ دارانہ نظام کا سب سے بڑا حامی ملک بھی عارضی وقت کیلئے سوشلسٹ نظام حکومت کی طرف چلا جائے گا۔ ایک مشہور کہاوت ہے کہ ”خیرات اپنے گھر سے شروع ہوتی ہے“ اس وقت یہ وباء 190 ملکوں میں پھیل چکی ہے کوئی ملک دوسرے کی مدد کی پوزیشن میں نہیں اور یہ تمام ممالک خیرات کا آغاز اپنے گھر سے ہی شروع کریں گے اور اپنے تمام تر وسائل اپنے عوام پر خرچ کریں گے لیکن عمران خان ابھی تک خیرات کے انتظار میں ہیں اور حقیقی صورتحال سے ناواقف دکھائی دیتے ہیں۔
بلوچستان میں تو لوگوں کی وزیراعظم کے بارے میں رائے عامہ یہ ہے کہ وہ جان بوجھ کر یہ وباء یہاں لے کر آئے ہیں تاکہ چند انسانی جانوں کے گنوانے کے عیوض وہ عالمی دنیا سے چندہ لے سکیں انہوں نے جو احکامات جاری کئے تھے اس کی وجہ سے سب سے پہلے یہ وباء بلوچستان میں پھیلا اوربعد میں ملک بھر میں۔انہوں نے تفتان بارڈر کھول کر بڑی تعداد میں زائرین کو بلوچستان آنے دیا اور قرنطینہ قائم کرنے کے بجائے زائرین کو مہاجر کیمپ کی طرح تمبو میں رکھا۔ اس سے یہ ہوا کہ جو اس مرض کا شکار نہیں بھی تھا وہ بھی اس مرض کا شکار ہو گیا تفتان سے زائرین کو کوئٹہ میں لا کر بھی قرنطینہ کی بجائے مہاجر کیمپ کے طرز کے تمبوؤں میں رکھا گیا۔بلوچستان حکومت اس سلسلے میں بلکل بے بس تھی کیونکہ یہ اقدام وزیراعظم نے ان کی مشاورت کے بغیر اٹھایا تھا۔ لیکن بلوچستان حکومت میں بھی عمران خان جیسے ذہین اور دانشمند لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔صوبائی حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے بڑے فخر سے اپنے ٹوئیٹر اکاؤنٹ پر زائرین کیلئے کوئٹہ میں باربی کیو پارٹی کی تصاویر شیئر کیں اور یہ لکھا بلوچستان حکومت زائرین کی مہمان نوازی میں مصروف ہے لہذا زائرین کے لئے شادی بیاہ کی دعوت کی طرح دعوت کا انتظام کیا گیا تھا۔لیاقت شاہوانی کی جانب سے اس بار بی کیو پارٹی کے مزے لینے والے زائرین کو بھی لیاقت شاہوانی کی طرح اس خطرناک وباء کی نوعیت کا اندازہ نہیں تھا۔
آخر میں نا اہل حکمرانوں کے بعد بات کرتے ہیں عام عوام کی جنہوں نے اس وباء کو پھیلانے میں اپنی حکومت کا بھر پور ساتھ دیا ہے۔تاخیر سے ہونے والے حکومتی لاک ڈاؤن کے باوجود عوام اپنے اور دوسروں کی حفاظت کے پیش نظر اپنے گھروں میں آرام نہیں کر رہے جس کے نتیجے میں بالآخر سندھ حکومت مجبورہو کر لاتوں اور ڈھنڈوں کا استعمال کیا۔شاید تمام صوبائی حکومتوں کو مجبوراً یہی طرز عمل اپنانا پڑے گا کیونکہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔کچھ روز قبل جمعہ کی نماز سمیت تمام مذہبی اجتماعات پر حکومت نے پابندی عائد کی تھی تاکہ اس وباء کے پھیلاؤ کو روکا سکے۔ لیکن پابندی کے باوجود گزشتہ جمعہ کو ہی حسب معمول کی طرح لوگ نماز پڑھنے گئے تھے جس سے ایک شعرکا مصرعہ دماغ میں آتا ہے کہ
”برباد گلستان کرنے کو بس ہی الو کافی تھا
ہر شاخ پر الو بیٹھا انجام گلستان کیا ہوگا“
شکریہ