حب میں باثر قبضہ مافیاایک بار پھر سرگرم

حب بلوچستان کا بڑا صنعتی شہر ہے جسے کراچی کے قریب واقع ہونے کی بناء پرمنفرد حیثیت حاصل ہے۔حب سے تھوڑے فاصلے میں ایشیاء کا سب سے بڑا شپ بریکنگ مرکز گڈانی قائم ہے۔یپہاں ماربل سٹی قائم کر نے کا اعلان بھی کیا جا چکا ہے۔چونک حب آر سی ڈی ہائی وے پر آباد ہے اس لئے نقل و حمل کی سہولیات بھی دستیاب ہیں۔ حب ندی پر واقع پل پار کرتے ہی کراچی کی حدود شروع ہوجاتی ہیں۔ یاد رہے قبضہ مافیاز صرف قیمتی سرکاری اور نجی موروثی زمین پر قبضہ نہیں کرتیں بلکہ ا س کی آڑ میں ان کے ساتھ ہمہ اقسام جرائم کے کارندے اور ان کے سرپرست بھی اپنے اڈے قائم کرلیتے ہیں اورپھر اپنی عادت اور مجرمانہ سرگرمیوں کے لئے نت نئے قانونی اور سماجی مسائل کی پرورش میں مصروف رہتے ہیں۔حب میں پہلے ہی ندی نالوں پر قبضہ کریں گے۔اس حقیقت سے کوئی ذی ہوش شخص انکار نہیں کر سکتا کہ کراچی کے رسوائے زمانہ مجرم یہاں برسوں مقیم رہے ہیں، سب واقف ہیں۔وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان عالیانی کا حب سے گہرا تعلق ہے۔ حب کے ناظم بھی رہ چکے ہیں اور اسی شہر کے مرکز میں مین شاہراہ پر ان کی رہائش گاہ ہے۔حب کی زمینوں پر مافیاز کی جانب سے مختصر وقفوں کے بعد ایسی ہی غیر قانونی حرکات دیکھنے میں آتی ہیں۔قبضے کی حالیہ کوشش آر سی ڈی شاہراہ کے اطراف میں دارو ہوٹل کے قریب بھوانی گجر گوٹھ اور گلاداری سیمنٹ فیکٹری سے متصل پہاڑی اوراس کے دام،ن میں 400ایکڑ سے زائد اراضی پر راتوں رات جھونپڑیاں ڈال کر کراچی اور دیگر علاقوں سے لائے گئے لوگوں کوآباد کر دیا ہے۔اس بارے میں متأثرین کا کہنا ہے کہ مقامی انتظامیہ اور پولیس سے رجوع کیا تو جواب میں کوئی مدد کرنے کی بجائے خاموش رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔متأثرین کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس پٹوار خانہ، ریونیو ڈیپارٹمنٹ کا تمام ریکارڈ موجود ہے مگر پولیس اور انتظامیہ جائز مالکان کے برعکس مافیاز کی مددگار بنی دکھائی دیتی ہے۔مذکور ہ قبضہ کے بعد پولیس اور انتظامیہ کے لاتعلق رویہ سے یہ خطرہ بڑھ گیا ہے کہ کسی وقت بھی فریقین کے درمیان خونی تصادم رونما ہو سکتا ہے۔اور شہریوں کی جان و ما ل غیر محفوظ ہو چکی ہے۔ویسے بھی 400ایکڑ اراضی ایک وسیع و عریض رقبہ ہے، یہ 400مربع گز کا پلاٹ نہیں کی کسی کو دکھائی نہ دے۔دوسری قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ اس حکومت کے دور میں ہو رہا ہے جس کا بنیادی نعرہ”ہر معاملے میں شفافیت“ ہے۔ 400ایکڑ انتہائی قیمتی اراضی کا راتوں رات سرکار اور نجی مالکان کے ہاتوں سے نکل کر قبضہ مافیا کو منتقل ہوجانا انتہائی نقصان دہ رویہ ہے جس کے نتائج ہماری آئندہ نسلوں کو بھگتنا ہوں گے۔ اس لئے اس ناجائز اور غیر قانونی اقدام کے صرف یہ معنی نہیں ہوں گے کہ زیربحث اراضی کے مالکان کے نام تبدیل ہو رہے ہیں۔یہ اقدام اپنی کوکھ میں درجنوں اقسام کی مجرمانہ ذہنیت کے حامل متحارب گروہوں کی بہت بڑی کھیپ کی پرورش،ان کی سرپرستی اور ان کے ذریعے اس علاقے کے پر امن، شریف اور دیانت دار لوگوں کو اپنا غلام بنانا بھی غیر تحریری زبان میں درج ہوتا ہے۔لیاری کراچی کا انتہائی مہذب، پڑھا لکھاعلاقہ تھا، ایسی ہی احمقانہ چشم پوشی کے نتیجے میں دہشت گردوں کے مضبوط او ناقابل تسخیر قلعوں میں تبدیل ہوا اور پھر لیاری میں شریف لوگوں کی زندگی اجیرن ہو گئی۔یہ ماضی قریب کا واقعہ ہے، اس کے اثرات ابھی تک وہاں کے مکینوں کا تعاقب کر رہے ہیں۔موت کے سائے اب بھی منڈلاتے محسو س ہوتے ہیں۔ گولیوں کی سنسناہٹ آج بھی کانوں میں محفوظ ہے۔مقتولین کی تعداد ہزاروں میں اور ایک وقت ایسا بھی آیایا کہ پولیس کے لئے بھی یہ علاقہ ممنوعہ علاقے کی حیثیت اختیارکر گیا تھا۔وزیر داخلہ سندھ ان اسلحہ بردار نوجوانوں میں لاکھوں خودکار اسلحہ تقسیم کرنے کا اعلان ایک سے زائد بار میڈیا کے روبرو کر چکے ہیں،انہیں اپنے بیٹے کہا کرتے تھے۔پولیس افسران کے تبادے بھی انہیں لاڈلے اسلحہ بردار بیٹوں کے کہنے پر کئے جاتے تھے۔ واضح رہے کل قانون شکن عناصر سے کی جانے والی چشم پوشی کی ضرورت اس لئے پیش آئی تھی کہ اس سے پہلے ایسے ہی مصلحتوں کا شکار ہو کرکراچی کی انتظامیہ ایم کیو ایم نامی تنظیم سے محبت کی پینگیں انتظامیہ بڑھا چکی تھی اور چائنا کٹنگ اسی لاڈلی تنظیم نے متعارف کرائی اور شہریوں کی جان ومال کے لئے مستقل روگ بن گئی، اور پھر دکھ کی بات یہ ہے کہ ”چائنا کٹنگ“لینڈ ریونیو کے کے لئے آسمانی صحیفے کا درجہ اختیار کر گئی اور تا حال سندھ سرکار اپنی زمین واگذار نہیں کرا سکی۔وزیر اعلیٰ بلوچستان ان رنگ برنگی جھگیوں کو چائنہ کٹنگ کی پہلی قسط سمجھیں،اراضی کے لین دین کے مطابق ”بیانہ‘‘سمجھیں۔اگر آج بیانہ قبول کر لیا تو یاد رکھیں سارا بلوچستان قبضہ مافیہ کے سپرد کر دینے کے بعد بھی جان نہیں چھوٹے گی۔ ندی نالوں پر قبضہ کریں گے۔کراچی کا حشر دیکھ لیں۔بلدیہ اور صوبائی اسمبلی سمیت تمام قانون سازاداروں میں یہی بیٹھے ہوں گے۔ ”گربہ کشتن روز اول“ کے مصداق پہلے روز ہی ان سے جان چھڑا لی جائے۔وزیر اعلیٰ سوچیں!آج کپڑے کی جھگیوں کو ہٹانے سے ڈرنے والی انتظامیہ اور پولیس کل آرسی سی بنے ہوئے مکانات کیسے مسمار کرے گی؟بیٹھے بٹھائے ایک نیا عذاب نہ پالاجائے۔ یاد رہے،ابتداء میں مصلحتوں سے کام لیا گیا اور انجام کی فکر نہ کی گئی تو کل اس طوفان کے سامنے بند باندھنا ناممکن ہو جائے گا۔قانون کو ایک بار تھپکی دے کر سلا دیا جائے تو پھر اسے جگانا آسان نہیں ہوتا۔جو لوگ اس 400ایکڑ اراضی کے اصل اور قانونی مالک اور وارث ہیں،انہیں کس جرم کی سزا دی جارہی ہے، ان کا جرم صرف اور صرف یہ ہے کہ وہ قانون کا احترام کرنے والے مہذب شہری ہیں۔ جب ریاست اپنے قانون پسند شہریوں کے حقوق کی حفاظت کرنے کی بجائے چوروں اور لٹیروں کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے،وہ اپنی قبر اپنے ہاتھوں خود کھودنے کی حماقت کرتی ہے۔وزیر اعلیٰ بلوچستان اپنے گھر کے قریب جرائم پیشہ افراد کو اتنی بڑی تعداد میں غیر قانونی انداز میں آباد کرنے کا فوری نوٹس لیں، تاخیر نئی مشکلات کو جنم دے گی۔تاریخ سے یہی سبق ملتا ہے۔غلطی سے بر وقت بچا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں