پول سب کا کھل گیا

تحریر : انور ساجدی
پاکستان میں جس چیز کی بہتات ہے وہ علماءکرام، مفتیان دین، مذہبی اسکالرز، ملا صاحبان او رمدارس کے طلباءکی ہے۔ دنیا بھر میں کسی بھی ملک میں اتنے مذہبی اکابر پائے نہیں جاتے جتنے ہمارے ہاں موجود ہیں۔ تبلیغ بھی زیادہ ہوتی ہے۔ ایک باقاعدہ تبلیغی جماعت بھی ہے جس کے سالانہ اجتماعات ملک کے مختلف حصوں میں ہوتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے تبلیغی گروہ بھی ہیں جو ہر جگہ مصروف کار نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں دو بڑے مسلمان فرقے ہیں سنی اور شیعہ۔ سنیوں کے اندر دیو بندی اور بریلوی بڑے مسلک یا فرقے ہیں۔ ان فرقوں کی کئی ذیلی تنظےمیں بھی ہیں۔ ملا صاحبان کی بکثرت موجودگی کے باوجود ہمارے حکمران مطمئن نہیں ہیں۔ اس لئے مولانا ذاکر نائیک کو سرکاری مہمان کے طور پر بلایا گیا۔ انہیں زبردست پروٹوکول دیا گیا۔ سب میڈیا چینلوں کو حکم دیا گیا کہ وہ نائیک صاحب کے انٹرویوز کا اہتمام کریں۔ ان کے کئی اجتماعات بھی منعقد کئے گئے۔ غالباً جتنی عزت و تکریم انہیں پاکستان میں دی گئی دنیا کے اور کسی ملک میں نہیں دی گئی۔ مولانا صاحب مسلمان امت اور خاص طور پر برصغیر پاک و ہند میں بہت پاپولر ہیں۔ انڈیا میں قیام کے دوران ” پیس“ کے نام سے انہوں نے ایک ٹی وی چینل بھی کھولا جہاں وہ ہزاروں لوگوں کو درس دیتے تھے۔ جبکہ آخر میں سوال و جواب کا سیشن بھی رکھا جاتا تھا۔ جس میں مولانا کافروں کے سخت اور تلخ سوالوں کا بھی تحمل اور صبر سے جواب دیتے تھے۔ ان کے ٹی وی چینل پر ہزاروں کافروں کے مسلمان ہونے کے مناظر بھی دکھائے جاتے تھے۔ چند دسالوں کی اندر مولانا کے گرویدہ لوگوں کی تعداد لاکھوں کروڑوں میں پہنچ گئی ۔ انڈیا میں جب تک کانگریس کی حکومت تھی مولانا بڑے سکون سے اپنا کام کررہے تھے۔ حتیٰ کہ کانگریس کو سخت تنقید کا نشانہ بھی بناتے تھے پھر بھی درگزر سے کام لیا جاتا تھا تاہم جب مودی کی بی جے پی برسراقتدار آئی تو اس نے مولانا کی سرگرمیوں کا نوٹس لینا شروع کردیا۔ ہندوستان کے آئین کے مطابق مذہب کی جبری تبدیلی کا عمل جرم ہے چنانچہ مولانا سے کہا گیا کہ وہ پندو نصائح ضرور کریں، خطبات بھی دیں لیکن تبدیلی مذہب کی تلقین نہ کریں۔ جب مولانا نے یہ احکامات نظر انداز کئے تو ان کی مکمل پروفائلنگ شروع کی گئی۔ رفتہ رفتہ ان سے آمدن کے ذریعے بھی پوچھے جانے لگے اور یہ پوچھا گیا کہ ٹی وی چینل کے اخراجات کیسے پورے ہوتے ہیں۔ تفتیش کے دوران شک ہوا کہ مولانا کو وسیع پیمانے پر فنڈنگ ہوتی ہے اس پر ان کے خلاف انکوائری شروع ہوئی۔ پتہ چلا کہ جو لوگ ان کے ٹی وی شو پر موجود ہوتے ہیں وہ مخصوص اور طے شدہ اجتماع ہوتا ہے جو لوگ سوالات پوچھتے ہیں وہ پلانٹڈ ہوتے ہیں ۔ ایک وقت آیا کہ مولانا پر منی لانڈرنگ، بیرونی امداد اور جبراً تبدیلی مذہب کے الزامات لگائے گئے۔ اس سے پہلے کہ ان پر مقدمات کا آغاز ہوتا سعودی عرب نے مداخلت کی اور انڈیا کی حکومت سے کہا کہ وہ انہیں کسی اور ملک جانے دیں چنانچہ وہ ملائشیا چلے گئے وہاں پر انہیں پناہ دی گئی۔ چینل کھولنے کی اجازت بھی دی گئی لیکن کچھ عرصہ کے بعد وہاں کی حکومت نے محسوس کیا کہ مولانا نفرت انگیز درس دیتے ہیں۔ یعنی ملک میں جو دیگر مذاہب کے لوگ ہیں انہیں تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ ملائشیا کی کمزوری یہ ہے کہ وہاں پر مسلمان آدھے ہیں جبکہ باقی آدھی آبادی دیگر مذاہب سے تعلق رکھتی ہے۔ ملک صحیح معنوں میں ایک سیکولر ریاست ہے۔ سب سے زیادہ مساجد اس ملک میں ہیں۔ ہندوؤں کے مندر، بدھ مندر اور چینی آبادی کی الگ عبادت گاہیں ہیں۔ تمام لوگ آزاد ہیں کہ اپنے اپنے عقیدے کی پیروی کریں۔ ایک صوبے میں شرعی نظام بھی نافذ ہے۔ جب مولانا نے دیگر مذاہب کو چھیڑنا شروع کردیا تو حکومت نے اس کا نوٹس لیا۔ کیونکہ آبادی کے مختلف طبقات کے درمیان نفرت نے جنم لینا شروع کردیا۔ اس پر مولانا کو تنبیہہ کی گئی کہ وہ دوسرے لوگوں کو نہ چھیڑیں ورنہ ان کی پناہ ختم کردی جائے گی۔ ایک موقع ایسا بھی آیا کہ مولانا نے پاکستان ہجرت کرنے کا سوچا، ان کا موجودہ دورہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے لیکن یہاں آکر انہیں ناموافقت صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی مذہبی طبقات نے بنی امیہ اور اہل بیت کے بارے میں ان کے افکار، نظریہ اور سوچ کو سخت ناپسند کیا۔ یہاں آکر مولانا کو سخت ترین سوالات کا سامنا بھی کرنا پڑا جو ان کے لئے غیر متوقع بات تھی۔ وہ کئی اجتماعات میں لاجواب اور زچ بھی ہوئے۔ مثال کے طور پر ایک پختون بچی نے ان سے سوال کیا کہ ان کے ہاں دین پر سب لوگ عمل کرتے ہیں، باقاعدہ عبادات میں حصہ لیتے ہیں، خواتین بلا ضرورت گھروں سے باہر نہیں جاتیں، تبلیغ بھی ہوتی ہے لیکن ا س کے ساتھ ” لواطت“ کا عارضہ بھی موجود ہے یعنی اغلام بازی۔ اس سوال پر مولانا ناراض ہوگئے اور کہا کہ آپ کے سوال میں تضاد ہے۔ اگر وہاں پر اسلامی تعلیمات پر عمل کیا جاتا ہے تو ”لواطت“ کیسے ممکن ہوسکتی ہے۔ پھر مولانا نے بچی سے کہا کہ آپ اپنے غلط سوال پر معافی مانگیں۔ مولانا کے اس عمل سے سوشل میڈیا پر انہیں آڑے ہاتھوں لیا گیا۔ اس کے علاوہ کئی اور اجتماعات میں ان کی علمی قابلیت کا بھانڈا بھی پھوٹ گیا۔ کئی لوگوں نے پوچھا کہ علماءیہ کہتے ہیں کہ ٹائی صلیب کا نشان ہے تو ذاکر نائیک یہ کیوں گلے میں باندھتے ہیں۔ انہوں نے سرکاری صحافی سلیم صافی کے پروگرام میں یہ کہا کہ انہوں نے ملائشیا ہجرت کی ہے جو کہ ایک اسلامی عمل ہے۔ ایک مقام پر انہوں نے کہا کہ افغانستان واحد ملک ہے جہاں شرعی نظام نافذ ہے۔ ان سے افغان حکومت کی خواتین کے ساتھ جبر اور نامناسب سلوک کا ذکر کیا گیا تو وہ جواب گول کرگئے۔ ایک مقام پر لڑکیوں کی موجودگی پر انہوں نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ جب نامحرم موجود ہیں تو مجھے کیوں بلایا گیا ہے۔ حالانکہ ملائشیا میں مخلوط سوسائٹی ہے۔ مرد اور عورت کی تمیز نہیں ہے۔ تمام کارخانوں اور دفاتر مین دونوں اکٹھے کام کرتے ہیں۔ لگتا یہی ہے کہ اگر وہ باز نہ آئے تو انہیں ملائشیا سے بھی بدر ہونا پڑے گا۔
پاکستان آکر ان کا رعب دبدبہ، علمی قابلیت اور دینی صلاحیت بے نقاب ہوگئی۔ جبکہ پانچ سو کلو زیادہ سامان لانے پر پی آئی اے پر ان کی تنقید ظاہر کرتی ہے کہ مولانا کا شخصی وزن کتنا ہے۔ جہاں سوال پوچھنے پر ناراضگی کا تعلق ہے تو اسلامی ممالک میں یہ کوئی نہیں بات نہیں ہے۔ خلفائے راشدین کے دور میں تمام لوگوں کویہ حق حاصل تھا کہ وہ اکابرین سے سوال پوچھیں۔ اس پر ان کی کوئی گرفت بھی نہیں ہوتی تھی۔ یہ مثال تو مشہور ہے کہ حضرت عمر ؓ سے ایک شخص نے پوچھا کہ جو مال غنیمت تقسیم ہوا تھا وہ ایک چادر تھی آپ نے دو چادروں کا لباس کیسے بنوا لیا ہے۔ خلیفہ وقت کو اس سوال کا جواب دینا پڑا اور اس کی وضاحت کرنا پڑی۔ تاہم خلافت کے خاتمہ کے بعد جب ملوکیت شروع ہوئی تو سوال کرنا جرم بن گیا۔ بدقسمتی سے اس وقت جو 50 اسلامی ممالک ہیں کسی میں بھی آزادانہ سوال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ سوال پوچھنے پر پابندی آمرانہ روش ہے اور یہ آمریت کا بنیادی ہتھیار ہے۔ جو ایک غیر جمہوری رویہ ہے کسی بھی اسلامی ملک میںجمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ہر جگہ شخصی حکمرانی ہے۔ حکمرانوں نے خود کو عام آدمی سے جدا کررکھا ہے اور وہ عوام کو اپنا سبجیکٹ یعنی رعیت سمجھتے ہیں۔
مولانا ذاکر نائیک کے حالیہ دورہ سے جب ان کی متضاد شخصیت کے مختلف پہلو اجاگر ہوئے تو اپنے مولانا طارق جمیل کی یاد آگئی۔ ان کا بیان زیادہ جاندار اور انداز بیان زیادہ دلکش ہے۔ لیکن کیا کریں لوگوں کو دنیا ترک کرکے آخرت کی فکر کرنے کا درس دیتے دیتے مولانا خود آخرت کی فکر چھوڑ کر اس رنگین دنیا کی طرف لوٹ آئے اور انہوں نے ناصرف ایک وسیع کاروبار شروع کردیا بلکہ اپنے گاؤں تلمبہ میں سینکڑوں ایکڑ اراضی حاصل کرکے زمیندار بھی بن گئے۔ مولانا ذاکر نائیک اور مولانا جمیل میں ایک فرق یہ ہے کہ ایک کی حور کی لمبائی 70 میٹر اوردوسرے کی 70 گز ہے۔ ایک کے پاس جیٹ اور دوسرے کے پاس بم پروف گاڑیاں ہیں۔ جن لوگوں کو آخرت کی فکر ہو یا آخرت پران کا ایمان ہو تو وہ اس طرح کی لگژری لائف نہیں گزارتے۔ لوگوں نے وہ منظر ضرور دیکھا ہوگا جب طارق جمیل اپنی لینڈ کروزر میں بیٹھے ایک غریب آدمی کا ہاتھ جھٹک دیتے ہیں۔ جبکہ وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے لئے وزیراعظم ہاؤس کے اندر تقریباً دوڑتے ہوئے جاتے ہیں اور ان سے معانقہ کرتے ہیں۔
ہمارے حکمرانوں کا کیا ہے، جب ضیاءالحق کے وقت حکومت پر کوئی مشکل آتی تو حکومت امام کعبہ کو بلاتی تھی۔ نواز شریف امام کعبہ کے علاوہ مسجد نبوی کے اماموں کو بلا کر عوام کے جذبات سے کھیلتے تھے۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہمارے حکمران ذاتی عمل، کردار اور طرز زندگی میں انگریزوں جیسے ہیں لیکن اپنے سیاسی مقاصد کے لئے اسلام کا مقدس نام استعمال کرتے ہیں۔ حالانکہ انہوں نے اپنی ریاست کو تماشہ بنا کر رکھا ہے۔ یہاں نہ شرعی نظام نافذ ہے ، نہ جمہوریت ہے ، نہ بنیادی حقوق ہیں اور نہ ہی انصاف موجود ہے۔ اپنی ساخت میں یہ دنیا کی انوکھی ریاست ہے۔ حکمران منافقت، جھوٹ اور کرپشن میں گردن گردن تک ڈوبے ہوئے ہیں۔ اس وقت جو بھی لیڈر پاور میں ہیں چاہے وہ ن لیگ ، پیپلز پارٹی کے ہوں یا تحریک انصاف سب کا طرز عمل ایک جیسا ہے۔ صوبہ پختونخواہ کی حکومت وفاقی حکومت کی دشمن بنی ہوئی ہے لیکن پی ٹی ایم کے بارے میں دونوں کی پالیسی یکساں ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ صوبائی حکومت پی ٹی ایم پر پابندی کی حمایت کررہی ہے۔ خود اسے اسلام آباد میں جلسہ کی اجازت نہیں ہے لیکن وہ اپنے ہاں پی ٹی ایم کے قومی جرگہ پر پابندی لگا رہی ہے۔ ایک بڑا ڈرامہ وزیراعلیٰ امین گنڈا پور ہے۔ اس نے دعویٰ کیا تھا کہ اسلام آباد ریلی میں شرکت کرنے آیا تھا لیکن اب پتہ چلا کہ وہ اپنی رضا مندی سے ” یاروں“ کے مہمان بنے تھے اور انہوں نے دو دن بعد پشاور پہنچا دیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تمام حکمران جھوٹ، منافقت اور دوغلے پن کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ اگر یہ لوگ ہی ریاست کو چلائیں گے تو انجام وہی ہوگا جس کا ڈر ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں