عدم تشدد، تشدد اور سیاسی حقیقت پسندی

جیئند ساجدی
بین الاقوامی تعلقات عامہ اور بین الاقوامی سیاست کے ماہر تعلیم عدم تشدد کو ایک تصوراتی (Idealism)چیز سمجھتے ہیں جبکہ تشدد کو زمینی حقائق (Realism)پر مبنی چیز سمجھتے ہیں۔ تاریخ کے مختلف ادوار کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ واقعی عدم تشدد کا سیاسی حقیقت پسندی سے کوئی تعلق نہیں اور واقعی یہ ایک تصوراتی چیز ہے لگ بھگ 100BC کے وقت موجودہ شمالی ہندوستان میں ایک مذہبی انقلاب آیا اور ہندو مت یا ویدک مذہب کی جگہ دو نئے مذاہب بدمت اور جین مت نے جنم لیا ان دونوں مذاہب نے عدم تشدد کا درس دیا اور عدم تشدد ہی ان مذاہب کا بنیادی ستون تھا۔ان مذاہب کو ایک وقت میں اتنی مقبولیت حاصل ہوئی کہ ان دو مذاہب کے پیروکار ہندومت کے پیروکار سے کافی زیادہ ہو گئے اور ہندومت کے پیروکار اقلیت میں تبدیل ہو گئے بدھ مت کو بادشاہ اشوک کے وقت ریاستی مذہب کا بھی درجہ ملا تاریخ دان ایشوری پرساد لکھتے ہیں کہ جب اشوک نے بدمت کو ریاستی مذہب کا درجہ دیا اور عدم تشدد کے فلسفے کو فروغ دیا تو اس سے موریہ سلطنت کی فوجی صلاحیتیں کافی متاثر ہوئیں اور ریاست کمزور ہو گئی اور نتیجہ یہ نکلا کہ عسکری کمزوری کی وجہ سے یہ سلطنت ختم ہو گئی۔
کچھ عرصے بعد. جب گپتا سلطنت قائم ہوئی تو انہوں نے سیاسی حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیا اور بدمت کی جگہ ہندومت کو سیاسی مذہب کا درجہ دیا ان کو یہ ادراک تھا کہ اگر عدم تشدد کے فلسفے کو جاری رکھا گیا تو اس سے ریاستی عسکری طاقت متاثر ہو گی اور وہ مالامال ہندوستان کو بیرونی حملہ آوروں سے بچا نہیں پائیں گے تاریخ دان ایس آر شرما لکھتے ہیں کہ گپتا خاندان کے دور میں بھی بدمت مذہب کے کافی پیروکار تھے لیکن قرون وسطی میں جب مسلمان حملہ آورہندوستان آئے تو اس سے بدمت کو کو کافی دھچکا لگا۔ اختیارالدین خلجی نامی ترک جنرل نے بدمت پڑھانے کی جامعہ نلڈا کو نیست و نابود کر دیا اور غالبا ًاس کے بعد بدمت مذہب کے پیروکاروں کی تعداد کافی کم ہو گئی اور ہندوستان کی اکثریت نے پھر سے ہندو مت کو قبول کر لیا اور بدمت مذہب کا اسی زمین میں ہی خاتمہ ہوا ہے جہاں اس نے جنم لیا تھا اگر بدمت مذہب میں عدم تشدد کا درس نہیں ہوتا تو غالباً آج بھی یہ ہندوستان کا ایک اہم مذہب ہوتا ۔موجودہ جرمنی کے بانی بسمارک مکمل طور پر تشدد پر یقین رکھتے تھے ان کا یہ خیال تھا کہ ریاست کے دفاع اور بقا کے لیے تشدد کا استعمال کرنا لازمی ہے۔ بسمارک سے قبل جرمنی 38 ریاستوں میں تقسیم تھا بہت سے آزاد خیال جرمن(لبرل) قوم پرستوں کی یہ خواہش تھی کہ تمام 38 چھوٹی چھوٹی جرمن ریاستیں ایک متحد جرمنی میں تبدیل ہو جائیں اور متعدد دفعہ انہوں نے متحدہ جرمنی قائم کرنے کی کوششیں کیں لیکن وہ ناکام رہے ان 38 ریاستوں میں دو اہم ریاستیں پوروشیہ اور آسٹریا تھیں 1859 میں بسمارک پورشیا کے وزیر خارجہ بنے بسمارک کا یہ نظریہ تھا کہ بغیر جنگوں کے جرمنی کو متحدکرنا ناممکن ہے ان کومتحد جرمنی کے راستے میں تمام رکاوٹوں کا علم تھا متحدہ جرمنی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ آسٹروی سلطنت تھی جس کے بادشاہ خود جرمن تھے لیکن ان کی سلطنت ایک کثیرالاقومی سلطنت تھی جس میں مختلف اقوام کے لوگ رہتے تھے آسٹریا کو یہ خدشہ تھا کہ اگر جرمنی ایک قومی ریاست بنا تو اس کے کثیر قومی ریاست کے غیر جرمن آبادیاں بھی قومی ریاستوں کا مطالبہ کریں گے جو ان کے ریاست کے مفاد میں نہیں ہوگاآسٹریا کے علاوہ فرانس بھی متحدہ جرمنی کے حق میں نہیں تھا کیونکہ فرانس کا جرمن آبادی والے علاقے رائن لینڈ پر دعویٰ تھا جس کی اہم وجہ رائن لینڈ کی اہم جغرافیا اور وسائل تھے ڈنمارک بھی متحدہ جرمنی کے حق میں نہیں تھا کیونکہ ڈنمارک کی دو نیم خود مختار ریاستیں ہولسٹین اور شیزل وگ جرمن اکثریتی ریاستیں تھیں بسمارک کو یہ علم تھا کہ اگر جرمنی کو متحد کرنا ہے تو ڈ نمارک، آسٹریا ااور فرانس سے جنگیں لڑنی پڑیں گی اسی لیے انہوں نے پوروشیہ کی پارلیمنٹ میں دفاعی بجٹ کو بڑھانے کے لیے ایک قرارداد پیش کی جس کو لبرل جرمنز نے مسترد کر دیا لیکن بسمارک نے زبردستی قرارداد کو منظور کروا لیا اور ایک تاریخی تقریر کی۔”جرمنی کی نظریں پوروشیہ کے لبرازم کو نہیں دیکھ رہی بلکہ پوروشیہ کی طاقت کو دیکھ رہی ہیں سیاسی مسائل پارلیمنٹ میں تقریر کرنے سے اور اکثریتی رینماؤں کی قراردادوں سے حل نہیں ہوں گے بلکہ عسکری طاقت سے حل ہوں گے۔ سمجھتے ہیں اپ اگر املیٹ بنانا چاہتے ہو تو اپ کو انڈے توڑنا ہی پڑیں گے“بسمارک نے اپنی عسکری طاقت میں اضافہ کر کے ڈنمارک آسٹریا اور فرانس کو عبرتناک شکست دی اور 1871 میں جرمنی کو متحد کر لیا ان کی ان پالیسیوں کو بعض تاریخ دان” پالیسی آف آئرن اینڈ بلڈ بھی کہتے ہیں“ بسمارک ایک ذہین شخص تھے ان کو یہ علم تھا کہ تشدد کو ریاست کی بقا کے لیے استعمال کرنا سیاسی حقیقت پسندی ہے لیکن تشدد کے ذریعے دوسرے اقوام کی زمین پرمستقل قبضہ کرنا ایک تصوراتی چیز ہے اور سیاسی حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں اسی لیے انہوں نے دیگر یورپی ممالک کی طرح افریقا میں اپنی کالونیاں قائم نہیں کی ان کا یہ خیال تھا اس سے بین الاقوامی طاقتوں خصوصا برطانیہ سے تعلقات خراب ہوں گے جو جرمنی کے مفاد میں نہیں ہوگا وہ یہ کہتے تھے کہ جرمن ایک بڑی ریاست ہے اور اس کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ وہ خوشحال ریاست بن سکتا ہے لہذا جرمنی کو کالونی کی کوئی ضرورت نہیں انہوں نے برطانیہ کو خفا نہ کرنے کے لیے اپنے بحریہ کی طاقت میں بھی اضافہ نہیں کیا اور وہ یہ کہتے تھے کہ جرمنی ایک زمینی شیرہے جبکہ برطانیہ ایک سمندری شیر ہے۔ 1889 میں جرمنی کے بادشاہ ولہم دوئم بنے جن کا نظریہ بسمارک سے کافی مختلف تھا انہوں نے افریقہ میں کالونیاں قائم کیں. خود سے کہیں طاقتور برطانیہ کو بھی چیلنج کیا اپنی بحری طاقت میں کافی اضافہ کیا۔ بوسنیا میں آسٹریا کی سامراجی سرگرمیوں میں بھی آسٹریا کی مدد کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ کہ وہ روس اور برطانیہ کے خلاف پہلی عالمی جنگ میں ایک اہم فریق بن کر شامل ہو گئے جس میں انہیں ایک عبرتناک شکست ہوئی اوران کی بادشاہت ختم ہوگئی اور جرمنی ایک جمہوریہ بن گیا ۔ اور نئی جمہوریہ جرمنی کوایک شرمناک معاہدہ جسے معاہدہ ورسلیز کہتے ہیں وہ مسلط کر دیا گیا اس معاہدے کے متعلق جرمنی اپنی فوج کو ایک لاکھ سے زیادہ نہیں بڑھائے گا، اور بحریہ بھی محدود رکھے گا اور رائن لینڈ جو اس کا علاقہ ہے جس کی سرحدیں فرانس سے ملتی ہیں وہاں وہ کوئی فوج تعینات نہیں کرے گا اس کے علاوہ وہ فرانس اور برطانیہ کو ایک بڑی رقم جنگ کے جرمانے کے طور پر دےگا چونکہ رقم بہت بڑی تھی اسی لیے وہ قسطوں پہ ادا کرےگا اس کے علاوہ جرمنی کے علاقے بین الاقوامی ریاستوں میں تقسیم کیے کچھ علاقے چیکو سلووکیا میں شامل کئے گئے اور کچھ پولینڈ میں اور اس کی سمندری علاقے مکمل طور پر پولینڈ کو دیدئے گئے تا کہ جرمنی ایک لینڈ لاک ریاست بن جائے ۔ اڈالف ہٹلر بھی تشدد پر بھرپور یقین رکھتے تھے ان کو یہ علم تھا یہ شرمناک معاہدہ صرف اور صرف تشدد اور طاقت کے ذریعے ہی منسوخ ہوگا انہوں نے رائن لینڈ جو سرحدی علاقہ ہے جرمنی اور فرانس کا وہاں پھر سے ورسیلز معاہدے کے برعکس اپنی فوجی سرگرمیاں شروع کر دیں اور فرانس اور برطانیہ کو جنگ میں ہونے والے نقصانات کے معاوضے کے لیے رقم دینے سے بھی انکار کر دیا اپنی فوجی ، فضائی اور بحری طاقت میں بھی بھرپور اضافہ کیا۔ محائدہ اف ورسائل کے ذریعے جو جرمن علاقے بین الاقوامی ریاستوں کو دیے گئے تھے۔ ان علاقوں کو حاصل کرنے کیلئے ہٹر نے چیک و سکوواکیا اور پولینڈ پر حملہ کر دیا، جس سے 70 لاکھ جرمن پھر سے جرمنی کا حصہ بنے۔
ہٹلر جرمنی کو متحد کرنے میں تو کامیاب ہو گئے تھے اور بغیر تشدد کے یہ علاقے کبھی بھی متحد ہو نہ پاتے ہٹلر کا زوال اس وقت شروع ہوا جب اس نے دیگر اقوام کی زمینوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا اس سے ان کی مخالفین کی تعداد میں اضافہ ہوا انہوں نے غیر جرمن والے چیکو سلویا علاقوں اور پورے پولینڈ پر قبضہ کر لیا وہ ایک بہت بڑا جرمن سلطنت قائم کرنے کی کوشش کر رہے تھے جس کے لیے ان کو بہت سے وسائل کی ضرورت تھی اسی لیے انہوں نے روس پر بھی حملہ کر دیا. چونکہ فرانس نے روس کی حمایت کا اعلان کیا تو اس کے رد عمل میں ہٹلر نے فرانس پر حملہ کر دیا چونکہ فرانس سے حملے کا راستہ بیلجیم سے گزرتا ہے تو ہٹلر کو بیلجیم پر بھی حملہ کرنا پڑا اس کے اقدام سے برطانیہ بھی جنگ میں کودپڑا اور اور دوسری عالمی جنگ چھڑ گئی جس میں ایک مرتبہ پھر سے جرمنی کو شکست ہوئی اور اسے بین الاقوامی طاقتوں میں تقسیم ہونا پڑا اگر ہٹلر صرف جرمنی تک محدود رہتے تو جرمن اس دور کا ایک طاقتور اور خوشحال ریاست ہوتا اور ایسی شرمناک شکست کا سامنا نہ کرنا پڑتا شکست کی اہم وجہ ہٹلر کی تصوراتی اور سامراجی پالیسیاں تھی۔اسرائیل 1948ءمیں مغربی طاقتوں کی ایماءپر مشرقی وسطی میں بنااس سے قبل یورپ میں یہودیوں کو نسلی امتیاز،اور نسل کشی کا سامنا کرنا پڑا۔ان پر ہونے والے مظالم نے ان کو یہ سبق دیا کہ بنا کسی تشدد یا عسکری طاقت کے وہ اپنی ریاست کو قائم و دائم نہیں رکھ سکیں گے اور جلد ہی عرب ممالک اس پر حملہ کرینگے ۔1948ءمیں پہلی عرب اسرائیل جنگ ہوئی جس کے نتیجے میں عرب ممالک کو شکست ہوئی اور اسرائیل اپنا دفاع کرنے میں کامیاب رہا اور اپنی عسکری طاقت میں اضافہ کر تا رہا جو کہ ایک حقیقت پسندانہ پالیسی تھی لیکن 1967ءمیں اسرائیل نے بھی وہی پالیسیاں اختیار کی جو ماضی میں ولہم دوئم اور ہٹلر نے کی تھی اس نے بنا کسی وجہ کے عرب ممالک پر حملہ کر دیا تھا ۔شام کے گولان ہائٹس ،مصر کے سینائی پینا سولا اور پورے فلسطین پر غیر قانونی قبضہ کر لیا تھا ۔1978ءمیں PLOکے ٹھکانوں پر حملے کے بہانے سے جنوبی لبنان پر حملہ کیا اور اس کے علاقے شیبہ فام کو اپنے قبضہ میں لیا اور یہ قبضہ ابھی جاری ہے یہ اسرائیل کی خام خیالی ہے کہ ان پالیسیوں کے ذریعے وہ مستقل امن قائم کر سکے گا ان پالیسی کی وجہ سے اس کے دشمنوں میں اضافہ ہوتا جائے گا اور ایک بڑی عالمی جنگ کی رائے بھی ہموار ہوجائینگی اور اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اسرائیل بھی جرمنی کی طرح ٹوٹ جائے گا لیکن اسرائیل اور جرمنی میں یہ فرق ہے کہ جرمن کا علاقہ کافی وسیع تھا اور جرمن کی تعداد بھی کافی زیادہ تھی اسی لئے وہ دو جنگوں میں شکست کھانے کے باوجود ایک مستحکم ریاست قائم کرنے میں کامیاب رہے تھے لیکن نا اسرائیل کا علاقہ اتنا بڑا ہے نہ ہی یہودیوں کی آبادی اتنی زیادہ ہے اگر یہ ایک بار ٹوٹا تو پھر کبھی نہیں بن پائے گا لہٰذا ان کو اپنی تصوراتی خیالات سے نکل جانا چاہیے اور زمینی حقائق کو تسلیم کر کے آزاد فلسطین کو بھی تسلیم کرلینا چاہیے اور اپنے قبضے والے علاقے اپنے عرب پڑوسیوں کو واپس کردینے چاہیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں