موہن داس کرم چند گاندھی کی پاکستان یاترا کی خواہش
ڈاکٹرمصباح ہارون خان
15 اگست 1947 کے بعد ہندوستان سے آئے مسلمان مہاجرین اور پاکستان سے گئے ہندوستان میں ہندو مہاجرین جب گئے تو مسلمان مہاجرین کی طرح ہندو مہاجروں کی روح پر بھی زخم تازہ تھے. جناح نے ہندوستانی مسلمان مہاجروں کو کیمپوں میں ٹھہرایا تو پاکستان سے گئے ہندو مہاجرین کو وہاں کے آشرموں میں سہارا دیا گیا.
جناح نے مخدوش کیمپوں کے نظام کے پیش نظر امریکہ سے دو ارب ڈالر کی امداد مانگی, جس میں زیادہ تر امداد فوجی بحری اور فضائی قوتوں کے لیے مختص تھی اور کچھ حصہ محکمہ زراعت سمیت انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کے لئے بھی تھا. مگر امریکہ نے مالی امداد سے معذرت کرتے ہوئے کچھ کمبل مہاجروں کے کیمپوں والی بستی کے لیے عطیہ کیے اور یوں امریکہ نے ایڈ نہیں ٹریڈ کی بنیاد ڈالنی چاہی. مگر اس مہاجرین کیمپ والی بستی کے لیے زیادہ تر امداد کراچی کے مقامیوں کی اکثریت بلوچ, سندھی اور دیگر کمیونٹی میں بھوری, پارسی, میگوار,کچھی میمن اور مسلمان بمبیا تاجر برادری نے کی. دن کا ناشتہ اگر ان کیمپوں میں پاکستان کی سب سے قدیم لیاری میں مقیم بیکری سعید بیکری سے جایا کرتا تھا, تو دوپہر کا کھانا گبولوں, شیدیوں, بوزداروں اور ساجد یوں کے گھروں سے جاتا جاتا تھا تو رات کے کھانے کا انتظام بمبیا خاندان اور پارسی لوگ کیا کرتے تھے, صفائی ستھرائی کا تمام انتظام میگواروں نے سنبھال لیا تھا. صدر میں مقیم بوری جماعت خانہ اور کچی میمن برادری کی مسجدوں نے نمازیوں کے لئے صفوں کا اور وضو کے لئے پانی کا انتظام بھی کیا. اسپتالوں میں مریضوں کو لانے لے جانے کے لیے نیازیوں نے اپنی اونٹ گاڑیاں بھی پیش کر دی تھیں.
محمد علی جناح اردو زبان رائج کرواتے ہی مسلم لیگ کے قائد سے ملک کے قائد اعظم بن گئے, مگر جب موہن داس کرم چند گاندھی کو ان کے لوگوں نے کہا کہ جناح وہاں قائداعظم بن گیا ہے اور آپ کیوں اپنا کوئی اچھا سا خطاب نہیں رکھواتے ہو تو گاندھی نے کہا میرے مرنے کے بعد میری چتا میں میرے سارے لکھے ہوئے کاموں کو جلادینا کیونکہ میں اپنے کرم سے زندہ رہنا چاہتا ہوں نہ کہ سرکاری خطابوں سے. اس وقت تک لوگ گاندھی کو مہاتما نہیں نہیں بلکہ باپو کہا کرتے تھے.
گاندھی نے جہاں جہاں ہندو مسلمان فسادات ہوئے ادھر کے ہنگامی دورے کر کے وہاں کے مسلم کش فسادات رکوائے, گاندھی نے ہندوستان میں مسلم کش فسادات رکوانے کے لئے اپنے آشرم میں قرآن خوانی بھی کروائی اور اپنے لوگوں کو یہ بھی سمجھایا کہ کچھ برے لوگوں کے کرم سے قرآن کی تعلیمات کا کوئی لینا دینا نہیں ہے. اور یہاں جناح نے بھی فسادات کی وجہ جان کر ایک بہت ہی اہم فوجی آفیسر کو غفلت برتنے پر ناپسند کرکے ڈھاکہ میں تبادلہ کروا دیا. جناح کے اپنے رفیقوں نے جو کہ بہت ہی اہم وزارتوں پر تعینات تھے جناح کی باتیں سننے سے صاف انکار کر دیا تھا اور جناح کو گورنر ہاؤس میں ایک نمائشی گورنر جنرل کے طور پر قید کر کے رکھ دیا تھا.
گاندھی کی چند آخری خواہشات میں سے ایک خواہش یہ بھی تھی کہ وہ راولپنڈی, لاہور اور کراچی کے دورے پر پاکستان آنا چاہتا تھا. گاندھی کے اپنے لوگوں نے جب گاندھی کو سمجھایا کہ پاکستان جانا آپ کے لیے خطرناک ہے تو گاندھی نے کہا, "میں لاہور جانا چاہتا ہوں۔ میں کسی پولیس یا فوجی محافظوں کے ساتھ نہیں جانا چاہتا ہوں۔ میں پر اعتماد ہوں اور وہاں کے مسلمانوں پر بھروسے کے ساتھ جانا چاہتا ہوں۔اگر وہ مجھے قتل کرنا چاہے تو ان کو قتل کرنے دو۔ لیکن حکومت مجھے کیسے روک سکتی ہے؟ اگر وہ مجھے روکنا چاہتے ہیں تو انہیں مجھے مارنا پڑے گا۔ اگر وہ مجھے مار دیتے ہیں تو، میری موت آپ کے لئے سبق چھوڑ دے گی۔”
گاندھی کو ہندوستان کے لوگ مسلمانوں کا اور پاکستان کا خیر خواہ سمجھنے لگ گئے تھے, گاندھی کو کچھ دنوں بعد موہن برت پر قتل کر دیا گیا. آج ہندوستان میں گاندھی کے قاتلوں کا بول بالا ہے اور پاکستان کی نظریات اپناتے ہوئے ہندوستان کے لوگ بھی ہندوستان کو ایک ہندو ملک بنانے کی ضد پر اڑ گئے ہیں. مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ جہاں پاکستان میں ہندوؤں کو زبردستی ہجرت کرنے پر مجبور کیا گیا وہی کئی ہندوؤں کے مندروں کو بھی گرایا گیا اور کئی شہروں کے نام ہندو ناموں سے بدل کر مسلمان نام رکھ دیے گئے اور اور شہروں میں نصب ان کے بتوں کو بھی اتار کر پھینک دیا گیا. افسوس کا عالم یہ ہے کہ میں کراچی کے مقامیوں کی نسل ہونے کے باوجود بھی آج کراچی میں گاندھی روڈ کہاں تھی اس سے ناواقف ہوں. کراچی جو امن کا گہوارہ تھا, جو دنیا کا سب سے خوبصورت اورصاف ستھرا شہر تھا, جہاں کے لوگوں کی بھائی چارگی کی مثال پوری دنیا میں دی جاتی تھی, آج اس کی ثقافت صرف روڈوں پر چلتی ہوئی ٹوٹی پھوٹی بسیں اور گندی بریانی کی پلیٹیں بن کر رہ گئی ہے۔