آدھا تیتر آدھا بٹیر

تحریر : انور ساجدی

12؍اکتوبر1999ء کی رات8بجے کے قریب اچانک پی ٹی وی نے سرکاری خبروں کا بلیک آئوٹ شروع کر دیا جو کہ حیران کن بات تھی کچھ دیر بعد ایسے محسوس ہوا کہ ملک میں کچھ ہونے والا ہے کچھ ذرائع نے بتایا کہ کراچی ائیرپورٹ پر بڑے پیمانے پر سندھ رینجرز کی نقل وحرکت دیکھی گئی ہے۔9بجے تک صورت حال واضح ہونا شروع ہو گئی اور خبریں چلنا شروع ہو گئیں کہ آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کچھ دیر میں قوم سے خطاب کریں گے جنرل پرویز مشرف جو کہ کولمبو سے کراچی آ رہے تھے انہیں کراچی ائیرپورٹ پر لینڈ کرنے سے روک دیا گیا تھا۔اسی دوران رینجرز کے ڈی جی میجر جنرل عبدالقادر بلوچ نے کراچی ائیرپورٹ کو اپنے قبضہ میں لے لیا تھا۔شام کو یہ اعلان ہوا کہ نوازشریف نے لیفٹیننٹ جنرل ضیاء اللہ بٹ کو آرمی چیف مقرر کر دیا ہے۔موصوف اس وقت آئی ایس آئی کے سربراہ تھے تاہم فوج کے کمانڈروںنے یہ فیصلہ تسلیم نہیں کیا۔رات کو33کمانڈوز پی ٹی وی اسلام آباد سینٹر کے گیٹ پر چڑھ گئے اور دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوگئے۔تمام عملے کو کہا گیا کہ وہ نئے احکامات کا انتظار کریں۔اسی اثناء ٹرپل بریگیڈ کے کمانڈرز اور افسران نے وزیراعظم ہائوس جا کر نوازشریف کو حراست میں لے لیا۔جنرل ضیاء کو بھی پکڑ لیا جبکہ نوازشریف کے اسپیج رائٹر صحافی نذیر ناجی کو لاتیں اور مکے مار کر اس کی درگت بنا دی۔جنرل مشرف نے اسلام آباد پہنچ کر رات دیر بعد قوم سے خطاب کیا۔ان کے ہمراہ آئینی جادوگر شریف الدین پیرزادہ کو بھی لے جایا گیا جنہوں نے راستے ہی میں تختہ الٹنے کا آئینی جواز تلاش کرلیا۔انہوں نے جنرل پرویز مشرف کو مشورہ دیا کہ مارشل لاء نافذ نہ کیا جائے بلکہ وہ اپنے لئے چیف ایگزیکٹو کا عہدہ منتخب کر لیں۔
پیرزادہ نے بیٹھے بٹھائے نوازشریف پر مقدمہ بھی تیار کر لیا تھا یعنی کہ انہوں نے آرمی چیف کے جہاز کو اغواء کر کے اسے بھارت لے جانے کا حکم دیا تھا یہ دہشت گردی کا ایکٹ تھا جس کے نتیجے میں آرمی چیف کی جان بھی جا سکتی تھی۔میاں صاحب کس قدر دانش مند لیڈر تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب جنرل قادر بلوچ نے کراچی ائیرپورٹ پر قبضہ کر کے ان کا تختہ الٹنے میں اہم کردار ادا کیا انہیں2013 میں دوبارہ برسراقتدار آنے کے بعد نہ صرف اہم عہدوں سے نوازا بلکہ اپنی کابینہ کا حصہ بھی بنایا۔
نوازشریف اور جنرل پرویز مشرف کے درمیان کارگل کی جنگ کے مسئلے پر اختلاف پیدا ہوا۔نوازشریف کا الزام تھا کہ آرمی چیف نے ان کی نالج کے بغیر اور انہیں اعتماد میں لئے بغیر کارگل کی جنگ چھیڑی تھی تاہم بعد میں پتہ چلا کہ جنرل پرویز مشرف نے ایک بریفنگ رکھی تھی جس میں یہ بتایا تھا کہ وہ کارگل کے قریب ایک اسپتال بنانا چاہتے ہیں اور اس کے لئے فوجی کارروائی کرنا پڑے گی مشرف نے واضح طور پر بات بتائی نہیں اور میاں صاحب کی اتنی فراست نہیں تھی کہ وہ بالواسطہ بات کو سمجھ سکیں تاہم جب پاکستان یہ جنگ ہارنے لگا تو مشرف سخت گھبرایا اور انہوں نے وزیراعظم سے کہا کہ وہ کردار ادا کریں چنانچہ نوازشریف امریکہ جا کر صدر بل کلنٹن سے ملے اور جنگ رکوا دی۔بہرحال پاکستان یہ جنگ ہار چکا تھا۔پاکستان کے متعدد گائوں بھی بھارت کے قبضہ میں آ گئے تھے بڑے پیمانے پر جانی نقصان بھی ہوا۔اس واقعہ کے بعد دونوں کے درمیان ناچاقی پیدا ہوئی جو12 ؍اکتوبر کی بغاوت پر متنج ہوئی۔
پرویز مشرف نے جب اقتدار سنبھالا تو معیشت ڈوب چکی تھی 1998ء کے ایٹمی دھماکوں کی وجہ سے دنیا نے منہ موڑ لیا تھا امریکہ نے پابندیاں عائد کر دی تھیں اور زرمبادلہ کے ذخائر صرف3 کروڑ رہ گئے تھے جنرل پرویز مشرف نے سعودی فرماں روا سے مدد مانگی اور انہوں نے اتنا کیا کہ پاکستان کچھ عرصہ تک چلے تاہم کچھ عرصہ بعد نائن الیون ہوگیا۔امریکہ نے بدلہ لینے کے لئے افغانستان پر حملہ کر دیا۔پرویز مشرف کو وزیر خارجہ کولن پاول نے فون کر کے کہا کہ پاکستان نہ صرف جنگ میں ساتھ دے بلکہ حملہ کے لئے اپنی زمین اور فضا بھی اس کے حوالے کر دے۔جنرل مشرف جو اپنے عوام پر شیر تھے فوری طور پر ڈھیر ہوگئے۔بعدازاں انہوں نے بتایا کہ امریکی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ اگر آپ نے ساتھ نہ دیا تو ہم پاکستان کو دوبارہ پتھر کے دور میں پہنچا دیں گے۔صرف ایک کال پر پرویز مشرف نے جیکب آباد، پسنی اور شمسی ہوائی اڈے امریکہ کو دے دئیے بلکہ اس کے جنگی بیڑے کو بھی آنے کی اجازت دی تاکہ وہاں سے میزائل افغانستان پر فائر کئے جا سکیں۔جنرل پرویز مشرف کا پہلے طالبان حکومت کی حمایت اور اس کے بعد یوٹرن وہ واضح مثال ہے کہ پاکستانی حکمرانوں کا کوئی اصول ضابطہ اور قاعدہ نہیں ہے۔پرویز مشرف نے وردی میں ہونے کے باوجود ایک نام نہاد ریفرنڈم کے ذریعے خود کو منتخب صدر قرار دیا۔لوگوں کو یاد ہوگا کہ اس وقت کے پنجاب کے وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی بار بار کہتے تھے کہ ہم پرویز مشرف کو ہزار بار وردی میں صدرمنتخب کریں گے۔اپنی انتخابی مہم کے دوران وہ وردی پہن کر اجتماعات سے خطاب کرتے تھے یہ سیاست میں مداخلت کا وہ آغاز تھا جو روایت بن گیا بلکہ مستحکم ہوتا گیا۔وکلاء تحریک کے نتیجے میں پرویز مشرف کمزور ہو کر رخصت ہوئے لیکن ان کا ورثہ قائم تھا جب آصف علی زرداری صدر بنے تو ان کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے آدھی رات کو ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے جنرل کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کا اعلان کیا حالانکہ ایک منتخب وزیراعظم کو یہ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔جنرل کیانی کے دور میں بڑے بڑے واقعات ہوئے لیکن انہوں نے ایک میمو اسکینڈل کو بنیاد بنا کر زرداری کو ہی مورد الزام ٹھہرایا بلکہ ایک ایسا وقت بھی آیا کہ منتخب صدر کو گرفتار کرنے کی تیاری کی گئی تھی۔جنرل کیانی کے بعد جنرل راحیل شریف نے بحال ہونے والے چیف جسٹس افتخار احمد چوہدری کو اپنے ساتھ ملا کرسیاست میں مداخلت جاری رکھی۔2014ء کا دھرنا بھی اسی دور میں ہوا۔یہ عندیہ تھا کہ نوازشریف کو ہٹا کر عمران خان کو مسند پر بٹھایا جائے گا۔اسی دوران ثاقب نثار کے ساتھ مل کر نوازشریف کو بے تکریم کر کے مجرم ٹھہرایا گیا۔انہیں جیل بھیج دیا گیا۔اس عمل سے سویلین رول کے لئے اسپیس کم ہوگیا تاہم سر باجوہ نے آکر عمران خان کو گود لے لیا اور ان کے لئے اقتدار مینج کیا گیا لیکن 2022 میں انہیں رخصت کردیا گیا اس کے نتیجے میں اسپیس مزید کم ہوگیا۔
8فروری2024 کو جو الیکشن کرائے گئے وہ مزاحیہ ڈرامہ اور غیر سنجیدگی کا شاہکار تھے۔عمران خان کا بیانیہ کمزور ہوگیا تھا اور عوام نے اس کے باوجود تحریک انصاف کے امیدواروں کو ووٹ دیا کہ اس کا انتخابی نشان ہی چھین لیا گیا تھا بزور طاقت ن لیگ کی حکومت بنا دی گئی اور پیپلز پارٹی کا لاحقہ بھی لگا دیا گیا چونکہ تحریک انصاف کی مزاحمت کا محور پنجاب تھا اس لئے نئی حکومت کو مشکلات کا سامنا ہے حالانکہ پنجاب میں واضح اکثریت سے جیتنے کے باوجود وہاں کے لیڈر اور کارکن اکثر احتجاج میں غائب رہتے ہیں جبکہ پختونخوا سے لوگ لانے پڑتے ہیں غالباً پہ پنجاب کی روایت ہے کہ وہ زیادہ دیر تک حکومت مخالف نہیں رہتا اور دوبارہ طاقت کی طرف لوٹتا ہے۔تحریک انصاف کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے۔اس کشمکش نے ریاست کو بہت پیچھے دھکیل دیا ہے۔
معاشی صورت حال ٹھیک ہونے لگی کہ تحریک انصاف نے اپنا احتجاج بڑھا دیا حکومت کو بلوچستان میں بڑے مسائل درپیش تھے لیکن ساتھ میں پشتون سوال نے بھی سر اٹھا دیا۔چونکہ حکومت کے پاس کوئی اچھی سیاسی ٹیم نہیں ہے یا ان کے پاس اختیارات نہیں ہیں اس لئے ہر مسئلے کا حل طاقت کے استعمال میں تلاش کیا جاتا ہے۔ایک بڑی مثال زرداری کی ہے وہ ایک وژن رکھتے ہیں اور وہ حال ہی میں ترکمانستان گئے تاکہ گیس پائپ لائن کی راہ ہموار کریں لیکن پیچھے دکی میں مزدوروں پر حملہ ہوا جب سے بلوچستان میں پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہوئی ہے وہاں پر بڑے بڑے واقعات ہوچکے ہیں زرداری کی سخت ہدایات کے باوجود بلوچستان کے حالات قابو میں نہیں آ رہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زرداری سے بلوچستان کے حوالے سے غلطی ہو گئی ہے یا ان کی مرضی کے خلاف معاملات چلائے جا رہے ہیں بلوچ مسئلہ تو اپنی جگہ پشتون مسئلہ نے بھی سر اٹھا لیا ہے۔اسے سیاسی طور پر حل کرنے کے بجائے حکومت نے اس پر پابندی عائد کر دی یعنی سیاسی مسائل کو غیر سیاسی طریق سے حل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
بلاول نے تسلیم کر لیا ہے کہ حالیہ دور میں سیاست دانوں کا اقتدار میں اسپیس مزید کم ہوگیا ہے ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ ملک کو کون چلائے گا۔فوقیت آئین کو ہوگی یا شخصی حکمرانی کو جب تک یہ طے نہیں ہوگا حالات میں کوئی سدھار نہیں آئے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں