لاٹھی یا بندوق

تحریر: انور ساجدی

وہی ہوا جس کا ڈر تھا ۔ وفاق نے پشتون تحفظ موومنٹ پر پابندی لگا کر اسے خلاف قانون قرار دیا ہے۔ مرکز نے اس اقدام کی کیا توجیہات بیان کی ہیں اس تفصیل کا انتظار ہے لیکن یہ ایک غیر معمولی اقدام ہے اور ممکنہ طور پر اس کے دورس نتائج برآمد ہوں گے۔ جب بھٹو حکومت نے نیپ پر پابندی لگائی تھی تو اس وقت ان کے سیاسی عروج کا زمانہ تھا لیکن اس پابندی نے آئین جمہوریت بنیادی حقوق اور سیاسی استحکام کو شدید نقصان پہنچایا۔ اگر دیکھا جائے تو اتنا تباہ کن فیصلہ تھا کہ ا سکے اثرات آج بھی باقی ہیں۔
پی ٹی ایم بظاہر ایک پرامن سول رائٹس کی تحریک تھی جس کا مقصد کروڑوں پشتونوں کو ناانصافیوں، عدم مساوات اور زیادتیوں سے نجات دلانا تھا۔ یہ ایسے وقت میں قائم ہوئی تھی جب وزیرستان جل رہا تھا اور وہاں پر ایک اپریشن کے نتیجے میں ڈھائی ملین لوگوں کو مختلف علاقوں میں منتقل کیا گیا تھا۔ پاکستان کی تاریخ میں اتنے لوگوں کا اپنے گھروں سے انخلاءکا پہلا واقعہ تھا۔ بدقسمتی سے یہ آبادی دوبارہ صحیح معنوں میں آباد نہ ہوسکی۔ اس کی سیاسی اور جغرافیائی پیش رفت کے طور پر فاٹا کو خیبر پختونخواہ میں ضم کردیا گیا۔ جس کے دو مقاصد تھے فاٹا کی صدیوں سے قائم حیثیت کو ختم کرنا اور افغانستان کے اس کلیم کو ختم کرنا کہ یہ آزاد علاقے ہیں جو انگریزیوں کی آمد سے قبل روایتی طور پر اس کا حصہ تھے۔ اگرچہ ان علاقوں کے لوگ صدیوں سے مسلح تھے اور وہاں قبائلی رسومات کے علاوہ کوئی قانون نافذ نہیں تھا لیکن انگریزوں کی آمد سے قبل یہ انتہائی پرامن علاقہ تھا۔ انگریزوں نے اپنی عملداری قائم کرنے کے لئے یہاں پر بارہا فوج کشی کی اور اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ بالآخر یہ فیصلہ ہوا کہ یہ آزاد علاقے رہیں گے تاہم یہ وائسرائے ہند کے زیر اثر رہیں گے۔ انہوں نے پولٹیکل ایجنٹ مقرر کئے اور لوگوں کو اپنے حال پر چھوڑا۔
انیسویں اور بیسویں صدی میں یہاں کے لوگوں نے بغاوتیں کیں جن میں مرزا علی عرف فقیر ایپی کی بغاوت قابل ذکر ہے۔ فقیر ایپی وہ شخص ہے کہ جس نے ہندوستان کے عظیم لیڈر سبھاش چندر بوس عرف نیتا صاحب کو سرحد پار کرکے افغانستان پہنچایا تھا جہاں سے وہ جرمنی او رجاپان چلے گئے تھے۔ فقیر ایپی نے اپنی زندگی کے آخر میں پہلی مرتبہ ”پختونستان“ کی ریاست بھی قائم کی جو 1948 تک قائم رہی۔
گزشتہ ہفتہ جب ہماری ملاقات پشاور میں پختونخواہ کے وزیراعلیٰ امین گنڈاپور سے ہوئی تو ان سے سوال کیا گیا کہ حکومتی اقدامات کے نتیجے میں لوگ آزاد پختونستان کی طرف راغب تو نہیں ہوئے ہیں تو انہوں نے آنکھ مار کر کہا کہ ہم آزاد پختونستان کے حامی نہیں اور نہ ہی عوام اس طرف راغب ہوئے ہیں۔ امین گنڈاپور اگرچہ سرائیکی بولنے والے پختون ہیں اور ڈیرہ اسماعیل خان ان کا وطن ہے لیکن یہ علاقہ 1750 میں قلات ریاست کا حصہ تھا اور اس سے قبل یہاں پر ہوت قبیلہ کی حکومت تھی جسے دودائی کہا جاتا ہے۔ لیکن افغان جنگ کے بعد اس علاقہ کی ڈیموگرافی تبدیل ہوچکی ہے۔ قانونی طور پر یہ صوبہ پختونخواہ کا حصہ ہے، افغانستان اور فاٹا سے بڑے پیمانے پر لوگ آکر یہاں آباد ہوچکے ہیں۔ بلوچوں کی پرانی ہستی معدوم ہوچکی ہے۔ سرائیکی کے ساتھ پشتو بھی بڑی زبان بن چکی ہے جبکہ اس کے دو مشہور قبیلے کنڈی اور گنڈا پور کسی زمانے میں حق مالکانہ سے محروم تھے لیکن اب وہ حقوق ملکیت رکھتے ہیں۔ یہی حال مولانا فضل الرحمن کے قبیلہ ناصر کا بھی ہے جو پاوندے کی حیثیت سے ڈیرہ اسماعیل خان میں آئے تھے ۔ 1970 کے عام انتخابات میں ڈی آئی خان واحد حلقہ تھا جہاں سے مفتی محمود نے ذوالفقار علی بھٹو کو شکست دی تھی۔ پیپلز پارٹی کے ایک دبنگ لیڈر حق نواز گنڈا پور تھے جنہیں قتل کردیا تھا۔ کنڈی اور گنڈا پور اگرچہ سرائیکی بولتے تھے لیکن وہ پشتون جمعیت کا لازمی حصہ ہیں۔ کافی سالوں سے جنوبی اضلاع یعنی ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں، کوہاٹ اور دونوں وزیرستان شورش اور آشوب کی آماجگاہ ہیں ۔ حالانکہ ڈی آئی خان تجارت کا بڑا مرکز ہے۔ اسی طرح وزیرستان کے دونوں حصے بھی کاروباری مراکز تھے۔ کسی زمانے میں انگور اڈہ، وانا ،میر علی اور میراں شاہ افغانستان کے بارڈر پر واقع ہونے کی وجہ سے تجارتی گزرگاہ تھے لیکن 1980 کی دہائی میں جب جنرل ضیاءالحق نے ان علاقوں کوجہادی تجربہ گاہ بنایا اور دنیا بھر سے جہادی بلا کر انہیں وزیرستان میں ٹریننگ دی تو ان کی تباہی شروع ہوگئی۔ افغان جنگ کے بعد ہزاروں جہادی افغانستان سے فرار ہو کر وزیرستان آگئے اور یہاں بس گئے۔ کہا جاتا ہے کہ القاعدہ کے مرحوم سربراہ ایمن الظواہری یہیں پر قیام پذیر رہے۔ حتیٰ کہ اسامہ بن لادن بھی یہاں قیام کرچکے ہیں۔ ضیاءالحق کے افغان جہاد اور نائن الیون کے بعد پرویز مشرف کی امریکی جنگ میں شرکت نے اس علاقے کو اجاڑ دیا جو کبھی دوبارہ آباد نہ ہوسکا۔ وزیرستان کی بدقسمتی ہے کہ یہاں پر گرینائیٹ سمیت بڑے پیمانے پر معدنیات موجود ہیں جس پر کشمکش جاری ہے۔ جب منظور پشتون پی ٹی ایم کے سربراہ بنے تو انہوں نے اعلان کیا کہ وہ باچان خان کے اصولوں پر چلتے ہوئے عدم تشدد کے فلسفہ پر عملدرآمد کریں گے اور اپنی تحریک کو پرامن رکھیں گے لیکن ریاست نے پی ٹی ایم اور منظور پشتون کو کبھی قبول نہیں کیا۔ انہوں نے ہر جگہ جا کر اپنا کیس پیش کیا لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی حتیٰ کہ پی ٹی ایم ٹوٹ گئی ۔ علی وزیر اور محسن داوڑ الگ ہوگئے۔ انہوں نے اپنی الگ جماعت بنائی اور انتخابات میں حصہ لیا۔ لیکن علی وزیر کو بار بار گرفتار کیا گیا ۔ جبکہ فروری کے انتخابات میں محسن داوڑ پر قاتلانہ حملہ ہوا۔
اگر پی ٹی ایم ایک پرامن تحریک تھی تو ریاست کو کیا ضرورت پڑی کہ اس پر پابندی لگائے۔ بظاہر تو اس نے بندوق نہیں اٹھائی تھی اور نہ ہی تشدد کا راستہ اختیار کیا تھا اس کے ایکشن اور اقدامات قانون کے مطابق تھے۔ اس کے باوجود اس پر پابندی لگانا سمجھ سے بالاتر ہے۔ اتنے بڑے اور پرامن پلیٹ فارم کو بند کرنے کے بڑے منفی اثرات مرتب ہوں گے ۔ نوجوانوں میں مایوسی پھیل جائے گی اور وہ تشدد کے راستے پر چل پڑیں گے۔ یہ کوئی حکمت نہیں کہ آپ آئین کے مطابق چلنے والی تنظیموں کو بندوق اٹھانے کی ترغیب دیں اگر حکمرانوں کا یہ خیال ہے کہ وہ ہر طرح کی صورتحال کو قابو میں لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یا جو ہونا ہے ہوجائے دیکھا جائے گا درست پالیسی نہیں ہے۔ یہ جو پابندی ہے یہ حالات کو فیصلہ کن موڑ کی طرف لے جاسکتی ہے اور بالآخر حکمرانوں کو اپنے کئے پر پچھتانا پڑے گا۔ خدشہ ہے کہ پی ٹی ایم کے بعد بلوچ یکجہتی کمیتی بھی زد میں آ جائے گی جو سول رائٹس کی ایک پرامن تحریک ہے۔ منظور پشتون نے 11اکتوبر کو جو قومی جرگہ بلایا تھا حکمرانوں کو خطرہ تھا کہ اس میں لاکھوں لوگ شرکت کریں گے۔ اس لئے انہوں نے انتہائی قدم اٹھا دیا اور اپنے تئیں معاملے کو ہی ختم کردیا لیکن اس سے تحریک میں نیا معاملہ شروع ہوجائے گا۔ نوجوانوں میں مایوسی اور بددلی پیدا ہوگی۔ حالات میں طلاطم پیدا ہوگا جس کے نتیجے میں کوئی سیاسی و عوامی استحکام پیدا نہیں ہوگا۔ پشتونوں نے چند دہائیوں میں بڑی جنگیں لڑی ہیں۔ 1980 میں امریکی آشیر باد پر ضیاءالحق نے انہیں سووین یونین کے خلاف جہاد کے نام پر اکسایا۔ اس جہاد کے کے نام پر لاکھوں پشتون مرے جبکہ امریکہ سوویت یونین کو شکست دے کر دم دبا کر بھاگ گیا۔ اس کے بعد پرویز مشرف نے امریکی حملہ میں معاونت کرکے ہزاروں پشتونوں کے قتل عام کا سبب بنا۔ زمانہ ہوا کہ پشتون جو جنگ لڑ رہے تھے اس کا کوئی نام نہیں تھا۔ یہ بے نامی جنگ تھی لیکن وہ وقت دور نہیں جب اس جنگ کے مقاصد واضح ہوں گے اور اس کا نام بھی پڑ جائیگا۔ جس دن اس جنگ کو نام ملا تو وہ فیصلہ کن گھڑی ہوگی۔ ایک پرآشوب ریاست کو مزید خطرات کے حوالے کرنا حکمرانوں کا ایسا عمل ہے جسے نادانی ہی کہا جاسکتا ہے۔
جبکہ صورتحال یہ ہے کہ چار دن سے وفاقی پایہ تخت محصور ہے۔ تمام ہائی ویز بند ہیں، ہزاروں کنٹینر پکڑ کر لوگوں کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ اگر تحریک انصاف جلسہ یا مظاہرہ کرتی تو کون سی قیامت آنی تھی۔ ایک طرف آئین نافذ ہے اور بنیادی حقوق معطل نہیں ہیں دوسری جانب اجتماع اور اظہار کی آزادی پر پابندیاں غیر قانونی عمل ہے۔ اگر یہی حالات رہے تو ریاست میں کبھی سیاسی استحکام نہیں آئے گا۔ جب استحکام نہیں آئے گا تو سرمایہ کاری کیسے آئے گی اور سرمایہ کاری نہیں آئے گی تو ترقی کیسے ہوگی۔ نا جانے اسلام آباد کے حکمران کس وجہ سے مطمئن ہیں اور نہیں ہر شعبہ میں ریاست کی زبوں حالی کی کوئی پروا نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حکمران تباہی اور خودکشی کی جانب رواں دواں ہیں۔ ایسا ایک دور دسمبر 1971 میں آیا تھا۔
اسے کیا کہا جائے کہ ایک صوبہ کے وزیراعلیٰ دو دن غائب رہے اور آئی جی پولیس کا کہنا ہے کہ وہ ان کی تحویل میں نہیں ہیں۔ بس اللہ ہی خیر کرے، اس کی توجیح کیا ہوسکتی ہے کہ حکمران جماعت ن لیگ کے سپریم لیڈر نواز شریف یہ کہے کہ جس طرح پہلے شمالی حملہ آور پنجاب آتے تھے آج کل شمالی وزیراعلیٰ پنجاب پر دھاوا بول رہے ہیں۔ یہ بات تو اپنے ملک کو لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے کے مترادف ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں