پی ڈی ایم کے غبارے سے نکلتی ہوا ……

تحریر: راحت ملک
گزشتہ سے پیوستہ
چنانچہ عوامی احتجاج جلسے جلوسوں کے ذریعے سیاسی دب آکی حدت میں اضافہ کر کے حکومت اور اداروں کے "ایک پیج پر” ہونے کے غیر آئینی موقف یا صورتحال میں دراڑ نما گجائش تراشنا پی ڈی ایم کی حکمت عملی کے طے شدہ اغراض تھے۔گوجرانوالہ کے جلسے سے اس کا جس طور آغاز ہوا وہ ان لوگوں کے لئے حیرت انگیز بلکہ خطرے کی گھنٹی کا درجہ رکھتا تھا جن کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ قومی جمہوری تحریک کے رہنماء واشگاف الفاظ میں "ووٹ کو عزت دو” کے نعرے ایسی تشریح کرتے ہوئے عوام کو کھل کر بتائیں گے کہ ووٹ کی عزت پامال کرنے والے کون ہیں؟اس جلسہ کے بعد درباری دانشوروں کیجانب سے چیخ وپکار اور پھٹی آنکھوں کے ساتھ غصیلے پن سے سچ عوام کے سامنے لانے والوں پر ملکی دشمن کے الزامات وارد ہونے لگے۔ یہ سب کچھ پی ڈی ایم کے طرز بیان وفغان کو مدھم کرنے۔اتحاد کو تقسیم کرنے کی سعی لاحاصل تھی یا باالفاظ دیگر جسے اکابرین نے بیان بھی کیا کہ اب تو پی ڈی ایم سے این آر او مانگا جارہا ہے
لیکن تمام رہنم آں نے بلاتفاق جبکہ بالخصوص میاں نواز شریف نے آئین وپارلیمان کی بالا دستیکے موقف بارے ٹھوس اور سرخ لکھیر کھینچ دیت تو تمام رابطہ کاروں کو غیر مبہم طور پرکہا گیا کہ آئین پاکستان کی سرخ لکیر کی جس جانب ان کے فرائض منصبی طے شدہ ہیں وہ انہی پر اکتفا کریں تو ٹھیک لیکن اس سرخ لکیر کو مٹانے کی کسی کوشش کو قبولیت ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اس دوٹوک اور واضح موقف کیمادی اثرات نمو دار تواتر سے بڑھ رہے تھے کہ کرونا وباء کی دوسری لہر نے پاکستان سمیت دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا حکومت نے اس موقع کو اپنے لئے غنیمت جانا ہر روز۔ وزراء اور ترجمان پی ڈی ایم کے جلسوں پر کرونا پھیلانے کا الزام دہراتے،سیاسی جماعتوں کو بیحس کہتے جو لوگوں کو کرونا سے بچانے کی بجائے اجتماعات کے ذریعے کرونا پھیلاتے میں مصروف ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ احتجاجی جلسوں میں آیے تعطل کے ساتھ ہی کرونا اور کرونا کے عقب میں چھپ کر عافیت کی متمنی حکومت کی آہ و بکا بھی گہرے سکوت میں ڈوب گئی ہے۔تحریک میں آھستگی اور جلسوں کے انعقاد میں وقت کے طویل وقفوں کی غلطی پھر سینیٹ انتخابات کا سر پر آن پہنچنا۔ اس کے نتیجے میں تحریک جس ٹھہر آکا شکار ہوئی اسے ناقدین و حکومتی ہمنو آں نے ناکامی کا عنوان دینے عجلت دکھائی ہے حالانکہ یہ عرصہ بدلے ہوئے حالات اور تحریک کے مرتب کردہ اثرات کے جائزے اورحکمت عملی پر
از سر نو غور کر کے آگے بڑھنے کا وقفہ ہے۔ سوال یہ بھی تھا کہ اگر سینیٹ کے ذریعے ایوان بالا میں آجانے والی عددی تبدیلی کے مابعد اثرات کو کیسے روکا جائے؟اس کا ایک جواب سینیٹ کے الیکٹرول کالج کو ختم میں مضمر تھا جو صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا متقاضی تھا۔حکومت نے سینیٹ کے مجوزہ انتخابی شیڈول میں تبدیلی کے ذریعے پی ڈی ایم کی حکمت عملی کو مخمصے کا شکار کیا استعفوں کی صورت میں ایک خدشہ جسے مکمل یقین سے رد کرنا ممکن نہ تھا کہ حکومت دستیاب عرصہ میں اپنے سرپرستوں کی اعانت سے اگر سینیٹ کے انتخابات کرانے پر مصر رہے تو پھر اسے ایوان بالا میں مکمل اکثریت مل سکتی ہے جسے اقتدار واختیار کے فریقین فوری طور پر آئین میں من پسند ترامیم کے لئے استعمال کریں گے بھلے بعد میں اس پر جتنا بھی شور اٹھے ان کی بلا سے۔اس سوال کا تقاضا تھا کہ پی ڈی ایم مستعفی ہونے کی بجائے سینیٹ میں اپنی طاقت میں کمی آنے کے امکانات کا تدارک کرے اسکا منطقی نتیجہ یہی تھا کہ گو کہ جنوری 21 میں دھرنا اور استعفے دینے کا اعلان کیا جاچکا ہے مگر سیاسی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے عملیت پسندی کی راہ اپنائی جاییاور دھرنے یا مستعفی ہونے کے فیصلے کو کچھ عرصہ کے لئے ملتوی کر لیا جائے پی ڈی ایم نے یہی راستہ اپنایا ہے جسے عمومی ملکی مباحثے میں بوجوہ اوجھل کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
اب آگے کیا ہوگا؟ لیکن اس گفتگو سے پہلے پی ڈی ایم کی سیاسی کامیابی کے دوررس پہلوؤں پر بات کرنا برمحل ہوگا۔
یوں تو قیام پاکستان سے ہی پاکستان میں قومی سوال ایک سلگتا مسئلہ رہا ہے جس کی شدت میں مختلف ادوار میں تیزی و کمی آتی رہی ہے تاہم آمر جنرل پرویز مشرف کے سیاہ ترین دور نے وفاق پاکستان کے کم آبادی والی وفاقی اکائیوں میں اس سوال کو از سر نو توانائی بخشی۔گوادر بندرگاہ منصوبے کی دستاویز کو خفیہ رکھنے اور بعض دیگر غیر آئینی اقدامات نے بلوچستان و کے پی میں خاص کر جبکہ سندھ میں ذرا کم شدت کے ساتھ عوام کے ایک بڑے حصے میں وفاق سے برگشتگی،ناراضی اور مایوسی کو جنم دیا تاحال ان علاقوں میں امن وامان کی مخدوش صورتحال مسلح مزاحمتی تحریک جسے ناراض نوجوانوں کے غم وغصہ کا سطحی نام دیا جاتا ہے۔اورجو ملکی جغرافیائی بندوبست سے علیحدگی کے لئے اپنی بساط کے مطابق متحرک ہیں یہ بعید از قیاس نہیں کہ انہیں ملک کے ازلی دشمن کی معاونت میسر نہ ہو تاہم بنیادی سوال یہ ہے کہ ان ناراض نوجوانوں کو ریاست سے ناراض کس نے،کن اقدامات اور پارلیسیوں کے ذریعیکیا ہے؟کیا ہمارے
با اختیار حلقے کے مروج مائنڈ سیٹ اور پالیسی کو ملکی سلامتی کو لاحق کرنے سے بری الذمہ قرار دینا ممکن ہے؟ میرے ملک اور سرزمین پر باہم برادر کش مسلح جدوجہد کے نتیجے میں بہنے والے خون کی ذمہ داری سے ان کی روائتی پالیسیوں اور ڈنڈے کے زور پر سب کچھ درست کر لینے کے خود ساختہ زعم کو بری الذمہ سمجھنا قرین حقیقت یا حب الوطنی کے آفاقی اصول سے ہم آہنگ ماننا درست ہوگا؟اس کا جواب نفی میں ہے اورپی ڈی ایم وہ سیاسی پلیٹ فارم ہے جس نے پورے ملک کے حساس علاقوں میں ریاست سے بیگانگی و برگشتگی میں مبتلا وفاقی اکائیوں کی معتبر سیاسی جماعتوں وقائدین کو تمام تر خدشات کے باوجود وفاق پاکستان کے جھنڈے تلے یکبار دیگر اکٹھا کر کے وفاق و وفاقیت کو مضبوط سہارا نہیں دیا؟اگر کسی کے پاس اس نتیجہ سے مختلف نقطہ نظر ہے تو براہ کرم اسے بیان کیا جائے۔میری رائے ہے کہ پی ڈی ایم موجود ہائی برڈ سیاسی تجربے سے ملک وعوام کو بچانے میں کامیاب ہو پا ناکام. مگر اس نے تاحال جس طرح ملک کی تمام اہم سیاسی جماعتوں دائیں بازو کے اکابرین مذہبی سیاسی جماعتوں قوم پرست قیادت اور رائٹ ونگ کی سوشل ولبرل جمہوری جماعتوں کو دستور پاکستان کے سائے تلے ایک جمہوری وفاقی پارلیمان وپارلیمانی ریاست کے ساتھ جوڑ کر مربوط کردیا ہے تاریخ اس عمل کی کامیاب سیاسی جدوجہد کو ہمیشہ شاندار الفاظ کے ساتھ محفوظ رکھے گی۔یاد رہے کہ یہ عمل پنجابی سیاسی رہنماء اور اس کی جماعت کی جانب سے ریاست کے اوپر ریاست کے ناپسندیدہ کردار کو بے نقاب کرتے اور ہدف تنقید بنا کر حاصل کیا گیا ہے جسے ملک گیر عوامی مقبولیت ملی ہے اور جمہوری سیاسی مزاحمت کیا جارہا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مزاحمتی جدوجہد کو توانا بنانے کے لئے ملک کے تمام طبقات ہم آواز ہوں اور پاکستان کو آزاد مستحکم خوشحال جمہوری مملکت بنانے میں اپنا ہاتھ بٹائیں۔
فروری کا پہلا عشرہ ملکی سیاست کے مستقبل کا رخ متعین کرنے جارہا ہے حکومت سینیٹ انتخابات میں خفیہ رائے شماری ختم کرنے کے درپے ہے۔اس بحث کے دو پہلو ہیں ایک سیاسی دوسرا آئینی۔سردست میں اپنی گفتگو آئینی پہلو تک محدود رکھوں گا۔2فروری کو صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران محترم چیف جسٹس آف پاکستان نے سوال اٹھایا کہ اگر آئین میں انتخابات /رائے شماری کا طریقہ درج نہیں تو حکومت الیکشن قواعد میں ترمیم کرسکتی ہے۔ جناب چیف جسٹس نے استہفامیہ لہجے میں اپوزیشن کے متعلق ارشاد فرمایا کہ وہ اس حوالے سے تعاون کرنے سے گریزاں کیوں ہے؟(مفہوم نقل کیا ہے)
اگر آئین میں سینیٹ انتخابات خفیہ رائے شماری کے ذریعے کرانے کی دفعہ/شق موجود نہیں تو سوال یہ ہے حکومت کس لیے صدارتی ریفرنس لے کر سپریم کورٹ گئی ہے؟ علاوہ ازیں وہ کون سی آئینی دفعات ہیں پر جن میں ترمیم کے لئے مسودہ مرتب کیا گیا ہے؟
آئین کا آرٹیکل 226 واضح طور پر بتایا ہے کہ
”تمام الیکشن آئین کے تحت ماسوائے وزیراعظم وزراء اعلیٰ ہونگے بذریعہ خفیہ رائے شماری“(یہ دفعہ اتھارہویں ترمیم کے تحت تبدیل ہوئی تھی)
اس شق میں سینیٹ کے انتخابات خفیہ رائے شماری سے کرانے کی غیر مبہم پابندی موجود ہے جبکہ شق نمبر59کی ذیل دفعہ کے مطابق ”سینیٹ میں ہر صوبے کے لئے متعین نشستوں کو پر کرنے کے لئے انتخاب واحد قابل ٍ انتقال ووٹ کے ذریعے متناسب نمائندگی کے نظام کے تحت کیا جانا ہے۔ دریں اثنا سینیٹ کے آمدہ انتخابات سے قبل آئین کی شق59الف میں بھی ترمیم کی ضرورت ہوگی جس میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات(فاٹا) کے لئے آٹھ ارکان سینیٹ مختص ہیں۔
چونکہ اب فاٹا کے پی کے کا حصہ بن چکا ہے تو پھر متذکرہ صدر آٹھ سینیٹرز کا انتخابات کیسے ہوسکتا ہے؟نیز ایوان کی عمومی 104نشستوں میں فاٹا کے آٹھ ارکان کی کمی کس طرح پوری ہوگی؟کیا یہ ترمیم طلب آئینی دفعات نہیں۔؟
سپریم کورٹ صدارتی ریفرنس پر کیا رائے دے گی۔اس بارے میں پیشگی تبصرہ مناسب نہیں تا ہم یہ قانونی سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا سپریم کورٹ آئین کی کسی غیر مبہم اور غیر متناقض دفعہ کو کالعدم قرار دے سکتی ہے؟نیز واضح آئین شق کی موجودگی میں اس کے منافی قانون سازی کے لئے احکامات جاری کر سکتی ہے؟سپریم کورٹ کا فیصلہ اور اسی کے ساتھ بذریعہ پارلیمان آئینی ترامیم کرانے کی حکومتی جستجو سینیٹ انتخابات کے ساتھ سیاسی صورتحال کی سمت شدت اور نوعیت بھی متعین کرے گی!
اگر حکومت نے بلڈوز کرتے ہوئے آئینی ترامیم کرائیں تو اس کے نتیجے میں بعید از قیاس نہیں کہ پی ڈی ایم سینیٹ انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہونے سے چند روز قبل صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہو کر ساری صورتحال کو چوپٹ کردے۔
4فروری کو پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس اگر جناب بلاول بھٹو کی پیش کردہ عدم اعتماد کی تجویز قبول کرلیتا ہے تو سینیٹ انتخابات سے قبل عدم اعتماد کی تحریک کا آنا ممکن ہوگا بصورت دیگر استعفے یا لانگ مارچ کی تاریخوں کا اعلان ہوگا شاید ایسا مارچ کے پہلے ہفتے میں ہو تاہم ترامیم کا انداز اور سپریم کورٹ کا فیصلہ حکومت کے لئے مشکل تر حالات پیدا کرسکتے ہیں ادھر براڈ شیٹ نے 2.2ملین ڈالر جرمانے کی مد کی بقیہ رقم کے لیے فوری ادائیگی کا نوٹس دیا ہے جو حکومتی مشکلات میں اضافہ لائے گا۔قارئین گزشتہ تین ہفتوں میں وزیراعظم آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف کی ٹرائیکا کی چو تھی ملاقات درون ٍ خانہ مسائل کی موجودگی کو نمایاں کرنے والے سلسلہ ٍعمل ہے اسکے کیا نتائج ہونگے؟ سوچئے۔!

اپنا تبصرہ بھیجیں