چل چلاؤ

انور ساجدی
دکی کے واقعہ کے بعد صوبائی کابینہ میں لیگی وزیر سردار عبدالرحمن نے ایک سخت بیان دیا اور کہا کہ موجودہ حکومت کے دور میں جاری بدامنی بدترین بیڈگورننس اور حکومتی رٹ نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔انہوں نے کہا کہ صوبے میں کہیں پر بھی حکومت کی رٹ نظر نہیں آتی معلوم نہیں کہ سردار کھیتران نے یہ بیان اپنے طور پر دیا یا اس کے پیچھے پارٹی پالیسی کارفرما تھی ۔دکی واقعہ کے اگلے روز ن لیگ سے تعلق رکھنے والے شیخ جعفرخان مندوخیل نے پریس کانفرنس کی جس میں صوبائی وزراءبھی موجود تھے۔اس وقت چونکہ وزیراعلیٰ بیرونی دورے کی وجہ سے موجودنہیں تھے تو گورنر نے قدم اٹھایا۔یہ بات تو سبھی کو معلوم ہے کہ راڑہ شم اور پنجگور کے واقعات کے بعد ن لیگی ہائی کمان نے اس پر مایوسی کا اظہار کیا تھا۔سنا ہے کہ گزشتہ روز میاں نوازشریف نے آصف علی زرداری سے برسبیل تذکرہ کہا کہ آئینی ترامیم کے بعد بلوچستان کے معاملہ پر ایک نشست رکھنی ہے۔گوکہ بلوچستان کی بدامنی صرف موجودہ حکومت کا شاخسانہ نہیں ہے بلکہ یہ2005سے جاری ہے تاہم جب سے بلوچستان میں پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہوئی ہے بدامنی اور قتل وغارت گری حد سے بڑھی ہے جبکہ صوبائی حکومت اسے روکنے میں عملی طور پر ناکام ہے۔ماضی سے قطع نظر جو اس وقت ہو رہا ہے اس کی ذمہ داری تو زرداری اور بلاول پر آتی ہے کیونکہ بلوچستان کے انتظامات انہوںنےسنبھائے ہوئے ہیں۔وہاں پر حکومت سازی بھی انہوں نے اپنے ہاتھوں سے کی ہے۔وزیراعلیٰ بھی ان کا ہے اور آدھی کابینہ بھی انہی کی ہے۔حکومت سازی کے وقت سابق وزیراعلیٰ نواب ثناءاللہ سینئر ترین پارٹی رہنما میر صادق عمرانی اور ظہوربلیدی کو الگ رکھا گیا۔غالباً صدر زرداری ایک نیا تجریہ کرنا چاہتے تھے یا انہیں نئے تجربہ کی صلاح دی گئی تھی۔اگست کے مہینے میں نوازشریف نے اپنے حلقہ میں کہا تھا کہ 1998 میں اختر مینگل کو ہٹانا اور 2015 میں ڈاکٹر مالک کو نکالنا ہماری ایسی غلطیاں ہیں کہ ان کا ازالہ ممکن نہیں ہے تاہم اسی ماہ ن لیگ اور اختر مینگل کے تعلقات بگڑنا شروع ہو گئے۔انہیں صوبائی حکومت اور وزیر داخلہ اور اس کے اقدامات پر اعتراض تھا۔خاص طور پر کئی واقعات کے بعد جب محسن نقوی کوئٹہ آئے تو انہوں نے یہ شیخی بگھاری تھی کہ بلوچستان کے انسرجنٹ ایک ایس ایچ او کی مار ہیں۔بالآخر اختر مینگل نے ذاتی طورپر قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے استعفیٰ دے دیا تاہم ان کی جماعت نے پارلیمان نہیں چھوڑا۔اب جبکہ حکومت آئینی ترامیم کے لئے جوڑ توڑ کر رہی ہے تو حکومت اختر مینگل پربھی اس طرح دباؤ ڈال رہی ہے جس طرح کہ پی ٹی آئی پر ڈال رہی ہے۔پی ٹی آئی کے متعدد اراکین کو چھپا کر رکھا گیا ہے غالباً یہ لوگ ”چھانگا مانگا“ میں ہوں گے اس وقت پارلیمان میں بی این پی مینگل کے دو اراکین ہیں ایک سینیٹر نسیمہ شاہ اور دوسرے واجہ قاسم رونجھو کچھ عرصہ قبل بیلہ میں قاسم کے گھر پر بھی چھاپہ مارا گیا تھا لیکن دوروز قبل تو حد ہو گئی۔حکومتی اداروں نے پارلیمنٹ لاجز میں اختر مینگل کے کمرے پر چھاپہ مارا۔اس وقت پارٹی کے سینئر رہنما ساجد ترین وہاں پر مقیم تھے جبکہ پارٹی بیان کے مطابق بی بی نسیمہ اپنے لاجز میں بند ہیں اور ان کے صاحبزادے کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔اس واقعہ کے بعد اختر مینگل نے دھمکی دی کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ان کے سینیٹرز بھی استعفے دے کر پارلیمان سے باہر آجائیں۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کو کوئی پرواہ نہیں کہ اختر مینگل یا بلوچستان کے دیگر اراکین پارلیمنٹ اسلام آباد میں رہیں یا نہ رہیں۔ان کے نزدیک بلوچستان کی کوئی اہمیت نہیں ہے لہٰذا یہ اختر مینگل کی غلطی ہے کہ وہ خود تو مستعفی ہوئے پارٹی کو پارلمان کی زینت رہنے دیا۔حالیہ واقعات کے بعد سردار اختر جان کو دو ٹوک فیصلہ کر کے پارلیمانی سیاست کو خیرباد کہہ دینا چاہیے ان کو اپنا وقت کتابیں لکھنے اور نوجوانوں کی مدد کے لئے وقف کرنا چاہیے۔دو روز قبل کراچی بار میں وکلاءسے خطاب کرتے ہوئے ماہ رنگ بلوچ نے یہ نکتہ اٹھایا کہ پاکستان کے آئین کو اس طرح تبدیل کیا جا رہا ہے جیسے یہاں پر ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت ہو۔حکومت جو ترامیم لا رہی ہے اس کے اصل مسودے کا کسی کو علم نہیں جو ظاہری نکات ہیں وہ زیادہ اہمیت کے حامل نہیں ہیں البتہ فوجی ٹرائل کی اجازت اہم نکتہ ہے۔ ایسی صورت میں جبکہ موجودہ آئین پر عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے تو نئی ترامیم لانے کا کیا مقصد ہے۔وکلاءکو شک ہے کہ بنیادی حقوق کی بعض دفعات کو نکالا جا رہا ہے تاکہ فسطائیت مزید سخت ہو اگر آئین کے تحت دئیے گئے بنیادی حقوق معطل نہ ہوتے تو آئین کی خالق جماعت پیپلزپارٹی کے صوبہ سندھ میں پرامن خواتین مظاہرین کو سڑکوں پر نہ گھسیٹا جاتا اور پارلیمنٹ لاجز کے اندر پولیس داخل ہو کر اراکین پارلیمنٹ کو زدوکوب اور گرفتار نہ کرتی۔جب آئین عملی طور پر معطل ہے تو اس سے مزید چھیڑخانی کی کیا ضرورت ہے۔سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے صوبہ پنجاب اور پختونخوا میں 90 دن کے اندر ضمنی انتخابات کروانے کا جو حکم دیا تھا اس وقت کی پی ڈی ایم حکومت نے اس پر عمل کرنے سے انکار کیا تھا اسی طرح موجودہ دور میں سپریم کورٹ کے لارجر بینج نے مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا اکثریتی فیصلہ کیا تھا لیکن حکومت اور الیکشن کمیشن نے اس فیصلہ کو ہوا میں اڑا دیا ہے۔اگر آئین نافذالعمل ہوتا تو حکومتوں کی کیا مجال تھی کہ وہ سپریم کورٹ کے احکامات کو ردی کی ٹوکری میں ڈالتے۔بدقسمتی سے پاکستان میں طویل عرصہ سے جعلی انتخابات کے ذریعے ہائی برڈ حکومتیں لائی جا رہی ہیں۔چاہے2018ہو یا2024 ہو وہی پرانا تجربہ دہرایا جا رہا ہے۔پیپلزپارٹی اور ن لیگ کو قسم دی جائے کہ کیا واقعی انہوں نے بلوچستان میں اتنی نشستیں حاصل کی ہیں؟ ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ پاکستان میں جو لولی لنگڑی جمہوریت ہے اسے بھی برداشت نہیں کیا جا رہا ہے۔یہ پولیو زدہ جمہوریت بھی حکمرانوں کے رحم وکرم پر ہے۔اس کے باوجود کوشش کی جا رہی ہے کہ مزید تجربات کر کے ریاست کو مفلوج کیا جائے۔نہ جانے حکمران کیا چاہتے ہیں؟انہوں نے ریاست کو کھیل بنا کر رکھ دیا ہے۔ یہ کھیل کوئی نیا نہیں ہے۔1958ءسے یہ جاری ہے کبھی بنیادی جمہوریتوں کا نظام کبھی ون یونٹ کبھی پیرٹی کبھی مضبوط مرکز کبھی شورائی نظام اور کبھی نتھ ڈلی جمہوریت۔ان تجربات نے ریاست کو پسماندگی،غربت اور معاشی زبوں حالی کا شکار کر دیا ہے۔اگر حکمران لفظ جمہوریت سے ناخوش ہیں یا انہیں اس لفظ سے چڑ ہے تو وہ کوئی نیا نظام لائیں پارلیمنٹ کو کوئی اور نام دیں یا براہ راست صدارتی نظام قائم کریں۔جی تو ان کا چاہتا ہے کہ دوبارہ ون یونٹ قائم ہو لیکن وہ بعض مجبوریوں کی وجہ سے ایسا نہیں کرسکتے عملاً تو ون یونٹ نافذ ہے اگر نہ ہوتا تو گوادر ائیرپورٹ کی غائبانہ افتتاح کی تقریب میں صوبائی وزیراعلیٰ کو مدعو کیا جاتا چند سال قبل گوادر یونیورسٹی کا غائبانہ افتتاح بھی لاہور میں ہوا تھا۔دراصل نوازشریف اور شہبازشریف کو پیپلزپارٹی کی برائے نام صوبائی حکومت ایک آنکھ نہیں بھاتی۔وہ کوئی نیا انتظام کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کی مجبوری ہے کہ نیشنل پارٹی کی نشستیں کم ہیں جبکہ جے یو آئی وزارت اعلیٰ سے کم کسی چیز پر راضی نہیں ہے لیکن ن لیگی حلقے یہ کہتے پھرتے ہیں کہ بلوچستان میں پیپلزپارٹی کی حکومت کا چل چلاؤ ہے کیونکہ صوبے کو زیادہ دیر تک اس طرح لاوارثوں کی طرح چلایا نہیں جا سکتا۔خاص طورپر جب جام صاحب وزیراعلیٰ تھے تو لوگ کہتے تھے کہ صوبائی حکومت ٹک ٹاک او واٹس ایپ کے ذریعے چلانا ممکن نہیں ہے۔بدقمستی سے جام صاحب کی روایت آج بھی قائم ہے ایسے حالات میں جبکہ بلوچستان اور پختونخواہ حکومتی کنٹرول سے باہر نکل گئے ہیں ان دو صوبوں کے معاملات غیر سنجیدگی سے چلائے جا رہے ہیں اور دونوں کو سیکورٹی زون قرار دے کر غداری اورحب الوطنی کا کھیل کھیلا جا رہا ہے دونوں صوبوں میں حکومت کا کوئی سیاسی اور معاشی پلان نہیں ہے صرف اراکین اسمبلی کو خوش رکھا جا رہا ہے تاکہ کسی تبدیلی کا پیشگی تدارک کیا جاسکے۔وزراءکا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے حلقہ انتخاب نہیں جاسکتے دن کو حکومتی ادارے دکھائی دیتے ہیں لیکن راتوں کو اور لوگوں کا غلبہ رہتا ہے لہٰذا اس صورت میں حکومتی رٹ قائم کرنا ناممکن ہے۔البتہ آنکھیں بند رکھ کر وقت کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔بلوچستان میں پیپلزپارٹی یا مقتدرہ کی ناکامی کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ڈان نے لکھا ہے کہ بعض عناصر بات چیت اور سیاسی پیش رفت کی راہ میں رکاوٹ ہیں کیونکہ نئے انتظام میں ان کی گنجائش نہیں نکلتی باقی جب ہندوستان پر کمپنی بہادر کی حکومت تھی تو اسے مقامی لوگوں اور مسائل کی کوئی پرواہ نہیں تھی اس وقت بھی بلوچستان میں وہی صورت حال ہے کمپنی خوش ہے تو ٹھیک رعایا کی کیا اہمیت ہے۔تاہم پیپلزپارٹی کی بلوچستان میں ناکامی بالآخر پیپلزپارٹی کو لے ڈوبے گی کیونکہ سندھ میں بھی اسے ناکامی کا سامنا ہے جبکہ مرکز میں اس کا اقتدار سنبھالنا ان صوبوں کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں